... loading ...
جام حکومت کے خلاف اندریں شورُ اٹھانے اور فضاء بنانے کی بہت کوششیں ہوئی ہیں۔ سرِدست ان لوگوں کو شرمندگی کا سامنا ہوا ہے۔ یقیناًجام کمال خان کی چند مجبوریاں ہیں وگرنہ شاید یہ لوگ موجودہ مقام پر بھی نہ ہوتے۔دیکھا جائے تو حالات جنوری 2018 ء جیسے نہیں ہیں۔ ان صاحبانِ بے خِرد کو معلوم ہونا چاہیے کہ تب مرکز میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ صوبے میں بھی وزیراعلیٰ نواز لیگ کے تھے۔ ماحول پوری طرح نواز لیگ کے خلاف بنا ہوا تھا۔ اور پھر جو کچھ بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کے عنوان سے ہوا وہ ساری بازی بڑے کھلاڑیوں کی تھی جس کے فرنٹ پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری بھی تھے۔ امروز وہ حالات ہرگز نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جام کمال کے خلاف ریشہ دوانیوں سے گریز کیا جائے۔ اور اگر بلوچستان کی حزب اختلاف ایسا چا ہے بھی تو وہ ناقص العقل نہیں کہ حکومت کی کُنجی اُٹھا کر کسی ناموزُوں شخص کے ہاتھ میں تھمادے۔ جام کمال کے خلاف بہت کچھ بولا جارہا ہے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر بلا جواز پروپیگنڈا جاری ہے۔ اخبارات میں مختلف ذرائع سے خبریں لگوائی جارہی ہیں۔ یہ سب کچھ اول روز سے یعنی جب انہوں نے وزرات اعلیٰ کا حلف اُٹھایا تب سے جاری ہے ۔ وہ خاطر ملحوظ رکھے اور احترام کا دامن تھامے ہوئے تھے۔ چنانچہ جام کمال خان کو لب کُشائی کرنی ہی پڑی۔
12 جنوری کو برقی ذرائع ابلاغ پر اور 13 جنوری کو اخبارات میں وزیراعلیٰ جام کمال کا جوابی وار ان الفاظ پر مشتمل تھا کہ ”ماضی میں بے دردی کے ساتھ پی ایس ڈی پی اور ترقیاتی منصوبوں میں غفلت کا برتا جانا، نوکریوں کی فروخت، تعلیم اور صحت کے اداروں کو تباہ کیا جانا، سیٹلمنٹ کے نام پر لاکھوں ایکڑ اراضی کے ریکارڈ میں ردو بدل اور کرپشن کووزیراعلیٰ سیکریٹریٹ سے نچلی سطح تک لے جانا اصل میں بلوچستان کی پسماندگی کی وجہ ہے اور اس صورتحال کے ذمہ داران چند لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہورہی ہے اور ان کی بے چینی بڑھ رہی ہے اور شاید انہیں پتہ ہے کہ وہ کن کن معاملات میں ملوث رہے ہیں”۔ جام کمال کا اپنے خطاب میں جن کی جانب اشارہ ہے وہ سکوت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہاں ضروری ہے کہ حزب اختلاف بھی اچھی پارلیمانی روایات کے ساتھ چلے ، اچھی طرزِ سیاست کا عملی مظاہرہ کرے، کہ کہیں حزب اختلاف کو بلوچستان عوامی پارٹی کے اندر کے بعض لوگ اپنے مفاد،اہداف و ترجیحات کے لیے استعمال نہ کریں۔ حزب اختلاف بے وقت اپنی توانائیاں صرف ہونے نہ دے۔ ابھی تک تو ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے احتجاج کو عوامی رنگ نہ دے سکی ہیں۔ سارا احتجاج بیانات اور ٹی وی چینلز پر ٹاک شوز تک محدود ہے۔ گزشتہ دنوں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اجلاس بھی ہوا ہے۔ ایم ایم اے گویا باقی نہیں رہی ۔ محض نام کا استعمال ہو رہا ہے۔ امکان ہے کہ جماعت اسلامی حزب اختلاف کی تحریک میں شریک نہ ہو ۔کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ بد عنوانی کے خلاف اقدامات اٹھانے چاہیے۔ ان کی مرکزی مجلس شوریٰ نے بھی واضح کردیا ہے کہ احتساب کا موجودہ سارا عمل ادھورا، ناقص بلکہ یکطرفہ ہے۔
