... loading ...
گزشتہ پورا ہفتہ لاہور میں گزرا یا یوں کہئے کہ اس تاریخی شہر کی نذر ہوگیا ۔ فن و ثقافت کے مرکز اور علم و ادب کے گہوارے اس شہر کے بارے میں اب کے بار بار یہ گُماں گزرا کہ یہ فکری یتیموں کا شیلٹر ہوم بن چُکا ہے۔ چھوٹے بڑے شاعر، ادیب اور دانشور کہلانے والے مختلف عہدوں اور اداروں کی سربراہی کے لیے مارے مارے اور للچائے للچائے پھر رہے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار او ر وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اداروں اور عہدوں کی فہرستیں سامنے رکھ کر قابل اور اہل افراد تلاش کرنے میں مصروف ہیں ۔ ان کی یہ سعی و کوشش ظاہر کرتی ہے کہ ماضی میں جو ان اداروں پر قابض رہے یا چمٹے ہوئے ہیں یا چمٹے رہنا چاہتے ہیں اُن میں سے اکثریت ان عہدوں کی اہل نہیں تھی جن پر وہ فائز تھے یا ہیں ۔سابقہ ادوار کے میرٹ کا حال جاننے کے لیے عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک مرتبہ منصور آفاق نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ عطاء الحق قاسمی نے مجھے خود بتایا تھا کہ شریف فیملی سے ان کا تعلق بہت پُرانا ہے۔ ان کی شادی کے موقع پر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف دونوں ان کے شہ بالے تھے ‘‘۔
اگر ان سب کی اپنے اپنے عہدوں سے وابستگی غیر جانبدارانہ ہوتی تو شاید آج اس بڑے پیمانے پر چھان بین کی ضرورت نہ پڑتی ۔اس سارے کھیل میں لُطف کی بات یہ ہے کہ ماضی کے یہ تمام ’’ لڑکے بالے اور شہ بالے ‘‘سابقہ حکومتوں سے وفاداری اور قربت کی بدولت قومی خزانے سے مراعات اور تنخواہوں کے مزے لوٹتے رہے ہیں ۔ یہ سب اب نئی حکومت کو بھی اُنہی شرائط پر دستیاب ہیں ۔ ان میں سے کوئی بھی اپنے عہدے سے داغِ مفارقت حاصل کے لیے تیار نہیں ہے۔یہ سب اپنے ’’ اہم ‘‘ ہونے کے ’’ وہم ‘‘ میں اس بُری طرح مبتلا ہیں کہ ہر ایک کی گفتگو سے ایک علیحدہ کالم ترتیب پا سکتا ہے۔ لاہور کے شاعروں اور ادیبوں کے درمیان گھُمسان کے سے رن کی کیفیت دیکھ کر بڑے بھائی مظہر برلاس کو کہنا پڑا کہ ’’ اب یہاں آکر مایوسی ہونے لگی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم جیسے حکایت خونچکاں لکھنے والوں کی یہاں آخری لاٹ چل رہی ہے ۔‘‘
حالات واقعی کرب انگیز سہی مگر اُمید کا چراغ روشن ہے۔ سیاست کی طرح ادب کی اس بدحالی کا کریڈٹ بھی اُنہی شریف برادران کو جاتا ہے جنہوں نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے سایۂ عاطفت میں اپنا سیاسی بچپن اور عہدِ جوانی بسر کیا ۔ اس دور میں انہوں نے ہر شعبہ زندگی میں اپنے منظورِ نظر اور اپنے خاندان کے وفادار افراد کو اس انداز میں سمویا کہ بیوروکریسی سمیت مختلف اداروں پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط ہو گئی کہ انہوں نے انہی طاقتوں کے سامنے ایڑیا ں اُٹھا کر چلنا شروع کر دیا جنہوں نے اُنہیں اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا ۔ اب ایسی ہی ’’ گُستاخی ‘‘ وہ شاعر و ادیب بھی کرنے لگے ہیں جنہیں شریف خاندان سے وفاداری کے عوض برسوں نہیں عشروں تک مختلف سرکاری عہدے تفویض کیے رکھے گئے۔ گزشتہ دنوں بہت بڑے بڑ ے ناموں کی چھوٹی بلکہ بہت چھوٹی چھوٹی حرکتیں دیکھنے کو ملیں ۔ لاہور جا کر ہی معلوم ہوا کہ ماضی میں ایک ا سکول کی ٹیچر ( ایس ایس ) کو ایک ادبی ادارے میں ڈیپوٹیشن پر اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات کیا گیا تھا ۔ اب وہ اس ادارے کے ڈائریکٹر جنرل کے منصب پر تعینات ہیں ۔ 25 جولائی سے قبل اُسے کہیں سے افواہ نما خبر موصو ل ہوئی کہ بلاول بھٹو زرداری وزیر اعظم بن سکتے ہیں ۔ انہوں نے فوراً بلاول بھٹو کے ساتھ اپنی تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر وائر ل کردیں ۔ اب وہ فیاض الحسن چوہان کی نیاز مندی میں پناہ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں ۔ جو کوئی ان کے جانے کی بات کرتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ان کے بھائی ایک ادارے میں اعلیٰ منصب پر ہیں ۔ کیا دو نہیں ایک پاکستان کا یہی مطلب ہے ۔
