وجود

... loading ...

وجود

گورنر ہاؤس کراچی

پیر 19 نومبر 2018 گورنر ہاؤس کراچی

وزیر اعلیٰ پنجاب کے مسکن اور بزدار بلوچوں کے علاقے میں بہنے والی ’’ سنگڑھ ندی ‘‘ اور اردگرد کے تمدن کے بارے میں کچھ قلمبند کرنے بیٹھا ہی تھا کہ ایک صاحب سے ملاقات درمیان میں آ گئی ۔۔۔ ان کی کراچی کے گورنر ہاؤس میں سرکاری خدمات کا تیسرا عشرہ اختتام پزیر ہونے والا ہے۔۔۔ ۔ کراچی کے بارے میں ان کے تاثرات جاننا چاہے تو ’’ رینجرز کے آپریشن ‘‘ کے لیے خراجَ تحسین سُننے کو ملا۔۔ بولے کہ کراچی نے نئی کروٹ لی ہے ۔۔ عدم تحفظ کا احساس بہت حد تک ختم ہو گیا ہے ۔۔ایک دور وہ بھی تھا کہ سرشام ہی گھر سے باہر نکلنے والے بچوں کی گھروں کو واپسی کے لیے ماؤں کو گڑگڑا کر دعائیں مانگنا پڑتی تھیں ۔اب آپ رات کے دو بجے بھی گھر سے نکل جائیے ۔۔امان ملے گی ۔۔۔کچھ عرصہ سے دوبارہ اسٹریٹ کرائمز میں اضافے او ر چند ایک اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی بات بھی انہوں نے کی ۔۔
گورنر ہاؤس تک شہریوں کی رسائی پر وہ صاحب جب بات کر رہے تھے تو چہرے پر افسردگی کے آثار کی جھلک دکھائی دیتی تھی ۔۔۔ روزانہ شام چار بجے سے رات دس بجے تک گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھولا جاتا ہے ۔ ابتداء میں ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار افراد روزانہ مطالعاتی دورے پر آتے تھے ۔۔ اب بھی لگ بھگ ایک ہزار کے قریب افراد یومیہ وزٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ دن کے وقت مخصوص ا سکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو بھی بُلالیا جاتا ہے۔۔ لیکن شام کے چھ گھنٹے بڑے کٹھن ہوتے ہیں اس تاریخی عمارت کے لیے ۔۔۔۔۔۔
گورنر ہاؤس کراچی کا یہ اعزاز بہت یگانہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب تک کراچی دارلحکومت رہا تو اسے گورنر جنرل ہاؤس کا درجہ حاصل رہا ۔۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل یہی ہاؤس استعمال کیا ۔۔ ان کے استعمال کی بہت سی چیزیں یہاں تاریخی ورثے کے طور پر موجود ہیں ۔ جن میں قائد کے زیر استعمال رہنے والی کُرسی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔۔ لکڑی کی بنی ہوئی اس کرسی کی اس قدر مضبوطی کی ایک وجہ اس میں پیتل کا استعمال ہے۔ اس کے جوڑوں اور کیل لگانے کی جگہ پر پیتل لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی مضبوطی قائم ہے اور یہ سلامت ہے ۔۔ اس کرسی کے موجودہ استعمال کے بارے میں بتایا گیا کہ گورنر کی حلف برداری کے موقع پر اس پر چیف جسٹس تشریف فرما ہوتے ہیں ۔۔ جب کہ کابینہ کی حلف برداری کے وقت اس کرسی پر گورنر بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی قائد سے وابستہ بعض اشیاء اور قانون سے متعلق ان کی کئی ذاتی کتابیں یہاں موجود ہیں ۔۔۔
یہ ساری معلومات خوش کُن ہیں لیکن بتانے والے کے چہرے پر افسردگی کی وجہ یہ تھی کہ گورنر ہاؤس کا وزٹ کرنے والے وہاں موجود اشیاء کی اہمیت سے خاطر خواہ آگاہی نہیں رکھتے ۔۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران کئی میزوں کے شیشے دو دو مرتبہ ٹوٹے ہیں ۔۔ خواتین شیشے والی ٹیبلز پر بچوں کو ہی بٹھا دیتی ہیں ۔۔ کئی وزیٹر صوفے پر لیٹ کر استراحت فرماتے ہیں ۔۔۔باغیچوں کے ساتھ بھی کراچی کے لوگ ویسا ہی سلوک کرتے نظر آتے ہیں ۔ جیسا لاہوریوں نے گورنر ہاؤس کھولے جانے کے پہلے دن وہاں کے پودوں اور باغیچوں کے ساتھ کیا تھا ۔۔ کراچی کے گورنر ہاؤس میں پولیس کے لگ بھگ 300 کے اسٹاف کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں مالی ہیں ۔۔ لیکن باغیچوں کے اُجڑنے پر یہ باغبان خاموشی سے لہوکے گھونٹ پی کر رہ جانے کے سواکچھ بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔ گورنر ہاؤس کے ارباب اختیار ان معاملات کو اپنی فراست سے یقیناًبہتر بنا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بیوروکریسی کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھا جائے اور حالات کا بہاؤ بہتری کی جانب لانے کی بجائے عوام اور جمہوری حکومتوں کو غیر معقولیت کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے بہانے تلاش کیے جائیں ۔۔۔ گورنر ہاؤس کے تیس سال کے مکینوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ہمارے مہمان کی آنکھں اُس وقت بھر آئیں جب انہوں نے حکیم محمد سعید کا ذکر کیا ۔۔ کہنا تھا کہ اُن جیسا تو اب کوئی بھی نہیں ۔ اور نہ ہی کوئی اُن جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔۔ وہ بہت عظیم انسان تھے۔۔ سابق صدر ممنون حُسین کے گورنر بننے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ گورنر ہاؤس کا سیکورٹی ا سٹاف جب ممنون حُسین کو کراچی کی ایک مارکیٹ میں قائم ان کی دُکان سے گورنر ہاؤس لا رہا تھا تو انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ماجرا کیا ہے۔۔۔؟ راستے میں انہیں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد سے کال آئی کے سندھ کی گورنری کا ’’ُ ہُما ‘‘ آپ کے سر کا منتظر ہے۔۔ فوجی گورنروں کے بارے میں صرف یہی بتاتا گیا کہ ان کا اپنا ایک مخصوص طرز زندگی ہے۔۔ سیدھا چل ۔۔ دائیں دیکھ ۔۔ لیفٹ رائٹ ۔وغیرہ
۔اپنے افسران کو کوئی بُرا نہیں کہتا ۔۔ کہا گیا کہ سب کے سب گورنر صاحبان شریف اور اچھے انسان تھے ۔۔ سابق گورنر محمد زبیر کی بات ہوئی تو محتاط انداز میں شکووں کی قطاریں لگنے لگیں ۔۔ کہا گورنر ہاؤس میں ایک اعلیٰ درجے کا ہسپتال تھا جہاں سرجری کے علاوہ ہر قسم کا علاج معالجہ ہوتا تھا ۔۔ لیکن سابق گورنر زبیر کے دور سے اُس کی بُری حالت ہے۔۔ نئے گورنر عمران اسماعیل تو آگئے مگر اس ہسپتال میں اسپرین کی گولی تک نہیں آئی ۔۔۔۔شکوہ کرنے والے کو کیا بتایا جائے کہ موجودہ گورنر عمران اسماعیل اور محمد زبیر کے گورنر بننے کی وجہ مشترک ہے۔۔ یہ دونوں عمران خان کی وجہ سے ہی اس منصب تک پہنچے ۔۔ محمد زبیر عمران خان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اور عمران اسماعیل حمایت کرنے کی بدولت۔۔۔۔۔۔ گورنر ہاؤس میں ہر سال وفاق کے زکواۃ فنڈ سے ایک معقول رقم آتی تھی جو باقاعدہ فہرستیں بنا کر صوبے کے اس اعلیٰ آئینی ادارے کی جانب سے مستحقین میں تقسیم کی جاتی تھی ۔۔ گورنر زبیر کے دور سے یہ امدادی رقم بھی بند ہے۔۔شاید اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اب یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ کراچی میں زکوۃلینے والا کوئی باقی نہیں رہا ۔۔۔یا پھر ایسا ہے جیسا ایک مرتبہ ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی جانب سے میانوالی کی بند ٹرینوں کی بحالی کی بات کی گئی تو انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں اپنی صحت کی بساط سے بڑھ کر اونچے لہجے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ میانوالی والے ووٹ عمران خان کو دیتے ہیں اور ٹرینیں ہم سے چلواتے ہیں ۔۔۔ ‘‘
کراچی کے گورنر ہاؤس کی اپنی ایک منفرد تاریخ اور حوالہ ہے، جس میں بانیانِ پاکستان کا ذکر دلچسپی اور انسپائریشن کا باعث ہے۔ پچا س سال کی عمر میں بھی ابھی تک مجھے ایسا موقع ہاتھ نہیں آیا کہ کراچی کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں ۔۔۔ ہمیشہ مصروفیات آڑے رہیں ۔۔ اس شہر سے میرے شہر میانوالی کے جو رشتے ہیں اُن میں ایک سانجھ یہ بھی ہے کہ میرا علاقہ بھی باب الاسلام ہے ۔۔۔۔میانوالی کے علاقے میں مسلمان دیبل اور بلوچستان کی فتح سے بھی پہلے پہنچے تھے یہ سب کچھ کراچی کی نیازی کالونی یا لیاری کے اردگرد رہنے والے میانوالیوں کو بھی بتانے کی ضرورت ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر