وجود

... loading ...

وجود

اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ

جمعه 22 فروری 2019 اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ

بدترین تعصب اور بے پناہ لالچ نے ہمارا تماشا بنا دیا۔ مرعوب لوگوں کی دانائی بھی مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ ولی عہد محمد بن سلمان کامیاب دورے کے بعد رخصت ہوئے مگر اس دورے کو ناکام دیکھنے کے خواہشمندوں کا ماتم ختم نہیں ہورہا۔ کیسے لوگ ہیں ہم؟ تعصبات نے جنہیں اندھا کردیا۔ گروہی نفسیات کے سامنے یہ پھلتا پھولتا ،چمکتا دمکتا ملک کم پڑنے لگا ۔
مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کے جرائم صرف یہ تو نہیں کہ انہوں نے باجماعت ، پورے خشوع وخضوع کے ساتھ ملک لُوٹا۔ چارچار ہاتھوں سے دولت سمیٹی ۔وسائل سے مالامال ملک کو دردر کا بھکاری بنایا۔ اس دنیا میں ابھی پوری طرح آنکھ بھی کھولنے پر قدرت نہ رکھنے والے ہانپتے کانپتے بچوں کو مقروض بناکررکھ دیا۔ ان جماعتوں کا اس سے بھی بڑا جُرم قومی دانش کو آلودہ کرنا ہے۔ ملک کے عام لوگوں کے ذہنوں کو فکری کجروی میں مبتلا کرنا ہے۔ ملک کے اجتماعی فہم کو گروہی تعبیرات میں بدلنا بھی ہے۔ اس کے حقیقی اہداف کو بے سمتی سے دوچار کرنا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہماری کوئی قومی متاع ہی نہ ہو، قومی دانش ہی یرغمال ہو، قومی تناظر ہی زیر قبضہ ہو۔ ہر ایک کے پاس اپنی اپنی ڈفلی اور اپنااپنا راگ ہے۔سعودی ولی عہد کے دورے پر حکومت کے ساتھ حزب اختلاف کا رویہ وہی ہے جو کسی صاحب کمال پیر کے ساتھ اُس کی بیوی کا رہا تھا۔ جھکی بیوی اُنہیں مان کر ہی نہ دیتی تھی۔ ایک روز پیر صاحب نے جلال میں ہوا میں اڑنا شروع کیا۔ لوگوں نے چھت پر چڑھ کر کسی کو اڑتے دیکھا اور مرعوب ہونے لگے، بیوی نے بھی ہوا میں اڑتے پیر کو دیکھا اور پہچان نہ پائی۔ صاحب کمال ہوا میں اڑنے کے بعد زمین پر آرہے اور سیدھے گھر پہنچے ، بیوی نے انتہائی جوش سے کہا کہ بڑے پیر بنے پھرتے ہو، پیر تو وہ تھا جو ابھی ہوا میں اڑتے دیکھا ، ذرا پہلے آتے تو اپنی آنکھوں سے خود بھی دیکھ لیتے۔ صاحب کمال پیر نے بیوی کو بتایا کہ وہ میں ہی تھا۔ بیوی جھٹ سے تیوری چڑھا کر بولی:تب ہی میں کہوں کہ یہ ٹیڑھا ٹیڑھا کون اڑ رہا ہے۔عمران خان کی حکومت کے متعلق پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کے رہنماوؤں اور اُن کے دسترخوانی قلم قبیلے کا ماجرا مختلف نہیں۔ولی عہد کے دورے سے قبل پہلا راگ یہ چھیڑا گیا کہ اس دورے سے ملنے والا کچھ نہیں۔ اس دوران میں یہ اندازا ہوا کہ دورہ بڑے مالیاتی معاہدوں میں ڈھلنے والا ہے تو نوازشریف صاحب جیل میں اپنا غم بھول گئے اور کہاکہ جو کچھ مل رہا ہے سب ہمارے عہد میں طے ہوا تھا۔ جب ان بے بنیاد باتوں کی باسی کڑھی میں کوئی اُبال نہ آیا تو ان جماعتوں کے بھونپوؤں نے انتہائی مذموم راستا اختیار کرتے ہوئے اِس دورے کو فرقہ وارانہ منہج پر تولنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش یا سازش آج بھی جاری ہے ۔
