... loading ...
پاکستان نے اپنی آزادی کی حقیقت کو ہی نہیں سمجھا۔ یہ برہمن ذہن سے ناقابلِ نباہ یقین سے پھوٹی تھی۔ انگریز سے بغاوت ہمارے تصورات کا لازمی نتیجہ تھا۔ مگر ہندوؤں سے دوری تو اُن کے برتاؤ سے پیداہوئی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال قائداعظمؒ تھے۔ وہ ایک دانا اور مثالی عملیت پسندتھے۔وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلاتے تھے، ہندوؤں کو بار بار برتنے پر اُنہیں یہ یقین ہوا کہ دنیا میں یہ واحد قوم ہے جن کے اوپر بھروسے کا مطلب اپنی زندگی سے دستبردار ہونا ہے۔ہندو ذہنیت سے تعلق کی ہر شکل توہین آمیز بن جاتی ہے ،اس کا تجربہ قائد اعظمؒ کو بار بار ہوا۔ آزادی کی پوری تحریک میں اُن کی کامیابی کا واحد راز یہ تھا کہ وہ ہندوؤں کو سمجھنے والے سب سے بڑے عملیت پسند رہنما تھے ۔ اُنہوں نے ہندو ذہنیت کو تب سمجھا جب برصغیر کے بڑے بڑے متبحر علماء بھی یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ ان سے نباہ ممکن ہی نہیں۔ برصغیر میں کتنے ہی مسلمان ایسے تھے جو انگریز وں سے نفرت کے باوجود اپنے نظریے کی حقیقت کو نہیں سمجھتے تھے۔ مگر یہ ہندو تھے جن کے رویے نے نام کے مسلمانوں کو بھی کام کا مسلمان بنا دیا۔ کشمیر کی تحریک آزادی کو دیکھیے۔آزادی اگر چہ ایک سرشار کردینے والا تصور ہے۔ پھر مسلمان کبھی غلام نہیں رہ سکتامگر اس کے باوجود ایک مسلم ذہن دیگر تمام اقوام ومذاہب کے ساتھ ایک تعلق قائم کرکے دعوت کے امکانات پر خود کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ مگر برہمنوں کے ساتھ یہ بھی ممکن نہیں۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں۔بھارت میں سکھ، عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اسی ردِ عمل کا شکار ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ برہمنوں کی وحشت کے سب سے زیادہ شکار خود اُن کے ہی ہم مذہب ہندو بنتے ہیں جو نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیری عشروں کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر جاگ اُٹھتے ہیں۔ یہ ہندو ذہنیت کا ردِ عمل ہے کہ یہ تحریک باربار جی اُٹھتی ہے۔یہ بات شاید لوگوں کو عجیب لگے مگر کشمیر کی تحریک آزادی کو پاکستان سے نہیں خود برہمنوں کے اندازو تیور سے طاقت ملتی ہے۔ ہندو دشمن بنانے اور دشمنی کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی برہمنیت ہے۔برتری کی نفسیات دراصل تسکین ہی تب پاتی ہے جب اُسے کمتر لوگ میسر رہیں۔ چنانچہ یہ واحد عقیدہ ہے جو کمتروں کو بدتر سلوک کی مذہبی تائید دیتا ہے۔ اور اُنہیں وحشیانہ طریقے سے ختم کرنے کی نفسیات کو عبادت کا ہم معنی بنا دیتا ہے۔ ہندو ذہن کو پرکھنا اتنا آسان تو نہیں ۔
ہندوؤں کی برہمن سیاست پاکستان میں اپنی وحشتوں کوایک حکمت عملی کے روپ میں برسوں سے برت رہی ہے۔ پاکستان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو بھارت سے ثقافتی وفود کے تبادلوں کے نام پر تعلق کو قائم کرنے کی نفسیات میں مبتلا ہیں۔ اس کے لیے بظاہر انسانیت کی تعبیر سے مزین نوع بہ نوع مثالوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ مگر برہمن ذہن دشمن سے اختلاط کی تاریخی تعبیریں رکھتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے میں مسلم لیگ نون مکمل ناکام رہی۔ اس ضمن میں مسلم لیگ نون کے کردار کو ہر قسم کے تعصبات سے بالاتر ہو کر ایک کیس کے طور پر دیکھنا چاہئے ۔
