... loading ...
پاکستان میں طاقت کے سب سے عالی مرکز پر جلوہ افروز شخصیت کے خیالاتِ عالیہ کا یہ نکتہ تمام بڑے حلقوں میں زیرِ گردش ہے کہ ’’وہ ایک نارمل پاکستان چاہتے ہیں‘‘۔ متوازی طور پر ایک اور تصورِ پاکستان سے بھی ہمیں سابقہ ہے۔ یہ ریاست مدینہ کا تصور ہے جو ہمارے پیارے وزیراعظم عمران خا ن کا ہے۔ جن سے مذکورہ طاقت ور شخصیت کو سب سے زیادہ میلان ہے۔ اور وہ گاہے اُن کی تعریف سے نہیں چوکتے۔ یہاں پہلا سوال تو یہ اُٹھتا ہے کہ کیا ایک نارمل پاکستان اور ریاست مدینہ میں کوئی مطابقت ہے؟واضح رہنا چاہئے کہ طاقت ورشخصیت کے نزدیک ایک نارمل پاکستان سے مراد ایوب خان کا پاکستان ہے۔اب ایوب خان کے عہد میں جھانک کر ریاستِ مدینہ کے آثار تلاش کرنے سے بہتر ہے آدمی ملاقاتِ حضرت خضرؑ یا آبِ حیات کی جستجو میں لگ جائے۔ اس نسبت سے مراد میر تقی میر کا خیال نہیں کہ غالب کی زبان میں ہم فرشتوں کے لکھے پر ناحق پکڑے جائیں!غضب خدا کا ،میر نے کیا خیال باندھا ہے !
نسبت تو دیتے ہیں تیرے لب سے پر ایک دن
ناموس یوں ہی جائے گی آبِ حیات کی
کیا ایک نارمل پاکستان میں حاجیوں کے لیے زرتلافی کی گنجائش نہیں؟ اسے سوال ہی رہنے دیں۔ مگر ایک دوسرا سوال نہایت معنی خیز ہے۔ کیا ریاست مدینہ میں بھی حاجیوں کے لیے زرِ تلافی کی گنجائش نہیں؟ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے اقدامات کا بہاؤ اُن کے ریاست مدینہ کے دعوے کے بالکل برعکس دوسری سمت میں دکھائی دیتا ہے۔ وہ مملکت کو ایک اشراف کی حکومت میں تبدیل کررہے ہیں اور اس کے باوجود مسلسل عوام کے مفاد میں اقدامات کا برعکس دعویٰ بھی کررہے ہیں۔ درحقیقت ہمیں ریاست مدینہ میں داخل کرتے ہوئے عمران خان کو کرنا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ حج کی عبادت کو ہر عام آدمی کے لیے ’’آسان‘‘ اور ’’قابلِ رسا‘‘بناتے۔ مگر اُن کا طرزِ عمل عبادت کو دشوار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے تو اس کی ذمہ دار خود حکومتیں ہیں عوام نہیں۔ عمران خان کی حکومت اگرمعاشی مشکلات کے باعث حج پر زرِ تلافی کا خاتمہ چاہتی تھی تو وہ عمومی طور پر تمام شعبوں سے ’’زرِتلافی‘‘ کا خاتمہ کردیتی جس میں حج بھی شامل ہوتا۔مگر حکومت کے عمومی طرزِ عمل سے پتہ چلتا ہے کہ اُس کی التفات کی گنگا کہاں بہتی ہے اور اُس کی جبیں پر شکنیں کہاں نمودار ہونے لگتی ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی مشروب ساز اور صحت دشمن اداروں کوک اور پیپسی کمپنیوں کی جانب سے عمران خان سے ملاقاتوں میں بہت معمولی سرمایہ کاری کی پیشکش کی گئی تو حکومت مکمل بچھ گئی اور اُنہیں تمام ممکنہ سہولتیں دینے کا عندیہ د ے دیا۔یہاں تک کہ غیر ملکی وفود سے شرماتے مسکراتے ملتے ہوئے ہمارے وزیراعظم نے ارشاد فرمایا کہ وہ اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے ایک نئے نظام کی نگرانی خود کریں گے۔ مگرریاست مدینہ کے قیام کے دعوے دار کو حج آپریشن کی نگرانی کی نہیں سوجھی۔کسی کے دل میں حج کی زرتلافی کے خاتمے سے قبل پارلیمنٹ کے’’ فقراء مساکین اور بھوکے ننگے‘‘ اراکین کے کھانے پینے پر دیا جانے والا زرتلافی ختم کرنے کا خیال بھی نہیں آیا۔ حج پر دی جانے والی زرِ تلافی تو صرف نو ارب روپے بنتی ہے مگر فرٹیلائزر اور ٹیکسٹائل وغیر ہ پر معاف کیے جانے والے 125؍ارب روپے معاف کرتے ہوئے اس حکومت کو کہیں پر بھی کسی مجرمانہ احساس نے نہیں گھیرا۔ برق بیچارے حجاج کرام پر ہی گرنی تھی۔
