... loading ...
انحہ ساہیوال دل میں برچھی بن کر اُترتا ہے۔ زندگی ہم سے روٹھ گئی ۔ ہمار اطرزِ فکر تباہی کو دعوت دیتا ہے۔ یہ تبدیلی سرکار کا امتحان ہے، کڑا امتحان!!!کہا جاتا ہے ، جنگ میں بوڑھے بچوں کے لاشے اُٹھاتے ہیں جبکہ امن میں بچے بوڑھوں کو دفناتے ہیں۔پاکستان میں زمانہ امن و جنگ کی تمیز مشکل ہے ۔ بچوں کے سامنے گھر کے بڑوں کو گالیوں کے ساتھ گولیوں کا نشانا بنایا گیا۔ المیوں کا المیہ یہ ہے کہ ریاست نے اس کا تماشا نہیں دیکھا بلکہ اس اندوہ ناک واقعے کو تماشا بنادیا۔
ساہیوال کا واقعہ دراصل تحریک انصاف حکومت کا ’’ ماڈل ٹاؤن‘‘ ہے۔ یہ اس حکومت کا تعاقب کرتا رہے گا۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کے وزیر قانون تحریک انصاف کے اتحادی ق لیگ کے وزیر راجہ بشارت ہیں۔ جن کے قائد ’’مٹی پاؤ‘‘ والے چودھری شجاعت حسین ہیں۔ پہلے دن سے ہی موصوف ’’مٹی پاؤ‘‘ مشن پر لگ گئے۔ بے حسی اور بے شرمی کی آخری انتہا اُن کے چہروں سے دکھائی پڑتی تھی۔ تحریکِ انصاف اب حزب اختلاف کے مطالبوں پر نہیں خود اپنے دعووں کے امتحان سے دوچار ہے۔ تحریک انصاف نے ماڈل ٹاؤن سانحہ میں’’ انصاف‘‘ مانگا اور درست مانگا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے سانحہ ساہیوال پر ’’تجاویز‘‘ مانگیں، حالانکہ اب انصاف دینے کا وقت ہے۔دانا فارسی شاعر نے کہا تھا:
آتنک او داد جست و داد داد
حقیقت یکی بے کس حقیر بود
(جس نے عدل طلب کیا، اور عدل نہ دیا ، وہ حقیقت میں ایک حقیر انسان ہوگا)۔
نوشیروان سے کسی نے پوچھا کہ سب سے زیادہ قابلِ تعریف حکمران کون ہے؟ عادل حکمران نے جواب دیا: جس سے دشمن خائف رہتے ہوں، جس سے شاہراہیں محفوظ رہتی ہوں، اور جس کے سایۂ عدل میں رعیت خوش حال رہے‘‘۔
غور فرمائیے! کیا کوئی ایک بھی پہلو ایسا ہے جو مدینہ کی ریاست کے خواہاں عمران خان کی حکومت میں دور دور تک کہیں نظرآتا ہو۔ شاہراہیں بدستور غیر محفوظ ہیں۔ سانحہ ساہیوال دن کی روشنی میں کھلی شاہراہ پر سب کے سامنے ہوا۔ جس میں شہری دشمن کی طرح برتے گئے اور سی ٹی ڈی کے اہلکار دہشت گردوں کی طرح بروئے کار آئے۔ بصری فیتوں پر سارے مناظر محفوظ ہوگئے۔ مگر پھر بھی حکومت نے جو رویہ اختیار کیا وہ انتہائی شرمناک ، المناک اور کرب ناک ہے۔ ایک کھلی دہشت گردی کے واقعے کو باجواز بنانے کے لیے’’ مٹی پاؤ ‘‘وزیر قانون راجہ بشارت نے جو دلائل دیے وہ بجائے خود ساہیوال کے اس اندوہ ناک واقعے جیسے اذیت ناک ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ یہ دہشت گرد تھے، پھر ایک خاندان کو بے گناہ قرار دے کر ذیشان نامی ایک شخص کے دہشت گردوں سے تعلق کا قصہ سنایا جانے لگا۔ ریڈ بک میں موجود نام کا دعویٰ بھی درست ثابت نہ ہوا۔ یہاں تک کہ یہ جھوٹ بھی گھڑا گیا کہ سیٹ بیلٹ باندھے ان بے گناہو مقتولین نے دراصل مزاحمت کی تھی۔ پہلی گولی چلانے کا الزام بھی خون سے بھیگی لاشوں پر لگایا گیا۔ ایک موقع پر یہ بھی بات سامنے آئی کہ گاڑی سے اسلحہ بارود ملا ہے۔ ان دعووں میں سے کوئی ایک بھی درست ثابت نہ ہوا۔ہر دعوے کے برخلاف ایک ویڈیو سامنے آجاتی جو حکمرانوں کا مزاق اڑاتی۔