مسلم لیگ نون کی پچھلی حکومت میں ہندو ذہنیت اور بھارت کے بھیانک کردار کو مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ بھارت کی پاکستان میں ہوادینے والی دہشت گردی کی پالیسی کے کچھ کمزور لمحات بھی آئے مگر تب حکومت نے بھار ت کے لیے دنیا میں مشکلات پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اس کے لیے کچھ راحت افزا اقدامات اُٹھائے۔ یہ سب کچھ بلاسبب نہیں تھا۔ کلبھوشن تو اس کی محض ایک مثال ہے۔ اس ضمن میں سلسلہ وار واقعات کا ایک پورا بہاؤ ہے جو مسلم لیگ نون کی پراسرار خاموشی پر سوالیہ نشان کی طرح چپکا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ نون کی قیادت پر انتہائی خاموشی سے فوج دشمنی کے حوالے سے کام کیا گیا۔ مسلم لیگ نون اور فوج کے اندر پیدا ہونے والے فاصلے اب کسی طرح بھی سمٹے نہیں سمٹ رہے۔ اس کا سبب مسلم لیگ نون کے اندر ایک ایسی لابی تھی جو نوازشریف کو دھکیل کر بند گلی میں لے گئی۔ یہ ایک تحقیق طلب کام ہے کہ وہ لابی کس کے کہنے پر بروئے کار آئی؟ جس نے مسلم لیگ نون سے اُس کا تاریخی کردار چھین لیا۔ ایک دائیں بازو کی نرم جماعت سے اُسے لبرل ازم کے نام پر بے سمت اور یک رخی جماعت بنا دیا۔ جو فوج اور وجود پاکستان کے بنیادی نظریے کے برخلاف نتائج پیدا کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گئی۔ یہ کوئی اضافی نہیں اس کردار کا لازمی نتیجہ تھا کہ مسلم لیگ نون نے پاکستان کے اندر بعض اداروں کو بھارت سے بڑا دشمن سمجھنا شروع کردیا ۔ چنانچہ مسلم لیگ نون کی قیادت اس کے لیے تو تیار تھی کہ وہ پاک فوج کے خلاف پاکستان کے اندر ہر نوع کے جذبات پیدا کرنے کی تحریک دے، مگر بھارت کے خلاف جائز مقامات پر بھی آواز اُٹھانے کو تیار نہیں تھی۔ یہ سوال کوئی سیاسی بیان بازی نہ تھا کہ نوازشریف کی زبان پر کلبھوشن کا نام کیوں نہیں آتا؟
مسلم لیگ نون کے اس کردار کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار کوتلیہ چانکیہ کی کتاب ارتھ شاستر کی طرف دھیان جاتا ہے۔ دو ہزار سال قبل کے ٹیکسلامیں پیدا ہونے والے ایک بدصورت برہمن بچے نے اپنے سے زیادہ مکروہ سیاست کی ایک ایسی کتاب تحریر کی جسے ہندو اور برہمن سیاست کی بائبل کہا گیا اور خود اُسے’’ ہندوستانی ارسطو‘‘ سے یاد رکھا گیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کتاب میں ایسی مکروہ تدابیر کا ذکر ہے جس کا استعمال بھارت آج بھی کرتا ہے۔ ارتھ شاستر کا چودہواں باب ’’دشمن ملک‘‘کے مخالف وموافق گروہوں کو اپنے ساتھ غیر محسوس طور پر ملانے کی تدابیر پر محیط ہے۔ یہ باب غیر معمولی طور پر اس امر کی تفہیم کرتا ہے کہ کسی بھی ریاست یا اجتماعیت میں بادشاہت (مراد حکمران) سے ناراض اور خوش دونوں طرح کے گروہ موجود ہوتے ہیں۔ ان دونوں مخالف وموافق گروہوں میں نقب زنی کے مختلف طریقے ہیں۔ گویا دونوں گروہوں کے گرد مختلف تدابیر کے ذریعے ایسے حالات بُنے جاسکتے ہیں کہ دونوں ہی گروہ مرضی کے نتائج دے سکتے ہیں۔ ارتھ ساشتر میں ان گروہوں کو پہچاناگیا ہے جو ریاستی سرگرمیوں میں مختلف حالات سے دوچار رہتے ہیں۔ ایک گروہ ایسا ہوتا ہے جو پورے نظام سے بے دخل کردیا جاتا ہے، یہ اعلانیہ ناراض لوگوں کا گروہ ہے۔ دوسرا ناخوش مگر محتاط لوگوں کا ہے جو نظام میں اپنے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہونے کے باوجود اندرونی خوف کے باعث اس سے جُتے رہنے پر مجبور ہے۔ تیسرا گروہ لالچی لوگوں کا ہے، جو خطرناک کاروباری سرگرمیوں میں ہوتے ہیں اور اس میں ناپسندیدہ حرکتوں کے مرتکب رہتے ہیں۔ اسی طرح ایک متکبر لوگوں کا بھی گروہ ہوتا ہے۔ جن کی سرگرمیاں کسی بھی نوعیت کی ہو مگر وہ دل سے مطمئن نہیں ہوتے اور اپنے کسی بھی ہم رتبہ کے لیے کوئی اعزاز برداشت نہیں کر پاتے۔ کوتلیہ چانکیہ کے لیے یہ تمام گروہ ایک ’’خام مال‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے کوئی بھی ’’پراڈکٹ‘‘ بنائی جاسکتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے گروہ بتمام وکمال ملتے ہیں۔ وافر وارزاں ملتے ہیں۔ گویا ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ان میں سے بیشتر’’حشرات‘‘ وہ ہیں جو ہماری قومی بداعمالیوں کے جوہڑ سے پیدا ہوئے۔افسوس ناک طور پر پاکستان میں ایک حقیقی تجزیے کے حالات ہی موجود نہیں۔آج سیاست دانوں کی جو نسل بدعنوانیوں سے لتھڑی ملتی ہے وہ بھی مخصوص حالات میں چشم پوشی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان کا پورا سیاسی، عدالتی اور ریاستی ڈھانچہ ایسے لوگوں کی افزائش کرنے میں لگا رہتا ہے۔ یہاں بدعنوان ہی بدعنوانوں سے حساب مانگ رہے ہوتے ہیں۔ نیکی و بھلائی کی کوئی بھی قدر ریاست کی اجتماعی ڈھانچے میں گنجائش پانے کے قابل ہی نہیں رکھی جاتی۔ پھر بدعنوانوں کا حساب واحتساب بھی اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ درحقیقت بدعنوانی کے مرتکب کیوں رہے، بلکہ وہ کسی نہ کسی موقع پر طاقتور حلقوں کی راہ میں متصادم مفادات کے باعث حائل ہوجاتے ہیں۔ بھارت کے لیے پاکستان کی یہ اندرونی فضا نہایت ساز گار ہے۔ جس کا پوراپورا فائدہ نوازشریف کے پچھلے دور میں اُٹھایا گیا۔ وہ اپنے مکروہ کھیل میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ان گروہوں کو مختلف انداز میں شریک کرنے کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے جو سیاسی وعسکری طور پر ریاستی اداروں سے تصادم کی کیفیت میں ہے۔ ہمارے ریاستی ڈھانچے میں اتنی ذہنی سکت نہیں کہ وہ ان سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ ذہانت کا اظہار کرسکے۔ ذرا دیر چلتے ہی یہ حلقے ہانپنے لگتے ہیں۔ اس کا سبب وہ تضادات ہیں جو متوازی طور پر اُن کے ساتھ چلتے ہیں۔ یوں پاکستان ایک منحوس گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔پہلی مرتبہ ریاست مجموعی طور پر ایک سیاسی ارادہ طاقتور طریقے سے ظاہر کررہی ہے مگر اس کی راہ میں بہت سی مشکلات ہیں۔ چینی قونصلیٹ پر حملے نے یہ واضح کیا کہ بھارت نے اپنے اندرونی انتخابات کے ماحول میں بھی پاکستان کے خلاف جنگ بند نہیں کی۔برہمن ذہنیت انتخابات میں شکست کھائے یا فتح، وہ دشمن کے ساتھ نبرد آزمائی میں لگا رہتا ہے۔ پاکستان کے اندر کرتار پور سرحد کھولنے پر بھارتی قیادت کی طرف سے عدم شرکت کو یہ تعبیر دی گئی کہ وہ انتخابی ماحول کے باعث پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سیاسی طور پر موزوں نہیں سمجھتے۔ یہ ایک بہت ہی سطحی بات ہے۔ انتخابات کے موجود ہ منظرنامے سے قبل بھی بھارت نے پاکستان کو دوطرفہ تعلقات کی لالچ میں بیک چینل ڈپلومیسی کے تحت مذاکرات کے عندیے اور اندرون ملک سیاسی دباؤ کے عذر سے باندھے رکھا۔ وہ تعلقات کے قیام اور انہدام دونوں میں اپنے اصل کھیل کو دیکھتا ہے کہ کہاں سے اُسے کتنی کامیابی مل سکتی ہے۔ یہ وہ دشمن نہیں جو دشمنی کے خاتمے کے ساتھ دوستی کر لے۔ بھارتی سیاست اور برہمن ذہنیت کو اچھی طرح سمجھنے والے جانتے ہیں کہ کشمیر کا کوئی تنازع نہ بھی ہوتا تب بھی بھارت، پاکستان دشمن ہی ہوتا۔چینی قونصلیٹ پر حملے کی ناکامی کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت اپنے کھیل سے دستبردار ہوجائے گا۔ اب زیادہ دھیان دے کر جانچنا پڑے گا کہ وہ نیا حملہ کس نوعیت کا اور کہاں سے کرے گا۔ پاکستان میں جاری سازشوں میں اس کا کھیل ایک الگ ہی سلسلہ ہے۔الغرض بھارت سے نمٹنے کے لیے مسلسل جاگتے رہنے کی ضرورت ہے۔