صرف حج سے زرتلافی کا خاتمہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ عمران خان کے کُنجِ لب سے پھوٹنے والے ریاست مدینہ کے الفاظ بے روح ہیں اور وہ بھی نواز شریف کی طرح اُس لابی کے چُنگل میں پھنستے جارہے ہیں جو ملک میں مذہبی اقدار کی ہر شکل کو ٹیڑھے منہ سے دیکھتی ہے۔ یہاں یہ نکتہ ہر گز زیرِ بحث نہیں کہ ’’نارمل‘‘ پاکستان کے خواہشمندوں کا بھی یہ ہدف ہے یا نہیں۔ بہر کیف یہ اندیشہ اس لیے بھی بے جواز نہیں کہ عمران خان کی حکومت میں بھی جنرل (ریٹائرڈ)پرویز مشرف کے عہدِ سیاہ کے اکثر وزراء دکھائی پڑتے ہیں جو اُس دور کی بدترین روایات کے ساتھ مذہب بیزار بھی ہیں۔ یہاں تک کہ اُنہیں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کا بھی جو باسی بواسی اور باسل ونطّاط ’’انگڑ کھنگر‘‘ ملا ہے وہ بھی اُسی قبیل کا ہے۔ حیرت ہے کہ عمران خان ان کے درمیان رہ کر ریاست مدینہ کا بوجھ کیسے اُٹھا لیتے ہیں؟اِسے سادگی کہیں یا دھوکا دہی؟ مگر یہ سامنے کا ایک ایسا واقعہ ہے کہ جسے کوئی شخص کوئی بھی معنی دے وہ حق بجانب ہوگا۔
عمران خان کی حکومت جن دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی ، اُس میں یہ گنجائش نہ تھی کہ وہ عوام کے صبرکا مزید امتحان لیتی۔ یہ اُن کے حزبِ اختلاف کے ایاّم میں دھرنوں کی صورت میں آزمایا جاچکا تھا۔ اب یہ کچھ دینے کا وقت تھا۔ جو زیادہ بہترطریقے سے کرپشن کے خاتمے کے ساتھ دیا جاسکتا۔ حج جیسی عظیم عبادت بھی عمران خان کے لیے ایک موقع تھا۔ مگر وہ ناکام رہے۔ عمران خان کو زرِ تلافی کے خاتمے پر کوئی کچھ بھی نہ کہتا ، اگر وہ حج کی عظیم عبادت کو صاف ستھری اور کرپشن سے پاک کردیتے۔ عمران خان حاجیوں پر پی آئی اے کی پرواز کی پابندی ختم کردیتے تو حجاج کرام کو پی آئی اے کی جانب سے ہتھیائے گئے زائداخراجات سے نجات مل جاتی۔ یہ ایک عجیب موقف ہے کہ پی آئی اے جبری طور پر حاجیوں سے دیگر ائیرلائنز کے مقابلے میں زیادہ رقم بھی بٹورے اور حکومت اُنہیں دوسری پروازیں لینے کا موقع بھی نہ دے۔یہ کتنا بدبودار طرز عمل ہے کہ حکومتوں کی نااہلی سے پی آئی اے نقصان میں جائے اور اسے سہارا دینے کے لیے حج آپریشن میں حجاج کرام سے بھتے لیے جائیں ۔ آخر حکومت ، بانی متحدہ اور لیاری کے انڈرورلڈ گروہوں میں کوئی فرق تو ہونا چاہئے۔ یہ سب عوام کو اپنے اپنے طریقوں ، ہتھکنڈوں اور حیلوں سے لوٹتے ہیں۔