تب خلیل کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر مقابلے کو درست قرار دینے کے احمقانہ دعوے کو جے آئی ٹی کی ادھوری اوربے تُکی رپورٹ سے اعتبار دینے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہ کوشش بھی عوام میں سندِ اعتبار نہ پاسکی۔ اس پورے کھیل سے ثابت ہوتا ہے کہ مقابلوں سے لے کر دہشت گردوں کے تعین تک ان اداروں کی جانب سے جو دعوے سامنے آتے ہیں وہ کس قدر ناقابل اعتبار ہوتے ہیں۔ پاکستان وہ واحد مملکت ہے جس کے ریاستی اداروں پر عوام میں کوئی اعتبار ہی نہیں پایا جاتا۔ یہ سانحۂ ساہیوال اور ماڈل ٹاؤن سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ ہے۔
درحقیقت قانون نافذ کرنے والے ادارے جن’’ طریقوں‘‘سے بروئے کار آتے ہیں، وہ کسی بھی طور پسندیدہ نہیں۔ اس ضمن میں عمومی تجربہ اتنا ہمہ گیر ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی واقعے کی مثال سے ان دعووں کو رد کرنے کے قابل ہے۔ کراچی میں قدم قدم پر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک واردات کے بعد اس کے ’’مجرم‘‘تخلیق کیے جاتے ہیں اور پھر اس کے گرد شواہد گھڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ پنجاب کسی دوسرے ملک کا صوبہ نہیں۔ لاہور میں اسی سی ٹی ڈی نے کتنے ہی بے گناہوں کو گناہ گار بنایا۔ یہاں تک کہ پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ بھی اس کے ظلم سے محفوظ نہیں رہے ۔سانحۂ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی مجرمانہ واردات کو تحفظ دینے کے لیے جس طرح ذیشان نامی مقتول کے خلاف بعدازموت شواہد ’’تخلیق‘‘ کیے جارہے ہیں ، وہ پورے نظام کو قابلِ نفرت بناتا ہے۔ اور حکومت کی بچی کھچی ساکھ کو تحلیل کررہا ہے۔ایسے بیسیوں واقعات میں ’’گاڑی‘‘ اور موبائل فون کے رابطوں کو دہشت گردوں سے تعلق پیدا کرنے کے لیے ’’وضعی شواہد‘‘ کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس قسم کے شواہد بجائے خود مقتول سے مزید ہمدردی پیدا کرتے ہیں اور سی ٹی ڈی کی ساخت میں موجود مجرمانہ کجی کو اُجاگر کرتے ہیں۔ پاکستان میں نوگیارہ کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی جو حکمت عملی اختیار کی گئی وہ اپنے آپ میں کافی دہشت انگیز تھی۔ہماری سفاکی کی کوئی حد ہونی چاہئے ، اُدھر امریکا افغانستان سے تھک ہار کر نکل رہا ہے مگر ہمارے ہاں ابھی تک بس نہیں ہورہی۔ وہی ہتھکنڈے، وہی دھندے ،وہی حیلے، اور وہی بہانے ، وارداتیوں کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پاکستان ان سب چیزوں سے کتنا مانوس ہو چکا ہے۔ سی ٹی ڈی کا حال دیکھیے! ساہیوال مقابلے کو باجواز بنانے کے لیے ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے پر پوری ریاستی مشنری جُتی ہوئی ہے، مگر ا س کے لیے جو سب سے بڑا ثبوت دیا جارہا ہے وہ فیصل آباد میں ایک مقابلے میں ہلاک ہونے والے شخص سے مقتول کا رابطہ ہے۔ جبکہ سی ٹی ڈی کو ذیشان سے بھی پہلے فیصل آباد کے مقابلے میں ہلاک ہونے والے شخص کے متعلق یہ ثبوت دینے چاہئے تھے کہ وہ دہشت گرد تھا بھی یا نہیں؟ کیوں نہ اس مقابلے کو بھی ایک دہشت ناک واردات سمجھا جائے؟ ایک بے گناہ کے قتل سے جڑے بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ایک ایک کرکے ’’صاف‘‘ کرنے کامجرمانہ عمل ان اداروں کے ہاتھوں ملک بھر میں اکثر واقعات میں سامنے آیا ہے۔ لہذا ایک جعلی مقابلے کے لیے دوسرے مقابلے کے مقتول سے تعلق جوڑنا کوئی دہشت گردی کا ثبوت نہیں۔ یہ تو ایک خاص’’ پیٹرن ‘‘ ہے جو ایک سے زیادہ واقعات میں ٹھیک اسی طرح روبہ عمل آتا رہا ہے۔
