... loading ...
کراچی میں چینی قونصل خانے پر دہشت گرد وں کا حملہ لمحہ فکریہ ہے۔حملے کی ذمہ داری بلوچستان سے تعلق رکھنے والی عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی ( بی ایل اے ) نے قبول کرلی ہے ۔اس گروہ نے کسی امر کو چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ حملہ آوروں کی تصاویر، ویڈیوز اور پیغامات سب ہی جاری کردیے۔ اس حملے میں پولیس اہلکاروں اور شہریوں سمیت سات افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے دو افرادحاجی نیاز محمد اور ان کے بیٹے ظاہر شاہ کا تعلق کوئٹہ کے علاقے خوشحال روڈ سے تھا ۔ دونوں کی میتیں کوئٹہ لاکر تدفین کی گئی ۔ دونوں باپ بیٹا کپڑے کے تاجر تھے اور وقوعہ کے روز چینی قونصل خانے میں ویزا لگوانے گئے تھے ۔ حملے میں چینی قونصل خانے کے اہلکار اور سفارتی عملہ محفوظ ر ہا۔ کیونکہ حملہ آور عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے ۔چینی قونصل خانے پر حملے نے پوری دنیا میں زبردست تشہیر پائی ہے۔ دراصل حملے کے پیچھے کام کرنے والوں کا مقصد بھی یہی تھا۔ دہشت گرد اگر قونصل خانے کے اندر جانے میں کامیاب ہوجاتے تو یقینی طور پر یہ سانحہ مزید ہلاکت خیزی اور سنگین رخ اختیار کرسکتا تھا ۔
بلوچستان کے اندر علیحدگی کی بات کرنے والی مسلح تنظیمیں دو عشروں سے زائد عرصے سے سرگرم ہیں۔ پچھلے سالوں میں یہ تنظیمیں عفریت کی شکل اختیار کر گئی تھیں۔ پورے معاشرے اور حکومتی و انتظامی مشینری کو گویا عملاً مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ ان تنظیموں کو بلوچ سیاسی جماعتوں کی اعلانیہ و غیر اعلانیہ حمایت حاصل تھی ،ان جماعتوں نے ان مسلح تنظیموں کی وارداتوں پر چُپ کی پالیسی اختیار کئے رکھی تھی۔البتہ ریاست شدت پسندوں کے خلاف کارروا ئیاں کرتی تو یہ جماعتیں مختلف سطح پر احتجاج کرتیں ۔ رفتہ رفتہ جب ان کی زیادتیاں حد سے تجاوز کر گئیں تو دنیا کے سامنے اپنی پوزیشن واضح اور صاف کرنے کی خاطر مذمت کے مبہم بیانات سامنے آنا شروع ہوگئے ۔ چنا نچہ ہوا یہ کہ ان تنظیموں نے بلوچ جماعتوں کو بھی انتقام کی فہرست میں شامل کرلیا ۔حالانکہ یہ جماعتیں سیاسی فورم پر ان کیلئے مؤثر آواز بنی ہوئی تھیں۔ سردار اختر مینگل کا بھائی جاوید مینگل خود شدت پسندی کی راہ پر ہے ۔بہر حال نیشنل پارٹی پوری طرح زخم خوردہ ہے۔ جو ان تنظیموں کی مخالفت میں کھل کر سامنے آگئی۔ البتہ بی این پی کا سیاسی نقطہ نظر اب بھی واضح نہیں ہے۔ ان تنظیموں نے بلوچستان کے اندر چینی ماہرین پر حملے کیے۔ کراچی کے اندر سندھی مسلح گروہ بھی اس نوعیت کے حملے کرچکا ہے۔اگست2018ء میں چاغی کے علاقے دالبندین میں سیندک پراجیکٹ پر کام کرنے والی چینی کمپنی کے ملازمین کی بس پر کار حملہ کیا گیا۔ یہ خودکش حملہ تھا جس میں چینی ملازمین زخمی ہوگئے۔ مسلح تنظیم نے اس کی ویڈیو جاری کردی ۔ ساتھ حملہ آور کی تصاویر بھی جاری کردیں۔ کراچی میں چینی قونصل خانے پرحملہ مکمل سوچ بچار اور مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا۔ یعنی حملہ آورقونصل خانے کے اندر داخل ہونے اور وہاں گھنٹوں کشت و خون اور تباہی مچانے کی سوچ لیکر گئے تھے ۔ پہلے بلوچ عسکریت پسندوں کا طریقہ واردا ت ایسا نہ تھا۔ وہ ’’مارو اور بھاگو ‘‘کی حکمت عملی کے تحت دہشت گردی و تخریب کاری کرتے ۔ایسے واقعات کو انہوں نے گوریلا حملوں یا جنگ کا نام دے رکھا تھا۔
تخریب کاری اور دہشت گردی کی نئی حکمت عملی گویا پاکستانی طالبان یا لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں کو دیکھ کر اپنانی شروع کی ہے ۔ اب تو یہ باتیں ہونے لگی ہیں کہ ان تنظیموں کا تعلق ٹی ٹی پی سے قائم ہے۔ لہٰذا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے تعلق کے بعد دہشت گردی کی اس حکمت عملی کو اپنایا گیا ہے، یعنی ’’مارو اور مرو‘‘ ۔کراچی کا یہ حملہ فدائی تھا۔ دہشت گرد اپنے ساتھ خودکش جیکٹس، پائیوڈین ، ٹنکچر آئیوڈین، مرہم، پٹیاں ، موبائل فون کی اضافی بیٹریاں ، پاؤر بینک اور خوراک لے کر گئے تھے تاکہ دیر تک جنگ جاری رکھی جائے ۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق مارے گئے دہشت گردوں میں سے ایک کا نام لاپتہ افراد کی فہرست میں بھی شامل ہے۔ سرکار کہتی ہے کہ لاپتہ افراد میں ایسے کئی افراد شامل ہیں جن کی گمشدگی کی ایف آئی آر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت درج کرائی گئی ہے اور وہ خلاف قانون سرگرمیوں میں شامل ہوتے ہیں۔ جب پکڑے یا مارے جاتے ہیں تو مسلح تنظیموں اور اُن کے ہمدردوں کی جانب سے حکومت یا قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو تنقید کا نشانا بنایا جاتا ہے ۔میڈیا کو بتایا جاتا ہے کہ مارا یا پکڑا جانیو الا بندہ بے گناہ ہے جس کی گمشدگی کی ایف آئی آر تو فلاں مہینے یا سال میں درج کی گئی تھی ۔
بہر حال حکومت کا دعویٰ ہے کہ کراچی حملے کا ماسٹر مائنڈ اسلم اچھو ہے۔ اسلم اچھومارچ2016ء میں سبی کے قریب سنگان کے پہاڑوں میں سیکورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں زخمی ہوگیا تھا ۔ ان کی موجودگی کی اطلاع بی ایل اے ہی کے ایک کمانڈر نے ساز باز کرکے دی تھی ۔ حکومت نے اسلم اچھوکی ہلاکت کا اعلان کردیا ،بعد ازاں ان کے زندہ ہونے اور افغانستان میں قیام کی اطلاع آئی۔ اب کہا جاتا ہے کہ وہ دہلی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہے اور افغانستان کی شناختی دستاویزات پر وہاں گیا ہے۔ اس بات میں شک نہیں تھا کہ اسلم اچھو افغانستان ہی میں روپوش ہے البتہ اس کا بی ایل اے سے تعلق اب یقینی نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ نشانا بنا تو اس کے بعد ہی ڈاکٹر اللہ نذر کی مسلح تنظیم بلوچ لبریشن فرنٹ سے وابستہ ہوگیا۔اکتوبر2017ء میں اسلم اچھو اور ڈاکٹر اللہ نذر کے اہلخانہ کو ایک ساتھ افغانستان جاتے ہوئے چمن سرحد پر حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا۔ پھر نواب ثناء اللہ زہری نے ، جواُس وقت وزیراعلیٰ تھے ، ان خواتین کے سروں پر وزیراعلیٰ ہاؤس میں احتراماً چادریں ڈالیں ،ان کو نقد رقوم دیں اور اہلخانہ کے حوالے کردیا۔بہر حال ممکن ہے کہ وہ پھر سے وابستہ ہو گئے ہوں۔
افغانستان ہی درحقیقت ان مسلح گروہوں کی پناہ گاہ ہے اور سرپرست بھارت کی سرکار ہے۔ ان دو ممالک کی ایجنسیاں چاہتی ہیں کہ بلوچ عسکریت پسند اپنی کارروائیوں میں تیزی اور سنگینی لے آئیں تاکہ ریاست پاکستان کو زچ کیا جاسکے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کی اس نئی صورت پر کامل توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ اگر شدت پسند گروہوں نے خودکش حملہ آور روں کو استعمال کرنا شروع کردیا تو اس سے یقیناًتباہی پھیلے گی۔ گویا سیاسی فضاء کو مکدر ہونے نہ دیا جائے۔ گزشتہ چند دنوں سے بلوچ لاپتہ افراد کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ میں سرگرمیاں پھر سے شروع ہوچکی ہیں۔لاپتہ افراد کی خواتین کیمپ میں بیٹھی ہیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں لشکری رئیسانی، ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور دوسرے رہنماؤں اور کارکنوں کی توجہ سے بلوچ افراد اور خواتین نے وہاں جانا شروع کردیا۔ نواب اسلم رئیسانی اسلام آباد میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ گئے، ان سے اظہار یکجہتی کیا۔ چنانچہ ان کے جائز مطالبات پر فوری عمل درآمد شروع ہونا چاہیے۔ پہلے کیمپ میں سیاسی رہنماء اور کارکن نہیں جاتے تھے کیونکہ کیمپ میں بیٹھے نوجوانوں اور عورتوں نے کئی بزرگ رہنماؤں کی بے عزتی کی جس کے بعد سیاسی رہنماء جانے سے گریزاں ہوئے ۔لہٰذا اب یہ تنظیم پھر سے مرکز نگاہ بنی ہوئی ہے ۔ مظاہروں کا آغاز بھی کردیاہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس ضمن میں حقیقی مسائل کے حل پر کماحقہ توجہ دے، اس طرح منفی پروپیگنڈے کا باب بھی بند ہوگا۔