... loading ...
گزشتہ روز ایک شادی میں شرکت کے لیے بھکر جانا ہوا ہے۔ ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی ۔ چھوٹی سی کریانہ کی دُکان چلاتے ہیں موصوف اسکول گئے لیکن پرائمری پاس کرنے سے پہلے ہی دُکانداری پیشے کے ہو کر رہ گئے تھے، میرے قریب بیٹھے تو گویا ہوئے کہ کیا 25 جولائی کے انتخابات منصفانہ تھے ۔؟جواب دیا گیا میری دانست اور تجزیئے کے مطابق ہر لحاظ سے شفافیت نظر آئی ہے۔ ایسی کوئی بے ضابطگی یا قباحت سامنے نہیں آئی جس کی وجہ سے نتائج پر کوئی الزام دھرا جا ئے۔ میرے جواب پر اُس نے معنی خیز نگاہوں سے دیکھا ۔ نتائج روک لیے گئے ۔فارم 45 نہیں دیا گیا ۔پولنگ ایجنٹ کو باہر نکال دیا گیا ۔ اُس باخبر سے اب کالم نگار کا سوال یہ تھا کہ ’’ کیا ایسا سب کُچھ آپ کے علاقے میں کسی پولنگ اسٹیشن پر ہوا ہے ؟ اُس کا جواب بھی مولانا فضل الرحمن کے الزام سے مماثلت رکھتا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ دوسرے علاقوں میں اکثر پولنگ اسٹیشنوں پر ایسا ہی ہوا ہے۔
ایسے لگا جیسے مریم اورنگزیب کوئی رٹا ہوابیان دے رہی ہو۔ نہیں ایسی کوئی بھی بات نہیں ۔ میرا یہ دوٹوک جواب بھی اُس کی تسلی نہیں کر سکا ۔ میرے جوابات کے دوران اُس نے مولانا سمیع الحق مرحوم اور حافظ سعید احمد کا نام لے کر بھی مختلف سوالات کیے ۔پھر اچانک بول اُٹھا کہ ہمیں تو بتایا گیا کہ ’’ یہ سب مغربی لابی ہے ۔ پاکستان کا اسلامی تشخص ختم کرنے کے لیے لائی گئی ہے ۔ ‘‘ جواب کے بجائے کالم نگار کو سوال داغنا پڑا ۔ ’’ یہ سب آپ کو کس نے بتایا ہے؟ جواب دیا : ہمارے علماء اور قائدین نے ؟ مزید سوال پوچھنے سے پہلے میں نے اُس کی وضع قطع پر غور کیا اور خاموش ہو گیا !
کینال ریسٹ ہاؤس میانوالی میں ملک کے ممتاز شعراء کی ایک محفل میں مولانا خادم رضوی پر دہشت گردی اور بغاوت کی دفعات لاگو کرنے کے بارے میں وفاقی وزیر اطلاعات کا بیان زیر بحث آیا تو ایک بڑے شاعر ہونے کے دعویدار کا کہنا تھا کہ’’ اس طرح کے عمل سے پاکستان میں بریلوی مسلک کو شدید نقصان پہنچے گا اور دیگر مسالک حاوی ہو جائیں گے ۔بات جنوبی پنجاب صوبے کی ہوئی تو یہاں بھی وہ علاقے کی پسماندگی اور درماندگی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہنے لگے کہ اس طرح تھل اور سرائیکی بیلٹ کی ثقافتیں جُدا جُدا ہو جائیں گی اور ان دونوں خطوں کے درمیان جو اتحاد یا ہم آہنگی ہے وہ پارپارہ ہو جائے گی۔ نیا صوبہ بناتے وقت ’’ جھومر اور بھنگڑے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حد بندی کرنی چاہئے ‘‘ انہوں نے سرائیکی بولنے والوں کا دست و بازو بننے کے لیے تھل کے علاقوں اور میانوالی کے کہستانی علاقے کو بھی سرائیکی صوبے میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا ۔ اس موقع پر ہارون الرشید یاد آگئے جو اکثر کسی رمز یا فلسفے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ یہ آج کے دور کے کسی شاعرکا شعر یا غزل نہیں ۔ ‘‘
دینی اور مذہبی حوالے سے یہ دونوں صاحبان عمران خان کی نیت کے خلوص اور اسلامی تعلیمات اور عقائد سے وابستگی کے بارے میں لاعلم تھے ۔ یا جاننے کے باوجود تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ۔ ہمارے ہاں جس قسم کا فرقہ ورانہ کلچر ہے اُس میں ہم اختلاف کی تہذیب اور شائستگی سے تو پہلے ہی تہی دامن تھے۔ اب اپنے علاوہ دوسرے تمام مسالک کو نعوذ با اللہ دائرہ دین سے بھی خارج سمجھنے لگے ہیں ۔ اگر دیدۂ بینا عطاء ہوئی ہوتی تو ہم مدینے کی گلیوں میں اسلامی دُنیاکی اکلوتی ایٹمی طاقت کے سربراہ کو ننگے پاؤں چلتے دیکھتے تو اُس کے لیے رشک کے جذبات کا اظہار کرتے ۔ ہمارے اُس معتبر شاعر کو کیا کہا جائے جسے مولانا خاد م حُسین رضوی کی گرفتاری کو ایک مخصوص مسلک پر حملہ نظر آتا ہے، اُسے پہلے سو دنوں میں ہالینڈ سے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے منسوخ کروانے والے عمران خان کے بارے میں اس قدر تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کرنا پڑتا ۔ جسے مغربی لابی کہا جاتا ہے اُسی مردِ مسلمان نے مغربی دنیا کے سامنے ’’ ہولوکاسٹ ‘‘ کا معاملہ اُٹھا کر اُسے مسلم دنیا کو آزار پہنچانے سے روکا اور انبیائے کرام کی ناموس کے حوالے سے مسلمانوں کا موقف دنیا بھر سے منوایا ۔ معاملہ اقوامِ متحدہ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے پلیٹ فارم تک لے گیا ۔
معاملہ واقعی کچھ اور ہے ۔ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں ۔عہدِ کہن پر اڑنے والے اڑے ہوئے ہیں، ان کی قیادت مولانا فضل الرحمن کے ہاتھ میں ہیں، جنہیں اپنی شکست بھولے سے بھی نہیں بھول پا رہی ہے ۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن اور اکرم خان درانی کے بیٹوں کی پارلیمنٹ میں موجودگی سے بڑا شفاف الیکشن کا ثبوت اور کیا ہوگا ۔
25 جولائی 2018 ء کے انتخابات میں روایتی دھاندلی کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا کر ایک منصفانہ انتخابات کرواکر ایک نئی تاریخ رقم کی گئی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان انتخابات کی مانیٹرنگ کرنے والے ادار ے فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)نے بھی عام انتخابات کے متعلق اپنی تفصیلی اور حتمی رپورٹ میں انتخابات کو شفاف قرار دے دیا ہے۔ رپورٹ میں پولنگ اسٹیشنز سے پولنگ ایجنٹس کو باہر نکالنے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2018 کے عام انتخابات ماضی کے تینوں انتخابات کی نسبت بہتر اور شفاف تھے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عام انتخابات 2018 میں 38 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر بے ضابطگیاں ہوئیں جبکہ عام انتخابات 2013 میں 90 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر بے ضابطگیاں ہوئی تھیں نیزحالیہ انتخابات میں ملک بھر میں کسی پولنگ اسٹیشن پر قبضہ نہیں ہوا، 2013 میں 1.2 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر قبضہ کیا گیا تھا، اس مرتبہ 2.5 فیصد پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ پولنگ ایجنٹوں کو نہیں دیا گیا جبکہ 2013 میں 7.5 فیصد پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ ایجنٹوں کو نہیں دیا گیا تھا۔عام انتخابات 2018 میں تشدد کے واقعات میں کمی واقع ہوئی، صرف 1.1 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر تشدد کے واقعات ہوئے، پولنگ اسٹاف پر 0.5 فیصد پولنگ اسٹیشنز پر غیر متعلقہ افراد نے دباؤ ڈالا جبکہ 0.5 پولنگ اسٹیشنز پر شناختی کارڈ کے بغیر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔2013میں شناختی کارڈ کے بغیر 2.7 فیصد پولنگ اسٹیشنزپر ووٹ ڈالنے کی اجازت تھی جبکہ پولنگ اسٹاف کے ووٹرز پر دباؤ کی شرح دو فیصد تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کے 180 ایسے حلقے ہیں جن پر معمولی بے ضابطگیاں ہوئیں، معمولی بے ضابطگیوں والے حلقوں میں سے 66 پی ٹی آئی، 50 (ن) لیگ اور 34 پیپلز پارٹی نے جیتیں، عام انتخابات 2018 میں کوئی ایسا پولنگ اسٹیشن نہیں تھا جس میں کسی خاتون نے ووٹ نہ ڈالا ہو۔فافن کی حتمی رپورٹ میں ووٹوں کی گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے باہر نکالنے کے تاثر کی نفی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پولنگ بوتھز والے اضافی پولنگ ایجنٹس کو نکالا گیا، قانون کے مطابق گنتی کے وقت ہر پولنگ اسٹیشن پر ہر امیدوار کا ایک ایجنٹ بیٹھ سکتا ہے۔کالم کا اختتام کرنے سے پہلے یہ تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ رپورٹ روایتی سیاست کے کسی علمبردار یا پجاری کے لیے نہیں ہے ۔