پنجاب حکومت نے سانحہ ساہیوال پر اپنے ذہنی افلاس کو پوری طرح ثابت کردیا ہے۔ صوبے کا وزیراعلیٰ اُن بچوں کے پاس گلدستے لے کر پہنچ گیا جو اپنے والدین کا اپنی ہی آنکھوں سے جعلی مقابلہ دیکھ کرسہمے لیٹے تھے۔ اور جن کے والدین کے سینوں میں گولیاں اتارتے ہوئے اُن سفاک اور شقی القلب سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے ننگی گالیاں دی تھیں۔ یہ کافی نہ تھا کہ پنجاب حکومت اس سانحے پر مختلف پینترے بدلتی رہی۔پنجاب حکومت نے اس معاملے میں جو روش اختیارکی اس سے ثابت ہوا کہ ان میں بصیرت تو بہت دور کی بات ، بصارت بھی نہیں۔ عقل کے اندھے اگر نظر کے بھی اندھے ہو تو تباہی دُگنی ہو جاتی ہے۔ یقین نہ آئے تووزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان کی پریس کانفرنس کے الفاظ سن لیجیے!مقابلے میں ہلاک خاندان دہشت گرد ثابت نہ ہوا تو اُنہیں مالی معاوضہ دیا جائے گا۔ اگر ان کے دہشت گرد ہونے یا نہ ہونے کا تعین باقی تھا تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آگیا؟ اس پر طرہ راجہ بشارت کی پریس کانفرنس تھی۔ جس نے سوائے زخموں پر نمک چھڑکنے کے اور کچھ نہ کیا۔ اُن کے اس فقرے کا ہر لفظ انگاروں سے تراشا ہوا لگ رہا تھا کہ ’’دہشت گردوں کا پیچھا نہ کیا جاتا تو پنجاب میں بڑی تباہی پھیلا سکتے تھے‘‘۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف یہ آخری آپریشن تھا۔ ہماری حرماں نصیبی کو یہ لوگ کیا کم تھے کہ گورنر پنجاب محمد سرور بھی اس میں کودے اور ایک مجرمانہ واردات کی مجرمانہ جواز جوئی کی کہ سانحہ ساہیوال جیسے واقعات تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔ یہ ہے وہ ذہانت جو یہ لندن سے لے کر آئے ہیں۔ گجراتی کہاوت ہے کہ کوے ہر جگہ کالے ہوتے ہیں۔
سانحہ ساہیوال پر کیا یہ سب کچھ کافی نہ تھا کہ خلیل کے خاندان کو ملک بھر میں رسوا کرانے کے لیے قسم قسم کے ڈرامے رچائے جانے لگے۔ صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ کی جانب سے خلیل کے خاندان کو اسلام آباد مدعو کیا گیا اور پھر دونوں اسلام آباد میں نظر نہ آئے۔ صدر مملکت کراچی آدھمکے اور چیئر مین سینیٹ بلوچستان جاپدھارے۔ اس دوران میں یہ خبر گردش کرنے لگی کہ یہ سینیٹ کی ایک کمیٹی کا دعوت نامہ تھا تب رحمان ملک جو اس کمیٹی کے خیر سے چیئرمین ہیں، نے تردید کی کہ اُنہوں نے اس خاندان کو مدعو نہیں کیا۔ آخر یہ سب کچھ کیا ہورہا ہے؟کیا حکومت ایسے چلتی ہے جس کے ہاتھ باگ پر اور نہ پاؤں رکاب میں ہیں۔ حکومت مظلوم کو انصاف نہیں دے سکتی نہ دے، کم ازکم اس کا تماشا تو نہ بنائے۔ تحریک انصاف حکومت کے یہ لچھن ظاہر کرتے ہیں کہ یہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی سے بھی زیادہ اپنے آپ کے دشمن ہیں۔