... loading ...
نواب اسلم رئیسانی بطور وزیراعلیٰ کئی حوالوں سے دبنگ ثابت ہوئے۔ وہ اتحادیوں کو ساتھ لیکر چلنے کا فن بھی جانتے تھے اور مخالفین سے نمٹنے کا گُر بھی ۔ من کی بات ببانگ دہل کہہ ڈالتے۔ انہیں ضرورت پڑی توگویا اسمبلی کے تقریباً سب ہی اراکین کو وزیر مشیر مقرر کردیا۔ کسی کے دباؤ اور مخالفانہ حربوں کو خاطر میں نہ لاتے۔ اپنی جماعت کے لوگوں کی تو پہلی فرصت میں ہی خبر لے لیتے۔ حتیٰ کہ آصف علی زرداری تک کے آگے کبھی زیر نہ ہوئے۔ اسلم رئیسانی کو پہلے دن ہی سے اپنی جماعت کے لوگوں کی مخالفت، ریشہ دوانیوں کا سامنا تھا۔ آصف زرداری بطور صدر پاکستان جب پہلے دورے پر کوئٹہ آرہے تھے تو پیپلز پارٹی کے چند وزراء نے، جن میں صادق عمرانی، امین عمرانی، جان علی چنگیزی ، اسفند یار کاکڑ اور آغا عرفان کریم شامل تھے ، نواب اسلم رئیسانی کے رویے کے خلاف کابینہ چھوڑنے کا اعلان کیا۔ یہ کہا کہ وہ اپنے استعفے صدر آصف علی زرداری سے رو برو ملاقات میں پیش کرینگے۔ ظاہر ہے ہدف نواب اسلم رئیسانی تھے۔ چنانچہ اسلم رئیسانی نے دباؤ میں آنے کی بجائے ان پانچوں کو برطرف کرنے کے احکامات جاری کردیے۔ پیپلز پارٹی کے چند وفاقی وزراء درمیان میں آگئے، یوں نواب اسلم رئیسانی نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ لیکن ’’کش و بگر‘‘ کایہ سلسلہ پورے پانچ سال تک چلتا رہا۔
پیپلزپارٹی کے چند لوگوں نے علی مدد جتک جن کے پاس خوراک کی وزارت تھی کو شیشے میں اُتارا کہ وہ آگے آکرقیادت سنبھال لیں گے اور عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے ، یعنی علی مدد جتک وزیراعلیٰ بنائے جائیں گے۔ علی مدد جتک ان کے فریب میں آگئے اور برملا نواب رئیسانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی باتیں کرنے لگے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ،نتیجتاً نواب اسلم رئیسانی نے ان سے وزارت کا قلمدان لے لیا۔ یوں عدم اعتماد کی درپردہ باتیں کرنیوالے بھی خاموش ہوگئے۔ میر صادق عمرانی کے پاس مواصلات و تعمیرات کا محکمہ تھا وہ بھی نواب کے ناقدین میں سے تھے۔ نواب نے ان سے بھی رعایت نہ کی۔ وزارت سے فارغ کردیا چونکہ علی مدد جتک کو سمجھ آگئی تھی اس طرح مواصلات و تعمیرات کا قلمدان پھر سے ان کے حوالے کردیا گیا۔
شوخ سیاستدان اسلم بھوتانی بھی تھے۔ وہ خوداُس حکومت میں اسپیکر کا منصب سنبھالے ہوئے تھے۔اپنی شوخی طبع کی بناء وہ نواب رئیسانی کے ساتھ چل نہ سکے۔ رفتہ رفتہ کشیدگی بڑھتی گئی ،آخر کاراسمبلی اجلاس وزیراعلیٰ کے کہنے کے باوجود بلانے میں لیت و لعل سے کام لیتے۔ عذر پیش کرتے کہ وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی کوئٹہ رجسٹری کے عبوری حکم کے تحت اجلاس نہیں بلاتے۔ یہ عبوری حکم عدالت عظمیٰ نے 12 اکتوبر 2012ء کو دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بلوچستان حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے۔ اس حکم کو جواز بناکر اسلم بھوتانی نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ آخر کار نواب رئیسانی نے انہیں 26 دسمبر 2012 ء کو عدم اعتماد کے ذریعے بے منصب کردیا۔ نواب رئیسانی کی حکومت پر گورنر راج نافذ ہوا۔ آصف علی زرداری تمام تر مخالفت کے باوجود انہیں وزارت اعلیٰ کے منصب سے مستعفی ہونے پر مجبور نہ کرسکے۔ گویا وہ جانتے تھے کہ حکومت کس طرح کی جاتی ہے۔ وہ کمزوری دکھاتے تو شاید اگلے ڈیڑھ سال ہی میں اُن کی حکومت ڈھیر ہوجاتی۔ نواب ثناء اللہ زہری قیام و استقامت دکھاتے تو شاید اپنی مدت پوری کرلیتے۔
غرض امتحان جام کمال عالیانی کا آن پڑا ہے۔ بہت ساروں کو ناگوار ہیں بلکہ ایک دو تو انہیں وزیراعلیٰ کے طور پر آغاز میں ہی دیکھنا نہیں چاہتے تھے جن میں عبدالقدوس بزنجو شامل ہیں۔ چونکہ وہ خود وزیراعلیٰ بننے کے خواہشمند تھے،اب بھی یہ خواہش انگڑائیاں لے رہی ہے ۔ وہ اس امر سے آگاہ تھے کہ جام کمال ہر لحاظ سے وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے موذوں شخص ہیں، لہٰذا اُنہوں نے آغاز ہی میں اختلاف کی فضاء بنانے کی کوششیں کیں۔ یوں 18 نومبر کو عبدالقدوس بزنجو نے ایک بار پھر مستعفی ہونے کا شگوفہ چھوڑ دیا ہے کہ انہیں بہ حیثیت اسپیکر اور پارٹی رہنماء کے ہر معاملے میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ یہ کہ وہ جلد دوستوں سے مشورہ کرکے آئندہ کے پروگرام کا اعلان کر یں گے ۔ ذرائع ابلاغ کو یہ بھی کہا کہ ان کے لیے عہدے معنی نہیں رکھتے۔ دیکھا جائے تو تنازع ہی عہدوں کا ہے۔ تاہم جام کمال کو چاہیے کہ انہیں پارٹی معاملات میں شریک مشورہ کرلیا کریں۔ویسے بھی تنظیمی اُمور سے متعلق پارٹی کے متعلقہ فورمز سے مشاور ت بہرحال لازم ہے ، جس میں جام کمال کے لیے آسانیاں ہوں گی ۔آگے بلدیاتی انتخابات آرہے ہیں ۔چناں چہ تیاریوں کے پیش نظر پارٹی میں اوپر تا نیچے تقسیم کار کا مربوط طریقہ وضع کیا جائے تاکہ کام میں آسانی ہو ۔ہاں تو اصل مسئلہ رامین محمد حسنی کا ہے جنہیں حال ہی میں جام کمال نے اپنا معاون خصوصی کے طور پر مقرر کیا ہے۔ اس شخص کا تعلق عبدالقدوس بزنجو کے ضلع آواران سے ہے ۔اب ان کا خاندان عبدالقدوس بزنجو کا سیاسی حلیف نہیں رہا۔مسئلہ دو ہزار اٹھارہ اُنیس کے بجٹ کی پی ایس ڈی پی کا بھی ہے کہ عبدالقدوس بزنجو جب وزیراعلیٰ تھے تو اپنے حلقے کیلئے بڑا فنڈز لے کرگئے تھے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جام کمال وزارت اعلیٰ کے منصب کیلئے انتہائی موزوں شخصیت ہیں۔ ایک دو کے سوا فضاء ان کے موافق ہے ۔ ہونا یہ چاہیے کہ انہیں کھلے دل و دماغ کے ساتھ کام کرنے دیا جائے ان سے تعاون کیا جائے۔ پچھلے دنوں ایک اور وزیر صاحب نے مستعفی ہونے کی بات کی، پتہ چلا کہ وہ اپنے حلقے میں ایک تحصیلدار کا تبادلہ کرانا چاہ رہے ہیں۔ ایک اور بڑی حکومتی شخصیت نے کسی سے گلہ کیا تھا کہ ان کے ضلع کے ڈی پی او کو تبدیل نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر ان چھوٹے چھوٹے مسائل میں جام کمال کو اُلجھانے کی کوششیں ہوں گی تو وہ مطلوب ہدف تک کیسے پہنچیں گے۔ ضروری ہے کہ جزیات کے بجائے قومی مفاد کو د یکھا جائے ۔ فی الوقت عبدالقدوس بزنجو کو جام کمال ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ بزنجو زمینی حقائق کے برعکس معاملات میں رخنہ ڈالنے اور محاذ قائم کرنے کی مساعی کریں گے تو یقینی طور نقصان اُ ن کا ہی ہوگا۔اوراگر قدوس بزنجو پارٹی کے اندر یا حزب اختلاف سے اس ضمن میں روابط کر چکا ہے تو اس کا جام کمال کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے۔نواب رئیسانی نے اراکین اسمبلی سے متعلق کہا تھا کہ انہیں سنبھالنا مینڈکوں کو ترازو میں تولنے کے مترادف ہے۔ گو یاکہنے کا مقصد یہ کہ مشکل کام کو کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ وگرنہ بقول شاعر’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ ۔ اسپیکر کے لیے بھی بہتر راستا یہی ہے کہ وہ ذاتی مفاد، سیاسی دھونس و دباؤ کی پالیسی چھوڑکر اپنے منصب پر توجہ دیں۔ ایرے غیرے کی باتوں پر کان نہ دھریں۔