گلی ، محلوں ، سڑکوں اور بازاروں میں وہ افراتفری اور مایوسی دیکھنے سے بھی نظر نہیں آتی جو لاہور کے اخبارات کے دفاتر میں بیٹھے دانشور اور تجزیہ نگار اپنے جلتے ہوئے سگریٹوں کے دھویں کے ساتھ پھیلارہے ہیں ۔ اسی شہر کو ہمیشہ زندہ دلوں کا مسکن قرار دیا جاتا رہا لیکن اب یہ شہر زاغوں کے تصرف میں نظر آتا ہے ۔ لاہور واقعی ہر لحاظ سے لاہور ہے۔ یہاں قدم قدم پر سرشاری کے اظہاریے ہیں ۔ لیکن عہدوں کے پیچھے ہلکان ہونے والوں کی کہانیاں سُن کر ایسے لگتا ہے جیسے قدم قدم پر الم کدے ہوں ۔
لاہور ی شاعروں اور ادیبوں کے معاملات میں اُلجھا ہوا تھا کہ اچانک چینیوٹ سے ایک خبر آگئی ۔ اس خبری واقعہ کا کالم سے کوئی تعلق تو نہیں لیکن پھر بھی نقل کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ اہل دل اور صاحب فکر احباب کے لیے شاید کوئی نکتۂ بینش نکل آئے ۔پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں پولیس کے مطابق چوری کی انوکھی واردات پیش آئی ہے جس میں ایک بلے کی چوری کے مقدمے میں دو نامعلوم افراد اور ایک نامعلوم بلی کو نامزد کیا گیا ہے۔پولیس کے مطابق امیر عمر چمن نامی شخص نے تھانہ سٹی چنیوٹ پولیس کو تحریری درخواست دی کہ ’نامعلوم افراد نے ان کے گھر میں بلی بھیج کر بیش قیمت رشین بلے کو ورغلا کر چوری کر لیا ہے۔اس واردات کی مزید تفصیل ایف آئی آر میں کچھ یوں درج کی گئی ہے کہ ’ ’بلے کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے ملزمان نے بلی گھر کے اندر بھیجی۔ کچھ دیر کے بعد بلی کے پیچھے پیچھے بلا گھر سے باہر آیا تو ملزمان اسے موٹر سائیکل پر اٹھا کر بھاگ گئے‘‘سکیٹو نامی بلے کے مالک امیر عمر چمن نے ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ یہ رشین نسل کا بلا ہے جو انھوں نے آٹھ ماہ قبل لاہور سے 70 ہزار روپے کا خریدا تھا، اس وقت اس کی عمر صرف پانچ دن تھی۔دوسری جانب چنیوٹ پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزمان اور بلی کی تلاش شروع کر دی ہے۔پولیس نے بلے کی چوری کی ایف آئی آر درج کر لی ہے جس میں دو نامعلوم افراد اور ایک نامعلوم بلی کو نامزد کیا گیا ہے۔پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کسی مقدمے میں بلی کو ملزم نامزد کرنے کا یہ انوکھا واقعہ ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی ملزمان اور بلے کو ڈھونڈ لیں گے۔
بلے کے مالک امیر عمر چمن سے جب ایف آئی آر میں نامعلوم بلی کو ملزم نامزد کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اصل ملزم وہ نامعلوم بلی ہی ہے جس کی مدد سے بلے کو گھر سے باہر کی راہ دکھائی گئی اور ملزم اس کو چوری کرنے میں کامیاب ہو سکے۔‘‘بلی کے مالک کے مطابق بلے کے چوری ہونے کے بعد گھر میں بچوں نے رو رو کر برا حال کر لیا ہے جبکہ بچوں نے دو دن سے کھانا بھی نہیں کھایا۔‘‘’وہ ہمارے گھر میں ہی پلا بڑھا ہے اس لیے اس کے ساتھ سب کوبہت لگاؤ تھا۔‘‘
خبر اور مالک کی گُفتگو کے آخری حصہ کو پڑھنے کے بعد بھی ہمیں لمحہ بھر کے لیے یہ گُمان نہیں گُزرا کہ ادبی اور ثقافتی اداروں سے علیحدگی کا سوچ کر ان سب کا حال بھی اُن اہل خانہ جیسا ہے جو بلے کی جُدائی میں بے حال ہیں ۔ ایسے واقعات ہمارے ہاں ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں پچھلے سال پنجاب کے علاقے ضلع بھکر کی تحصیل صدر مقام کلورکوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر نے بچے کو کاٹنے کے جُرم میں ایک پالتو کُتے کو موت کی سزا سُنادی تھی ۔گزشتہ سال نومبر میں خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ کے علاقے شبقدر میں پولیس نے سڑک پر ہونے والے حادثے کے بعد ایک گدھے کو گرفتار کر کے رپورٹ درج کی تھی۔ اس واقعے میں ایک گدھا گاڑی اور رکشے کی ٹکر کے بعد گدھا گاڑی کا مالک فرار ہوگیا تھا جس کے بعد پولیس نے گدھے کو گاڑی سمیت تحویل میں لیا تھا۔