... loading ...
کوئٹہ کے حلقہ چھبیس کے ضمنی انتخاب میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے اُمیدوار قادر علی نائل بالآخر کامیاب ہو گئے ۔اس جماعت کے ارکان کی تعداد بلوچستان اسمبلی میں دو ہوگئی۔یوں65 رُکنی بلوچستان اسمبلی ارکان کی تعداد کے لحاظ سے پوری ہوگئی۔ پچیس جولائی کے عام انتخابات کے بعد مختلف وجوہ کی بناء پر چند حلقوں پر ضمنی انتخابات کرانے پڑے۔14 اکتوبر کو ضمنی انتخاب میں پی بی 35 مستونگ سے نواب اسلم رئیسانی اور اور پی بی 40 خضدار سے بی این پی کے محمد اکبر مینگل کامیاب ہوئے۔پی بی 35 مستونگ پر سراج رئیسانی کے خودکش حملے میں جاں بحق ہونے کے باعث انتخاب ملتوی کیا گیا تھا۔ پی بی 40 خضدار کی نشست سرداراختر مینگل کے قومی اسمبلی میں جانے کے باعث خالی ہوئی تھی۔ پی بی 5 دکی کی نشست پر بھی دھاندلی کے الزامات کے باعث 15 نومبر کو دوبارہ انتخابات کرائے گئے ،جہاں آزاد امیدوار سردار مسعود لونی دوبارہ کامیاب ہوئے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پی بی 47 کیچ 3 پر بلوچستان عوامی پارٹی کے عبدالرؤف رند کی نا اہلی کے بعد 6 دسمبر کو ضمنی انتخاب کرایا گیاجس میں بی اے پی کے عبدالرشید رند کو کامیابی ملی۔چنانچہ 31 دسمبر کو یعنی سال 2018ء کے آخری دن کوئٹہ کے حلقہ پی بی 26 تھری میں بھی ضمنی انتخاب کا عمل پورا ہوگیا۔ یہ نشست ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے علی احمد کوہزادکی افغان شہریت کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے خالی قرار دی تھی یعنی یہ کہ علی احمد کوہزاد اس وقت تک حکومت پاکستان کے ریکارڈ میں افغان شہری ہیں۔ بہر کیف ضمنی انتخاب میں صورتحال بڑی دلچسپ رہی۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار قادر علی نائل کو عوامی نیشنل پارٹی ، بلوچستان عوامی پارٹی اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ اس جماعت نے زبردست انتخابی مہم چلائی۔ نوجوان و بزرگ کارکن ہمہ وقت الیکشن کی تیاریوں میں لگے رہے۔ مثالی مظاہرہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی خواتین کارکنان کا دیکھنے کو ملا۔ یہ خواتین سینکڑوں کی تعداد میں جلسوں اور ریلیوں میں شریک رہیں۔ اپنی نظم کے تحت عوامی رابطہ مہم میں پوری طرح حصہ لیا۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا 28 دسمبرکے عوامی اجتماع کا شمار کوئٹہ کے بڑے سیاسی اجتماعات میں سے ہے۔ اس حلقے پر مجلس وحدت مسلمین نے آغا رضا کو کھڑا کیاتھا۔ وہ عام انتخابات میں پی بی 2 پر ایچ ڈی پی ہی سے شکست کھا چکے تھے ۔آغا رضا اس جماعت کے ٹکٹ پر 2013ء کے عام انتخابات میں حلقہ پی بی 2 کوئٹہ سے کامیاب ہوئے تھے۔ جنوری 2018ء میں نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے والوں کا ساتھ دیا ۔ اور اس کے نتیجے میں بننے والی نئی حکومت میں چند ماہ کیلئے وزیر قانون بھی رہے۔ مجلس وحدت مسلمین کا اُنہیں اس بار حلقہ 26 پر قادر علی نائل کے مقابلے میں اُتارنے کا صاف مطلب ہزارہ عوام کا ووٹ تقسیم کرنا تھا تاکہ ایچ ڈی پی کا راستہ روکا جاسکے ۔ جمعیت علماء اسلام ف، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی اتحادی بن گئیں۔ گویا یہ تین بڑی جماعتیں جے یو آئی(ایم ایم اے) کے امیدوار مولانا ولی محمد ترابی کی کامیابی کیلئے اکٹھی ہوگئی تھیں۔ مولانا ترابی اسی حلقے پر 25 جولائی کے عام انتخابات میں بھی امیدوار تھے اور دوسرے نمبر پر آئے۔ گویا مولانا ترابی بلوچستان اسمبلی کے حزب اختلاف کی جماعتوں کے امیدوار تھے۔ ترابی جے یو آئی کوئٹہ کے امیر رہ چکے ہیں۔ خُصوصا جے یو آئی اور پشتونخوا میپ انتخابی مہم میں پوری طرح متحرک تھیں۔ پشتو نخوامیپ کے سینیٹر محمد اعظم خان موسیٰ خیل 15دسمبر کو انتقال کر گئے۔ چنانچہ بلوچستان سے سینیٹ کی ایک نشست خالی ہوگئی۔ جے یو آئی ف، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی اگر ایک امیدوار پر متفق ہوں تو حزب اختلاف سینیٹ کی سیٹ جیت سکتی ہے۔ خصوصاً اگر بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار پر اتفاق کیا جائے تو جیتنے کے امکانات مزید بڑھ سکتے ہیں۔ کیونکہ بی این پی وزیراعظم اور صدر کے انتخاب میں تحریک انصاف کا ساتھ دے چکی ہیں ۔ لہٰذا اگر بی این پی کوشش کرے تو بلوچستان اسمبلی میں تحریک انصاف کی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ نیز سیاسی جماعتوں کو آئندہ کے سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ، سرمایہ داروں اور اسمگلروں کا راستہ بھی روکنا چاہیے۔ پچھلے سینیٹ الیکشن میں بلوچستان کا امیج بہت ہی خراب ہوا۔ کھلے عام خرید و فروخت ہوئی۔ اس تناظر میں پیپلز پارٹی کا کردار سیاسی و جمہوری روایات کے شایان شان نہ تھا۔
تحریک عدم اعتماد میں بھی پیپلز پارٹی کے کردار کواب خود پارٹی رہنماء غلطی تسلیم کررہے ہیں۔ 29 دسمبر 2018پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے ترجمان سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اینکر شہزاد اقبال کے سوال پر کہا کہ بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت گرانا پیپلز پارٹی کی غلطی تھی۔یادش بخیر آصف علی زرداری بلوچستان میں نواز لیگ کی حکومت کے خلاف سازش ،بعد ازاں مارچ دو ہزار اٹھارہ کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کا بلوچستان سے صفایا کو جلسوں و اجتماعات میں ببانگ دہل اپنی سیاسی مہارت کہتے رہے ۔ہوا یہ کہ اس ساری بازی سے آصف علی زرداری دودھ سے بال کی طرح نکال دیے گئے۔سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی کا بنایا جانا اور انتخابات میں میں تحریک انصاف کے لیے راستہ صاف کرنا آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی ہی کی کارستانیاں ہیں۔گویا آج جب وہ خوددام میں آ ئے تو اقرار کرنے لگے۔تحریک انصاف اب سندھ حکومت کے درپے ہے۔درحقیقت پیپلز پارٹی کی نیت اس وقت بھی حزب اختلاف کا ساتھ دینے میں واضح نہیں ہے ۔ شریک چیئرمین چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہیئت حاکمہ سے ساز باز ہو ۔آصف علی زرداری نے بلوچستان میں ہارس ٹرینڈنگ کی روایت کو شہہ دی ۔ شیخ جعفر خان مندوخیل کہہ چکے ہیں کہ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں بلوچستان کے امیدواروں نے 60 سے 80 کروڑ روپے کا سرمایہ لگایا۔ شیخ جعفر مندوخیل تجربہ کارپارلیمنٹرین اور سیاستدان ہیں۔ اپنے حلقہ انتخاب ژوب سے 1993ء سے جیتے آرہے تھے۔ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ سچی بات یہ ہے کہ شیخ جعفر خان مندوخیل کو کامیاب ہونے نہیں دیا گیا۔