وزیراعظم عمران خان کے خلاف ولی عہد کی گاڑی چلانے کا پروپیگنڈا بھی اسی مذموم ذہنیت کا عکاس ہے۔ یہ پورا مزاج دراصل آٹا گوندھتے ہوئے ہلتی کیوں ہے ،کے بمصداق ہے۔ قومی حکومتیں اسی طرح کارگزار ہوتی ہیں ، اس کے اہداف اہم ہوتے ہیں ، اس کی بناؤٹ اور نمائشی اقدامات معمولی اہمیت بھی نہیں رکھتے۔ دورے کے اثرات ونتائج پر بات کرنے کے بجائے اس طرح کی باتیں بہت پست ذہنیت کی آئینہ دار ہے۔عمران خان کی اس محبت آمیز پیش قدمی نے ولی عہد محمد بن سلمان کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے کہ وہ اُنہیں سعودی عرب میں اپنا سفیر سمجھیں۔یہ کم اہم معاملہ نہیں کہ سعودی عرب میں قید پاکستانی واپس پلٹ رہے ہیں، ویزا فیس میں کمی اور حجاج کے لیے امیگریشن کی پاکستان میں ہی سہولت کوئی معمولی فیصلے نہیں۔ یہ سب کچھ سعودی عرب کے بیس ارب ڈالر کے معاہدوں کے ساتھ پاک سعودی تعلقات کی رونق کو بڑھاتے اقدامات ہیں۔ پاک سعودی تعلقات کی اس پیش قدمی کے تناظر میں ایک مکروہ کھیل اور بھی کھیلا گیا جو مسلم لیگ نون کے راتب خوروں کی جانب سے ایک خوف ناک حکمت عملی کے طور پر اختیار کی جارہی ہے ،یہ قبیلہ عمران خان کی مذمت اور فوج کی مدحت کو ایک تکنیک کے طور پر برت رہاہے۔نونی دسترخوانی جتھے کے تمام لکھنے اور بولنے والے اسی نہج پر دوائے دل بیچتے اوراپنی دُکان بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں۔یہ قبیلہ حکومت کی کامیابیوں کو دراصل فوج کی حسنِ عطا سے تعبیر کرتا ہے مگر اُن ہی کارناموں پر جسے وہ فوج کے مرہون منت قرار دیتے ہیں،اُسی پر تنقید کرتے ہوئے وہ نام عمران خان کا لینے لگتے ہیں۔ دلائل کے سناٹے میں قلم کے یہ فراٹے الفاظ کی ہیر پھیر سے جاری ہیں۔ کالم نگاروں سے تجزیہ کاروں تک سب کے سب اسی اُسلوب کے کھونٹے سے بندھے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر فوج اور حکومت یکساں صفحے پرہے تو پھر فوج کے لیے حمایت اور عمران خان کی مخالفت کی گنجائش ایک ہی قلم سے ایک ہی مسئلے پر ایک ہی دم میں کیسے ہو سکتی ہے ۔ دراصل ان کی مخالفت جتنی جھوٹی ہے اتنی ہی اُن کی حمایت بھی۔ مدتیں گزر گئیں یہ لوگ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ دستار صرف وجہ عزت نہیں ہوتی ،کردار پر بھی لوگوں کی نگاہ ہوتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ولی عہد محمد بن سلمان کی گاڑی کیوں چلائی؟دراصل عمران خان کی ولی عہد سے گرمجوش تعلقات کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔مگر پھر بھی لوگوں کو یاد نہیں رہی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سعودی عرب سے تعلقات کی گہرائی میں پاک فوج کا اہم کردار ہے ۔ مگریہ کردار کب نہیں تھا؟ یہ کردار تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں کسی سے قومی سطح کے تعلقات کی توجیہات میں ذاتی حوالے ڈھونڈے جاتے ہیں۔ یہ کھیل بھی کسی اور نے نہیں شریف خاندان نے شروع کیا تھا۔ شریف خاندان ترکی، چین اور سعودی عرب سے لے کر بل کلنٹن کے دور کے امریکا تک پاکستان کے ریاستی تعلقات کو نوازشریف کے ذاتی تعلقات کی گرمجوشی کا نتیجہ قرار دیتے تھے، اور اس لطیفے پر کسی کو ہنسی بھی نہیں آتی تھی۔شریف خاندان نے ریاستی ذمہ داریوں کو ذاتی تعلقات اور مفادات کے طور پر استعمال کرکے بین الریاستی تعلقات میں اِسے ایک آڑ ، چال اور ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور اپنے دسترخوانی قبیلے سے اسے بالکل برعکس طور پر یہ باور کرایا کہ نوازشریف کی وجہ سے ان ریاستوں کے ساتھ تعلقات میں گہرائی پیدا ہوئی ہے۔ اس مضحکہ خیز دعوے کی سب سے منحوس پرچھائیں سعودی عرب سے تعلقات پر بھی پڑی ہوئی تھی۔ اکتوبر 1999ء کے عجیب وغریب حالات میں نوازشریف کی جیل سے سعودی عرب پراسرار روانگی نے اس دعوے کو تقویت دی۔ سعودی ولی عہد کے تازہ دورے نے شریف خاندان کی اس سبقت کا تاثر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا ۔پھر اُن کی جانب سے بھاری سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے یہ الفاظ تو قیامت ڈھا گئے کہ وہ پاکستان میں کسی اچھی قیادت کا انتظار کررہے تھے۔ نوازشریف کی طرف سے اس مغالطے کو بھی اب رفع ہوجانا چاہئے کہ سعودی سرمایہ کاری کے موجودہ معاہدے پر اُن کے دورے میں کام ہوا تھا۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے بھارت میں آئل ریفائنری کا منصوبہ نوازشریف کے دور سے ہی زیر غور تھا۔ جس پر تب کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ تاریخی طور پر اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر نوازشریف میں ایسی کیا جوہری تبدیلی پیدا ہوئی کہ اُنہوں نے بھارت کے حوالے سے مسلم دنیا میں پیدا ہونے والی لپک کا بُرا ماننا ہی چھوڑدیا تھا۔ نوازشریف کے عدالتی فیصلے پر وزیراعظم کے منصب سے فراغت کے بعد شاہد خاقان عباسی نے موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا ۔ جس میں بھارت کے کم وبیش چالیس ارب کے منصوبے کے مقابل صرف تین چار ارب کی ایک آئل ریفائنری کا منصوبہ پاکستان کے لیے بھی مانگا گیا۔ یہ اجلاس تقریبا 52سیکنڈز میں’’ انشاء اللہ انشاء اللہ ‘‘کے ساتھ ختم ہوگیا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ امریکا میں اپنی بیلٹ اتروانے پر بُرانہ ماننے والے تب کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سعودی عرب کے اس سلوک کا بھی بُرا نہ منایا ۔ اس سلوک کو تب بھی فوجی سربراہ نے ہی محسوس کیا۔ بعدازاں اس پر کام ہوا۔ ظاہر ہے کام بھی وہی کرے گا جو برادرانہ تعلقات میں اس سرد مہری کو محسوس کرے گا۔ چنانچہ اس کی پہل قدمی فوج کے حصے میں ہی آنی تھی جو آئی ۔ مگر اس میں ایک اہم پہلو عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد دوسری بار دورۂ سعودی عرب سے متعلق بھی ہے۔ جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کی سرمایہ کاری کانفرنس میں بہت سے ممالک نے شرکت سے انکار کیا تب پاکستان نے اس میں شرکت کی۔ وزیرا عظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس کے دن خود ولی عہد عمران خان کے پا س آئے اور اُنہیں تمام پروٹوکول بالائے طاق رکھ کر اپنی گاڑی میں بٹھا کرکانفرنس میں شرکت کے لیے لے کر گئے۔ اس تعلق کو عمران خان نے ولی عہد کے استقبال میں گاڑ ی خود چلاکر نبھایا۔ اہم بات یہ تھی کہ یہ سفر تقریباًآدھے گھنٹے سے کچھ زائد منٹوں پر محیط تھا جس میں عمران خان اور محمد بن سلمان نے آپس میں کھل کربات کی ۔ پاکستان کے لیے سرمایہ کاری میں فیاضی کارنگ اس سفر میں پیدا ہوا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں گروہی سوچ نے اس پورے معاملے کو بدترین طور پر آلودہ کیا۔ شریفوں کے مرہون منت طبقے کو دھچکا یہ پہنچا ہے کہ وہ اب سعودی شہزادوں سے اپنے تعلقات کی پرانی نہج کا ڈھنڈورا بھی پیٹنے کے قابل نہیں رہ گئے۔ سعودی ولی عہد کے دورے کا یہ فائدہ بالکل نقد پہنچا ہے جبکہ بیس ارب ڈالر کے معاہدے ابھی اُدھار ہیں۔ اب آخر میں مشاہداللہ خان کے اس بیان سے بھی لطف اندوز ہو لیں کہ ہماری راجہ ظفرالحق کے ساتھ ولی عہد سے ملاقات ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ نوازشریف میرے دل کے بہت قریب ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر