وجود

... loading ...

وجود

کدی سوچنا وی ناں۔۔

اتوار 03 مارچ 2019 کدی سوچنا وی ناں۔۔

دوستو، جب سے بھارتی طیارے تباہ ہوئے پاکستانی قوم کافی ’’شوخی‘‘ بنی ہوئی ہے، ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانا نہیں۔۔عوام کا مورال عزم و حوصلے کے انڈیکس پر انتہائی بلندیوں پر ہے، کراچی میں ہم نے کئی علاقوں میں گھوم پھر کر دیکھا، بازار کھلے ہوئے تھے، سارے کام نارمل انداز میں چل رہے تھے، چائے خانوں اور ’’تھڑوں‘‘ پر طیارہ کی تباہی موضوع سخن تھی، سب اپنی فوج پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسارہے تھے، کہیں سے ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ یہ قوم خوف زدہ ہے یا پھر ان پر جنگ مسلط ہونے کا خدشہ ہے۔۔ بات گلی کوچوں کی ہی نہیں سوشل میڈیا پر بھی پوری قوم ’’فیصل آبادی‘‘ بن کر جگتوں کی ڈوز دے رہی تھی، سب ڈھونڈڈھونڈ کر ایسی جملے بازی کررہے تھے کہ ہنسی روکے بنا چارہ نہیں تھا۔۔ دوسری طرف بھارتی عوام تھے جن کا میڈیا پاگلوں کی طرح ’’بھونکنے‘‘ میں لگاہوا تھا۔۔ کوئی بھی بھارتی چینل دیکھو تو لگتا تھا کہ بس جنگ شروع ہونا ہی چاہتی ہے۔۔ ہم نے بھارتی میڈیا کو دیکھ کر اندازا لگالیا کہ اب شاید اگلا ’’میڈیا بحران‘‘ بھارت میں آنا ہے، جس طرح کا نان پروفیشنل انداز وہ لوگ اپنائے ہوئے تھے اور جس طرح کی رپورٹنگ کررہے تھے لگتا تھا کوئی کامیڈی مووی چل رہی ہے۔۔بہرحال سنجیدہ باتیں بہت ہوگئیں۔۔ اب ذرا اپنے ’’اشٹائل‘‘ کی کچھ حالات حاضرہ پر گفتگو ضروری ہے، ورنہ آپ لوگوں نے کہناہے کہ یار مزہ نہیں آیا۔۔
بھارتی میڈیا پر شور مچاہواتھا کہ پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرادیا۔۔یہ اور بات ہے کہ یہ صرف منہ کے فائر ہی تھے، منہ کے فائر سے کبھی طیارے بھی تباہ ہوتے ہیں۔۔ہمارے صرف جے ایف تھنڈر نے ہی ابھی اڑان بھری ہے اور دو طیارے گراکر ثابت کردیا کہ پاکستان پر حملے کی کدی سوچنا وی ناں۔۔ ابھی دشمن سیناکو شاید علم نہیں کے ہمارے پاس جے ایف تھنڈر طیارے کے علاوہ بھی گجرطیارہ، وڑائچ طیارہ،
چودھری طیارہ وغیرہ بھی ہیں، ابھی تو وہ سامنے آئے ہی نہیں ورنہ لگ پتہ چل جاتا۔۔ گرفتار بھارتی پائلٹ کو جب ٹی وی پر چائے پیتے دیکھا تو ہمیں خوشی ہوئی کہ چلو بے چارے کی مہمان نوازی تو ہوئی ،یہ الگ بات کہ بیچارے کو چائے کے ایک کپ کی قیمت ’’مگ اکیس‘‘ کی صورت میں دینا پڑی۔۔ انڈین پائلٹ چائے بھی ایسے شرررر،شرررر کرکے پی رہا تھا کہ جیسے پائلٹ نہ ہو کوئی ٹرک ڈرائیور ہو۔۔اسے جب جمعہ کو رہا کیاگیا تو ہمارے پیارے دوست کا کہنا تھا کہ ۔۔ابھی نندن خوش نصیب ہے کہ جمعہ کو رہاہورہا ہے ورنہ یہاں تو اکثر لوگ جمعہ کو اندر چلے جاتے ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔مودی سرکارہمارے وزیر دفاع پرویزخٹک کی جسمانی کمزوری کو ہماری دفاعی کمزوری نہ سمجھے۔۔ہم نے ایٹم بم شیخ رشید کی شادی کے لیے نہیں رکھا۔۔
ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔انڈیا نے تین بڑے فیصلے کر کے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔۔سدھو پاجی کو کپل شرما شوسے نکلوادیا۔۔سلمان خان کی فلم سے عاطف اسلم کے گانے نکلوادیے اور پاکستان کوٹماٹر کی سپلائی بند کردی۔۔انڈیا والوں ڈرو اس وقت سے جب ممبئی میں بھی ڈائیووسروس اور نیوخان کی بسیں چلنے لگیں۔۔جنگ کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے لیکن پاکستانی یہ سوچ کر خوش ہورہے کہ’’ ایٹم بمب چلدا ویکھاں گے‘‘۔۔ جنگ کے بعد ہم مودی کو ذہنی ٹارچر دینے کے لیے گائے کا گوشت کھلائیں گے۔۔لگتا ہے اب بالی وڈ میں ایک اور فلم بنے گی جس میں پاکستان پر حملہ کرتے دکھایاجائے گا لیکن حقیقت میں ٹماٹر بند کرنے کے علاوہ اس فلم میں کوئی حقیقت نہیں ہوگی۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ، مودی نے اس قوم کو للکارا ہے جو چاول بھی ’’کرنل‘‘ کے کھاکھاکے بڑے ہوئے ہیں، جن کے پنکھے بھی ’’جنرل‘‘ کے ہیں، جو ’’کیپٹن‘‘ کا سگریٹ پیتے ہیں، جن کے گھی ’’مجاہد‘‘ ہے اور سیمنٹ فوجی۔۔انڈین فوج تو ہمارا بال بھی بیکا نہ کرسکی لیکن انڈین میڈیا ضرور ہمیں ہنساہنسا کر مارڈالے گا۔۔ اللہ ہم سب کو ان کے طوفانی ،ہذیانی، نسوانی بیان سے محفوظ رکھے۔۔