حج کے معاملے میں ایک عمومی زیادتی تمام حجاج کرام سے یہ کی جاتی ہے کہ صرف چند روزہ حج کے لیے حجاج کرام کو چالیس دن تک سعودی عرب میں قیام پر مجبور رکھا جاتا ہے؟اس میں ایک مسئلہ تو وہی پی آئی اے کا ہے کہ حجاج کرام کو پی آئی اے کی پروازوں سے واپسی کے جبر کا سامنا ہوتا ہے اور پی آئی اے کے آپریشن کے شیڈول کے لیے حجاج کرام کو چالیس روز ہ قیام کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ حجاج کرام کو حج کے لیے اضافی بوجھ اُٹھانا پڑتا ہے جواب ایک طرح سے معمول کے اخراجات بن گئے ہیں۔ عمران خان کی حکومت چند روزہ حج کو چالیس دنوں پر محیط کرنے کے بجائے اِسے حج کی عظیم الشان عبادت تک محدود کردیتی تو حجاج کرام کی جیبوں پر سے اضافی بوجھ ختم ہوجاتا اور یوں زرِ تلافی کا خاتمہ زیادہ تکلیف نہ دیتا۔ مگر عمران خان کی حکومت بھی مکھی پر مکھی مارنے والی ثابت ہوئی ۔ تحریک انصاف کی حکومت حاجیوں کے مکہ ومدینہ قیام وطعام اور سفری اخراجات کا ایک جائزہ لیتی تو اُنہیں صاف نظر آتا کہ کہاں کہاں زیادہ پیسے بٹورے جارہے ہیں اور وہ کن کن کی جیبوں میں جارہے ہیں ؟ اس خُرد بُرد کا راستا روک کر بھی حاجیوں کو کچھ معاشی راحت دی جاسکتی تھی۔ اسی طرح حج انتظامات کے نام پر وصولی جانے والی رقم میں کٹوتی بھی کچھ نہ کچھ اخراجات میں کمی لاتی۔ حکومت نے اس قسم کی جمع تفریق پر سرے سے سوچا ہی نہیں۔ کیونکہ حکومت کا ہدف کرپشن کا خاتمہ اور عوام کو راحت پہنچانا نہیں بلکہ زرتلافی کا خاتمہ کرکے دراصل حج کی عبادت کی حوصلہ شکنی تھا۔
حج پر زرتلافی ختم کرنے سے زیادہ تکلیف دہ عمران خان کی حکومت کے وزراء کا ردِعمل تھا۔ وفاقی وزیر مذہبی اموروبین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر نورالحق قادری نے فرمایا:ریاست مدینہ کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کومفت حج کروائیں‘‘۔ارے بھائی یہ بھی کیا ضروری ہے کہ ستیاناس کرنے کے بعد آپ سواستیاناس کرنے والے بیان دیں۔ وزیرمذہبی امور دراصل بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی وزیر ہیں مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں کہ ہم مذہب لوگوں میں بھی ہم آہنگی رکھنا اُن کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہی وزیر ہیں جنہوں نے آسیہ مسئلے پر ٹوئٹ کیا تھا کہ ناموس رسالت پر وزارت قربان۔ پھر اچانک وہ مفقود الخبر ہوگئے۔ اس دوران میں آسیہ خاموشی سے بیرونِ ملک پرواز کرگئیں۔ پھر وزیر برآمد ہوئے تو اُن کے ہاتھ میں استعفیٰ کے بجائے منہ پر یہ اشتعال انگیز الفاظ تھے۔ وفاقی وزیراطلاعات فواد چودھری کا اس معاملے پر اظہارِ خیال بھی قیامت ڈھانے والا تھا۔ایک عمومی اُصول کے تحت وہ کچھ بھی بولیں ، یہ اُن کا نہیں دوسروں کا قصور ہوتا ہے۔ مگر اس مرتبہ تو اُن کی گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ وہ عبادت کے فلسفے سے بھی بہت آگاہ ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’حج پر سبسڈی عبادت کی بنیادی فلاسفی کے منافی ہے‘‘۔اب عبادتوں کی فلاسفی پر بھی قدرت رکھنے والے اس وفاقی وزیر کو تب بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگا جب عمران خان کی یوٹرن حکومت اپنا فیصلہ واپس لے گی۔ تب ہمہ صف موصوف وزیراطلاعات میدان میں آئیں گے۔ اور اپنی ہمہ دانی سے اس میں بھی کوئی فلسفہ نکال لیں گے۔ اے عالم کے پروردگار ہمارے حج کی عبادتوں میں شامل کوئی نہیں تو یہ دعا ضرور قبول فرما کہ ہمارے حکمرانوں کو تھوڑی سے بُدھی دے دے۔