حالیہ مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ ایک ہی جیسے جرائم میں حکومتی کیمپ کے سیاستدانوں سے مکمل چشم پوشی احتسابی عمل کو مشکوک بنارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بد عنوان عناصر کو یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ یہ احتساب نہیں انتقام ہے۔ مجلس شوریٰ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ امتیازی قوانین کی طرح امتیازی احتساب عدل وا نصاف کے تقاضوں کے منافی ہے اور یہ ظالموں کو مظلوم بنانے اور بد عنوان عناصر سے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بن رہا ہے۔ جماعت اسلامی نے بد عنوانی کے خلاف مہم کے اگلے مرحلے کا اعلان بھی کیا۔ گویا جماعت اسلامی انتقام کی بجائے حقیقی اور بلا امتیاز احتساب کا مطالبہ کرتی ہے۔ یعنی یہ کہ حکومت میں شامل لوگوں کو بھی احتساب کے دائرے میں لایا جائے اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کا بھی انتقام کے بجائے حقیقی احتساب ہو۔ پاناما میں شامل لوگوں کے خلاف جماعت اسلامی عدالت میں گئی۔ تحریک انصاف نے بھی عدالت سے رجوع کیا۔ تاثر ایسا بنا ہے کہ یہ رجوع دونوں جماعتوں کے باہمی اتفاق سے ہوا۔ حالانکہ ایسانہ تھا۔ جماعت اسلامی بہت پہلے بدعنوانیوں کے خلاف تحریک کا آغاز کرچکی تھی ، گویا جماعت کی مہم غیر محسوس انداز میں ٹریپ کردی گئی ۔ اس کا سیاسی فائدہ تحریک انصاف نے اُٹھایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جماعت اسلا می انہی دنوں معاملے کو صاف کرتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی نواز لیگ یا پیپلز پارٹی کی جنگ میں شریک نہ ہوگی۔ وہ برابر حکومت کی کارکردگی پر اعتراضات و سوالات اُٹھارہی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کے لوگوں کا احتساب، نیز نواز لیگ ، پیپلز پارٹی خواہ کوئی بھی سیاسی جماعت ہو سمیت سیاسی و غیر سیاسی بد عنوان عناصر پر گرفت کا مطالبہ کرتی ہے۔ لہٰذا اس جماعت کا حزب اختلاف کی کسی تحریک و ایجی ٹیشن کا حصہ بننا دکھائی نہیں دیتا۔
غرض بلوچستان کے اندر حزب اختلاف کو قدم ہوش مندی کے ساتھُ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ 31 دسمبر2018 کو کوئٹہ کے حلقہ 26 پر ہونیوالے ضمنی انتخاب کو جمعیت علما ء اسلام ف کے امیدوار مولاناولی محمد ترابی نے دھاندلی زدہ کہا۔حالاں کہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی ووٹ کی طاقت سے جیتی ہے۔ البتہ دھاندلی جے یو آئی کے اندر سے ہوئی ہے۔ اول تو یہ ووٹر زکو نکالنے میں ناکام رہی۔دوئم اس جماعت کے بعض سرکردہ اپنے زیر اثر افراد، احباب و متعلقین کو ہدایت کرتے رہے کہ وہ مولانا ترابی کو ووٹ نہ دیں۔ یہ بات کسی شک اور اندازے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ جے یو آئی کے اندر کے لوگ اس حقیقت سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