ہمارے ایک رائٹر دوست شوکت علی مظفر کا کہنا ہے کہ ۔۔محلے میں پھڈا ہوجائے تو دو چار ’’فنٹر‘‘ چیک کرنے جاتے ہیں کہ اگلی پارٹی کی تیاری کیسی ہے؟ پارٹی تگڑی ہو تو فنٹر آتے ہی بولتے ہیں۔۔اْستاد! اْدھر جانا بھی مت، انہوں نے تو بڑے بڑے لڑکے بلا رکھے ہیں۔اور اْستاد ، اپنے فنٹروں پر رعب جھاڑنے کے لیے جھوٹا بھرم دیتا ہے۔۔چلو تم لوگ بولتے ہو تو اْن کو پھر کبھی دیکھ لیں گے۔بھارتی طیاروں کی آمد بھی ویسی ہی تھی، جاکر بتادیا ہوگا ۔۔اْستاد! کدی سوچنا وِ ی ناں۔۔۔شوکت مظفر نے جنگ زدہ ماحول کے حوالے سے مزید کہا ہے کہ ۔۔دریا میں بچہ گر گیا، فوراً ایک شخص کود ااَور بچے کو نکال لایا۔لوگوں نے اس کی بہادری کی تعریف کی لیکن وہ چیخا۔۔ پہلے یہ بتاؤ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔ اَنی دیو اے مذاق۔۔بھارتی پائلٹ بھی قریبی لوگوں سے یہی بول رہا تھا، پہلے کیوں نہیں بتایا کہ ہم پاکستان میں گھس گئے تھے۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔انڈیا کی اوقات کا اندازا اِس بات سے لگائیں کہ وزیراعظم نے فارغ ہو کر، 5 دن بعد ان کو جواب دینا مناسب سمجھا۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ بھارت اس وقت سے ڈرے جب تاج محل کی دیواروں پرکوئلے سے لکھا ہوگا۔۔جئے بھٹو۔۔۔انہوں نے مودی سرکار اور بھارتی فوج کو اوپن چیلنج بھی دے دیا ہے، کہتے ہیں کہ انڈیاوالو،پاکستان پر قبضہ کرنا اتنا آسان نہیں، تم ہمارے صرف ایک بندے کو مارکر دکھاؤ، ہم تمہیں طاقت ور تسلیم کرلیں گے۔۔ اگر تم میں ہمت اور حوصلہ ہے تو پہلے ہمارے بھٹو کو مارکردکھاؤ۔۔کیوں کہ کل بھی بھٹو زندہ تھا، آج بھی بھٹو زندہ ہے۔۔ویسے یہ ہمارے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے قوم کو نعرہ دیا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔۔
طاقت اور حوصلہ تو مودی سرکارنے ہمارا دیکھ ہی لیا۔۔ ہماری قوم ذہانت میں بھی کسی سے کم نہیں۔۔ابوظہبی میں تین دوست جن میں ایک پاکستانی ایک انڈین اور ایک فلپائنی اکٹھے رہتے تھے،ان تینوں کو ایک جرم میں بیس بیس کوڑوں کی سزا سنا دی گئی۔جس دن سزا پر عمل درآمد ہونا تھااس دن وہاں کا کوئی قومی تہوار تھا۔قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ سزا تو لازمی دی جائے گی لیکن ہمارے قومی تہوار کی وجہ سے آپ تینوں ایک ایک رعایت لے سکتے ہو،سب سے پہلے فلپائنی سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟اس نے کہا کہ کوڑے مارنے سے پہلے میری کمر پر ایک تکیہ باندھ دیا جائے،چنانچہ اس کی کمر پر تکیہ باندھ کر کوڑے لگانے شروع کیے گئے،پندرہ سولہ کوڑوں کے بعد تکیہ پھٹ گیا اور باقی کوڑے اسے اپنی کمر پر سہنے پڑے۔اس کے بعد انڈین کی باری آئی،جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے تکیے کی حالت دیکھنے کے بعد کہا کہ میری کمر پر دو تکیے باندھ دیں،چنانچہ اس کی کمر پر دو تکیے باندھ کر بیس کوڑے لگا دیے گئے۔وہ بہت خوش ہوا کہ سزا پر عمل بھی ہوگیا اور تکلیف بھی نہیں ہوئی۔۔جب پاکستانی کی باری آئی تو قاضی نے کہا چونکہ تم ہمارے مسلم بھائی ہو اس لیے تمہیں دو رعایتیں دی جاتی ہیں بولو کیا چاہتے ہو؟ پاکستانی بولا۔۔پہلی رعایت تو یہ دیں کہ مجھے بیس کی بجائے چالیس کوڑے مارے جائیں،قاضی اور دیگر لوگ بہت حیران ہوئے کہ یہ کیسی رعایت ہے،بہرحال پاکستانی سے دوسری رعایت کا پوچھا گیا تووہ کہنے لگا۔۔میری کمر پر اس انڈین کو باندھ دیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر