... loading ...
ارہ اکتوبر1999 کی درمیانی شب جنرل پرویز مشرف کے جرنیلی بندوبست آغاز ہوا تو میاں نواز شریف نظر بند کر دیے گئے تھے ۔ دو تین دن کسی کو کوئی خبر نہ ہوئی کہ سابق وزیر اعظم کو کہاں رکھا گیا ہے۔ کُچھ دنوں کے بعد وہ منظر عام پر آئے ۔ طیارہ سازش کیس کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد انہیں جوڈیشل میجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا گیا تو دُنیا ان کے پہلے بیانیہ کی منتظر تھی ۔جب صحافیوں کا اُن سے آمنا سامنا ہوا تو وقت گویا رُک سا گیا تھا ۔ لیکن جب ایک جرنیل کے ہاتھوں سبکدوش کیے گئے عوامی وزیر اعظم گویا ہوئے تو سب نے ایک دوسرے کا منہ دیکھنا شروع کر دیا ،وہ گفتگو کے بعد تو بکتر بند گاڑی میں جانے والے کو دیکھتے ہی رہ گئے ۔۔ میاں نواز شریف نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں جس کمرے میں رکھا گیا ہے اُس میں صفائی کا ناقص بندوبست ہے ۔ بلب کی روشنی بہت تیز ہے ۔ مچھروں کی بہتات ہے ۔ اسی قسم کی اور بہت سی باتیں تھیں جو انہوں نے اس موقع پر کیں ۔جو لوگ یہ سُننا چاہتے تھے کہ جمہوریت پر مارے گئے اس شب خون کے عوامل کیا تھے ۔ آئین کی عملداری کی راہ میں دیوار کیوں حائل ہوئی ۔وہ سب مایوس ہی نہیں پریشان بھی ہوئے ۔ دوسرے روز تمام اخبارات خاص کر بین الاقوامی میڈیا میں بے کسی کے اس کلام اور دل کے روگ کی چیخوں کو مایوسی کا ماخذقرار دیا گیا۔
نیب کے ہاتھوں میاں شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد ایسی ہی باتیں سابق خادم اعلیٰ سے سُننے کو ملیں ۔ بزدلی کے اسی اسکرپٹ کے مکالمے خواجہ برادران کی گرفتاری کے بعد بھی سماعتوں سے ٹکرائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ میں سے جب کبھی بھی کوئی جیل کو جاتا ہے تو وہاں کے حالات کا رونا اس مُدعا کے ساتھ روتا ہے کہ سلاخوں کے پیچھے کی دُنیا میں انہیں اُ س شان و شوکت اور عیش و عشرت سے کیوں محروم کر دیا گیا ہے جو انہیں اپنی دنیا میں حاصل تھا۔سیاسی قیدیوں کے معاملات کو اس صورتحال میں استثناء حاصل ہے ۔لیکن جب یہ لوگ اقتدار میں ہوتے ہیں تو قیدیوں کے معاملات بہتر بنانے پر توجہ نہیں دیتے ۔ جیلوں کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو وہاں اصلاح خانوں کا عکس کہیں نظر نہیں آتا ۔
سعد رفیق کی جانب سے اس شور شرابے کے بعد کہ انہیں نیب نے ریمانڈ کے دوران جس ماحول میں رکھا ہواہے وہ ان کی خواجگی کے شایانِ شایان نہیں ہے ۔ نیب لاہور کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد نے اس غُبارے سے بھی ہوا نکال دی ہے ۔لاہور کے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کو اپنے دفتر آنے کی دعوت دی ۔اس ملاقات نے وہاں موجود نیب کے مہمانوں کے اُس شور شرابے اور چیخ و پُکار کو بے ثمر کر دیا جو ہر تاریخ پیشی پر دُہرایا جاتا تھا۔نیب لاہور کے معاملات پر بریفنگ اور سوال وجواب کے بعد صحافیوں کو انٹروگیشن سیل کا دورہ کروایا گیا۔ایسا پہلی بار ہوا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے سینئرز کی ٹیم جدید سہولیات سے آراستہ اس تحقیقاتی مرکزمیں پہنچی ۔تو شہباز شریف اور بڑے خواجہ صاحب کے ناروا سلوک کے تمام بیانات کی اصلیت سامنے آگئی۔ایک وسیع کوریڈور سے گزر نے کے بعد سیل واقع ہیں ۔ ایک گیلری کے دونوں طرف سات سات یعنی چودہ کمرے تھے ۔گیلری میں ایک جانب تین باتھ روم بنائے گئے تھے ۔کمرے اس حد تک کشادہ تھے کہ تین سے چار افراد تک کے بستر آسانی سے لگائے جا سکتے تھے ۔ یہیں ایک طرف باجماعت نظام پڑھنے کا مستقل اہتمام بھی موجود تھا۔ان کمروں میں بیڈ موجود نہیں تھے لیکن مناسب حد سے بڑھ کر فرشی بستر موجود تھے ۔ خواجہ سلمان اور خواجہ سعد رفیق کے درمیان والے کمرے میں پولیس آفیسر رائے اعجاز کا سیل تھا۔ انہی سات کمروں میں سے ایک میں میاں شہباز شریف اور قیصر امین بٹ کو بھی رکھا گیا تھا۔یہاں ا سٹا ف نے بتایا کہ میاں شہباز شریف اکثر دھوپ تاپنے کے لیے ٹھوکر نیاز بیک کے قریب واقع نیب کے ا س دفتر اور انٹروگیشن سینٹر کی چھت پر جا بیٹھتے تھے ۔خادم اعلیٰ کے اسیِ Sun Bath کی وجہ سے چھت کے اُوپر ارد گرد پردے بنانا پڑے تھے ۔ عارضی مہمان کے لیے اتنا اہتمام ؟ سمجھنے کی کوشش کی گئی تو ذہن میں آیا کہ شاید مستقبل میں یہاں ایسے بہت سے بڑے مہمانوں کی آمد متوقع ہے ۔ بعد میں ہمارے اس خیالِ دل فریب کو بریفنگ کے درمیان یہ سُن کر بھی تقویت حاصل ہوئی کہ سیاسی وابستگیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بہت سے کیسز پر کام ہو رہا ہے ۔ کسی سے بھی اُس کے سیاسی و سماجی مرتبے کی وجہ سے رعایت نہیں برتی جائے گی ۔ یہاں نیب کی بیس سالہ کارکردگی کے بارے میں بھی سوالات ہوئے ۔جواب میں معلوم ہوا کہ بیس سال کے دوران نیب نے مختلف کیسسز پر کام کیا اور عدالتوں میں بھیجے گئے کیسوں کے نیتجے کے طور پر 25 کروڑروپئے وصول ہوئے ہیں ۔ نیب کی پانچ سال کے دوران کاروائیوں کا ایک جائزہ بھی سامنے آیا جس کے نتیجے میں 250؍ ارب روپے کی ریکوری کا سُراغ ملتا ہے ۔موجودہ چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال کی عرق ریزی ، ریاضت اور غیرجانبدارانہ احتسابی عمل بھی زیر بحث آیا ۔ تفصیلات منظر عام پر لانے سے زیادہ اُن کی استقامت اور کامیابی کے لیے دعاؤں کو نیم شبی اور نالہ ہائے سحری کا حصہ بنانے کو دل کرتا ہے ۔
نیب کے دفتر کے تفتیشی کمرے بھی دیکھنے کو ملے جہاں جدید ترین طریقہ تفتیش کے مطابق پوچھ گُچھ کا عمل مکمل کیا جاتا ہے ۔ بتایا گیا کہ یہاں تمام مراحل ریکارڈ کیے جاتے ہیں ۔جسمانی اور ذہنی ٹارچرکے تمام الزامات کی نفی کی گئی ۔۔ پتا چلا کہ قیصر امین بٹ جن کی شہرت پہلے خواجہ سعد رفیق کے دیرینہ دوست کی تھی اور اب وعدہ معاف گواہ کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں نے یہاں قرآن پاک کی تفسیر برائے مطالعہ خرید کر دینے کی پیشکش کی تھی ۔ نیب نے خود سے اس کا اہتمام کر دیا ہے ۔
صحافی جب عمارت کے اس حصے کا دورہ کر رہے تھے تو ان کی ملاقات خواجہ سعد رفیق ، خواجہ سلمان رفیق اور پولیس آفیسر رائے اعجاز سے بھی ہوئی ۔ صحافیوں کا ان سب سے مصافحہ ہوا ۔ خواجہ سعد رفیق نے کالم نگار مظہر برلاس سے مخاطب ہو کر کہا آپ سب میری باتیں بھی سُن کر جائیں گے ۔ اس موقع پر منصور آفاق نے کہا کہ ہم حُکام سے وعدہ کرکے آئے ہیں کہ کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے ۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے روایتی تلخ لہجے میں اپنے وجود کا پورا زور صرف کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ پھر آئے کس لیے ہیں ۔
کالم نگار لقمان شریف کے استفسار پر سب کو اس کا علم ہوا کہ یہاں کسی قسم کا کوئی خفیہ کیمرہ نہیں ہے ۔ دستاویزی ثبوتوں کی مدد سے تفتیش کی جاتی ہے ۔ پنجاب کے نیب کولاہور ، ملتان اور راولپنڈی کے ڈائریکٹوریٹس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ کالم نگار کو ملنے والی اب تک کی معلومات کے مطابق لاہور کی کارکردگی تحسین کی مستحق ہے ۔اس کا کریڈٹ ڈی جی نیب لاہور سلیم شہزاداورڈپٹی ڈائریکٹر چوہدری اصغر کو جاتا ہے ۔ نیب کی کارکردگی کو عوام اور ذرائع ابلاغ تک پہنچانے میں ترجمان نیب لاہور ذیشان کی کارکردگی بھی لائق تحسین ہے ۔
ہمارے قومی جسد پر بددیانت معاشرت کے جو زخم ہیں انہوں نے قومی وجود اور مملکت کواُس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں تمام معاشرتی بُرائیاں اُبھر کر سامنے آ گئی ہیں ۔ قومی خزانے کے خائنوں اور عوامی اعتماد کے سوداگروں کی ایک پوری کھیپ ہے جس کی بدولت ہم کڑی آزمائشوں اور حالات سے دوچار ہوئے ہیں ۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کی مالی کرپشن کی کہانیاں۔۔ ؟ الحفیظ و الاماں !! نیب نے ریاست کے وجود کو مزید زخموں سے بچانے کے لیے جو مشن شروع کیا ہے ۔اُس سے نہ صرف بدعنوانوں اور مافیاز میں کھلبلی مچی ہوئی ہے بلکہ عوام میں اپنے اداروں پر اعتماد بھی بحال ہو رہا ہے ۔ اخبارات کے صفحات پرنیب کے حوالے سے سیاست دانوں کے کیسے ہی بیانات چھپے ہوئے ہوں اور الیکٹرونک میڈیا پر جس قسم کی بھی بریکنگ نیوز چل رہی ہوں ۔ عوام اس احتسابی عمل سے انسپائریشن حاصل کررہے ہیں ۔