... loading ...
بھارت میں عام انتخابات اپریل اور مئی میں متوقع ہے۔ مودی حکومت پانچ ریاستوں کے انتخابات ہارنے کے بعد تیزی سے اپنی مقبولیت کھورہی ہے۔ چنانچہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی (جنہیں گجرات کا قصاب بھی کہا جاتا ہے )ایک بار پھر گجرات کی وہی بوسیدہ وفرسودہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے پورے بھارت کو مسلم دشمنی کے جنون میں مبتلا کرچکے ہیں اور اب وہ اپنے ارذل واسفل ذہن کے ساتھ پاکستان کے خلاف محاذآرا ہیں۔ بھارتی طیارے منگل کے روز آزاد جموں وکشمیر میں تین سے چار میل تک اندر آئے اور پاکستانی طیاروں کے بروقت ردِ عمل پر راہِ فرار اختیار کرگئے۔ اگلے روز ایک بار پھر بھارتی طیارے اپنے اُسی لہر بہر ، چہل پہل اور اوج موج میں خطِ متارکہ جنگ( لائن آف کنٹرول ) کے آس پاس منڈلانے لگے تو پاکستانی فضائیہ نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے دولڑاکا طیارے مار گرائے۔ دودنوں میں ہونے والے دونوں واقعات نے بھارت کی پست ذہنیت اور آلودہ طبیعت کا بھانڈا بھی ساتھ ساتھ پھوڑ دیا۔ پہلے دن راہِ فرار اختیار کرنے والے بھارتی طیاروں کی کارروائی پر پاکستان میں پڑنے والے چار گھڑے ہندوستان پر گھڑوں پانی ڈالنے کے لیے کافی تھے۔ مگر بھارت نے اپنی ناکامی کو ماننے کے بجائے پاکستان کے اندر ایک بڑی کارروائی کا جھوٹا دعویٰ کیا، جبکہ اس کا کوئی ثبوت بھی پیش نہ کرسکا۔ اِدھر پاکستان نے بھارتی طیاروں کا ملبہ دکھایااور گرفتارپائلٹ کی چائے پیتے گفتگو بھی نشر کر ڈالی۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
پاکستان نے بھارتی طیاروں کو گرانے کے بعد انتہائی سنجیدہ وفہمیدہ رویہ اختیار کیا۔ پاکستان نے اپنی عسکری صلاحیت کا لوہا منوانے اور بھارت کے وہم وزعم اور خودبینی و خودپسندی کو خاک میں ملانے کے بعد بجا طور پر ایک مستحکم مگر ذمہ دارانہ طور پر امن کا پیغام دیا۔ پاکستانی وزیراعظم کا قوم سے خطاب اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس بریفنگ میں یہ نکتہ انتہائی دانش مندی کے ساتھ مناسب ترین الفاظ میں اجاگر کیا گیا۔ پاکستان امن کا خواہش مند ہے مگر اس کے لیے مجبور نہیں۔لڑنے کی طاقت کے ساتھ نہ لڑنے کا پیغام ہی دراصل امن کا مناسب ترین پیغام ہوتا ہے۔ کمزور فریق کی امن کی خواہش کبھی آبرو نہیں پاتی ، پاکستان نے اپنی خواہش کو انتہائی آبرومندانہ انداز میں انتہائی مناسب وقت پر ظاہر کیا ۔ اس ضمن میں جس طرح پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت نے ہم آہنگی کے ساتھ مربوط ومضبوط پیغام دیا ہے وہ خود پاکستان کی حالیہ چند عشروں کی تاریخ میں ایک نیا ولولہ انگیز باب ہے۔ گزشتہ دودہائیوں کی سیاسی تاریخ دیکھیں تو یہ سیاسی وعسکری خلیج اور آپس کی آپادھاپی، مارا ماری اور کٹا چھنی کی تاریخ ہے۔ جس سے بھارت کو پاکستان کے اندر اپنی جڑیں پھیلانے کی ہمت پیدا ہوگئی اور اس نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے ایسے افراد تلاش کیے جو بھارتی مقاصد کے تحت حالات کی صورت گری میں اُس کے معاون بنے رہتے۔ الحمد للہ پاکستان کے حالیہ شب وروز بدلے ہوئے زمین وآسمان کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ بھارت دراصل کیا ہے؟ بھارت روایتی معنوں میں پاکستان کاایسا دشمن نہیں جو شمالی وجنوبی کوریا کی شکل میں دنیا دیکھتی ہے یا پھر مختلف یورپی ممالک میں دشمنی کی مخصوص فضا میں ریاستیں ایک دوسرے کے دشمن شناخت کرتی ہیں۔ یہ امریکا اور کیوبا کی دشمنی جیسی بھی دشمنی نہیں، یہاں تک کہ یہ امریکا اور روس کے سرد جنگ کے دنوں والی دشمنی کی مانند بھی نہیں۔ بھارت جب پاکستان یا مسلمانوں کا نام لیتا ہے تو وہ اپنے بدترین برہمن ذہن کے ساتھ اپنی تہذیبی برتری کا ایسا بے ہودہ تصور باندھتا ہے جو صرف اور صرف غلبے کا تصور ہے۔ اس ذہنیت میں کسی سمجھوتے یا برابری کی بنیاد پر کسی نوع کے تعلق کی معمولی گنجائش بھی موجود نہیں۔ پھر اس پر ہندو برہمن مسلمانوں کے عرصۂ حکمرانی کا انتقام بھی شامل کرتے ہیں جو اُنہیں تاریخی و تہذیبی طور پر اپنے فائق تر مقام کے ساتھ جھیلنا پڑا۔قیام پاکستان سے آج تک کی پوری تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ رنگ بھارتی حکمرانوں کے نفسیات میں ہر موقع پر ملے گا۔ چنانچہ 1947ء سے جاری ان دونوں ملکوں کے تعلقات کے بہاؤ میں کوئی نئی چیز ہو کر نہیں دے رہی۔
پاک بھارت تعلقات کی نوعیت میں جہاں کہیں جتنی بھی خرابیاں ہیں ،وہ سب کچھ یکطرفہ طور رپر بھارت کی پیدا کردہ ہے۔ اُصولی طور پرقیام پاکستان کے ساتھ ہی تقسیم ہند کے اصول پر کشمیر پاکستان کو مل جانا چاہئے تھا مگر نہیں ملا۔ اس طرح بر صغیر کی تقسیم کے فارمولے کو بھارت نے یکطرفہ طور پر روند ڈالا۔ پھر یہ مسئلہ پاکستان نہیں بھارت خوداقوام متحدہ میں لے کر گیا۔ اورپھر اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی خود بھارت نے قبول نہیں کیں۔ قیام پاکستان سے آج تک پاکستان میں کوئی حکومت بھی ایسی نہیں آئی جس نے تاریخی طور پر بھارت سے مذاکرات سے انکار کیا ہو۔ بھارت نے ایک حیلہ اور وتیرہ یہ اختیار ضرور کررکھا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ (اور اس سے مراد ہمیشہ وہ فوج لیتا ہے)بھارت سے مذاکرات کی راہ میں رکاؤٹ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے اندر ماضی قریب میں ایسی حکومتیں رہیں جنہوں نے اس بھارتی موقف کو تقویت دینے والے خلافِ حقیقت بیانات دیے۔ اور بالواسطہ طور پر بھارت کے غلط موقف کو جائز بنانے کی شعوری کوششیں کیں۔ اس اندازوتیور نے پاکستان کے اندر طاقت کے مراکز میں ایک کھینچا تانی پیدا کی۔ بھارت اس صورت کا خالق تھا اور اس سے لطف لینے لگا۔ مگر یہ ایک خلافِ حقیقت موقف تھا۔ پاکستان کے اندر کبھی جنرل ایوب، جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے ادوار میں بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات سے انکار نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ جنرل مشرف تاریخ بدلنے کا خواب سجائے آگرہ سے رسواکن انداز میں واپس لوٹے۔ بھارت نے مذاکرات کی کامیابی کے آخری لمحات میں اُنہیں دورے کے طے شدہ شیڈول سے پہلے پاکستان واپس لوٹنے پر مجبور کردیا۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ جب کبھی عارضی اور نامکمل مذاکرات کیے تو وہ عالمی دباؤ میں کیے اور ٹالنے کے لیے کیے۔ اس سے پیدا ہونے والے پاک بھارت حالات کا بھی پاکستان کبھی ذمہ دار نہیں رہا۔
درحقیقت یہ بات ٹھیک ٹھیک سمجھنے کی ہے کہ بھارت پیشگی اقدام کے طور پرامریکا کی طرح پاکستان کے خلاف کارروائی کا مستقل حق منوانا چاہتا ہے۔ یہ نکتہ موجودہ حالات میں مسلسل فراموش کیا جارہا ہے مگر اس کا ابلاغ مسلسل بھارتی ذرائع ابلاغ پر کیا جارہا ہے۔ گزشتہ روز بھارتی ٹی وی چینلز پر ایک سے زیادہ بار اس نکتے کو اجاگر کیا گیا کہ جب امریکا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے تو بھارت اپنے خلاف خطرات کے پیشگی سدباب کے طور پر کارروائی کیوں نہیں کرسکتا؟بھارت کی یہ ذہنیت قتل وغارت گری کے آخری کھیل کی خواہش پر مسلسل پختہ ہوتی جارہی ہے۔ وہ 1947 ء سے اب تک چارلاکھ کشمیریوں کو قتل کرچکا ہے۔جہاں اُس نے بہیمت کی کوئی شکل ایسی نہیں جو اختیار نہ کی ہو۔ فلسطین میں اسرائیل نے وہ حربے نہیں آزمائے جو کاٹ چھانٹ کے لیے کشمیر میں بھارت نے اپنائے۔ ہر گزرتے دن بھارت کے جنگی جنونی ہندوؤں میں یہ نفسیات طاقت پکڑ رہی ہے اور وہ اِسے اب کشمیر سے پھیلا کر ہر مسلم علاقے تک لے جارہے ہیں۔ کسی بھی مسلمان کی جائیداد کو ہتھیانے کے لیے اُس کے گھر میں گائے کے گوشت کی موجودگی کا الزام لگا کر اُسے انتہائی ظالمانہ طریقے سے شہیدکر دیا جاتا ہے۔ زندہ جلانے سے لے کر اُس کے اعضاء کاٹنے تک ہر نوعیت کا ظلم روا رکھا جاتا ہے۔ اس میں تشدد سے لذت کشید نے کے مناظر بجائے خود دل دہلادینے والے ہوتے ہیں۔ بھارت اب اسی نفسیات سے پاکستان کے خلاف بروئے کار ہے۔ پاکستان میں اس امر پر سرے سے غور نہیں کیا جارہا کہ بھارت نے بالاکوٹ پر حملے کے بعد اپنے عوام میں یہ موقف کیوں اختیار کیا کہ اُنہوں نے تین سو پاکستانیوں کونشانا بنایا ۔یہ ایک جھوٹا موقف تھا مگر اس میں بھی اُنہیں لاشوں اور وہ بھی قابل ذکر تعداد میں لاشوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ ہندو برہمن ذہن اس سے کم کسی چیز پر تیار نہیں۔ اس ذہنیت کی رکاکت اور شقاوت کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔اب بھارتی اس وہم وزعم میں بُری طرح مبتلا ہیں کہ جس طرح امریکا نے نوگیارہ کے بعد یہ اُصول یکطرفہ طور پر تسلم کرایا کہ دہشت گردی کے خلاف وہ پیشگی اقدام کا حق رکھتا ہے اور پھر وہ ملکوں ملکوں کشتوں کے پشتے لگانے کے لیے نکل پڑا۔ ٹھیک اسی طرح جب وہ کہتا ہے کہ بالا کوٹ میں کوئی دہشت گرد کیمپ ہے تو نہ صرف یہ تسلیم کیا جائے بلکہ اس پر اُس کے حملے کا ’’حق ‘‘ بھی تسلیم کیا جائے۔ بھارتیوں کا یہ نشہ کسی دلیل سے اُترتا دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی انتہائی مناسب مختصر اور پراثر تقریر اور ڈی جی آئی ایس پی آر کے انتہائی موزوں پیغام کے باوجود بھارتی ذرائع ابلاغ پر ان کے خلاف مسلسل نکتہ چینی جاری ہے۔ پاکستان تب تک بھارت کو بامعنی مذاکرات پر آمادہ نہیں کرسکتا جب تک یہ جان نہ لے کہ وہ درحقیقت کیا ہے؟ بھارت کی شقاوت ورکاکت کی تاریخ اور اس کے تہذیبی تسلط کی نفسیات کا پوری طرح ادراک کیے بغیر اُس سے مذاکرات کی اُمید اور جنگجوئی سے اجتناب برتنے کی دانائی کی توقع رکھنا محض خود کو فریب دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ سات دہائیوں تک دیواروں سے ٹکریں مارنے کے بعد بھی یہ نکتہ سمجھ میں نہیں آیا تو پھر کب آئے گا؟
پاکستان کو اس تناظر میں مسلسل جاگتے رہنے کی ضرورت ہے۔ پاک فوج کی بیداری نے قوم میں ایک سرشاری پید اکی ہے۔ بھارتی طیاروں کو گرانے کے بعد ہماری جانب سے ذمہ داری کے مظاہرے نے اقوام عالم میں ہماری نیک نامی میں اضافہ کیا ہے۔ یہ سب کچھ پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان میں ایسے دن کم کم دکھائی دیے ہیں۔ ہماری تاریخ اس اعتبار سے انتہائی ناقابلِ اعتبار رہی ہے۔ ان مناظر کے دوام میں ہی ہمارا مستقبل محفوظ رہے گا۔ ایک قوم کے طور پر ہماری آبرو بھی اسی میں ہے ۔ شاباش پاک فوج ، شاباش عمران خان!!!