... loading ...
وزیر اعلیٰ پنجاب کے مسکن اور بزدار بلوچوں کے علاقے میں بہنے والی ’’ سنگڑھ ندی ‘‘ اور اردگرد کے تمدن کے بارے میں کچھ قلمبند کرنے بیٹھا ہی تھا کہ ایک صاحب سے ملاقات درمیان میں آ گئی ۔۔۔ ان کی کراچی کے گورنر ہاؤس میں سرکاری خدمات کا تیسرا عشرہ اختتام پزیر ہونے والا ہے۔۔۔ ۔ کراچی کے بارے میں ان کے تاثرات جاننا چاہے تو ’’ رینجرز کے آپریشن ‘‘ کے لیے خراجَ تحسین سُننے کو ملا۔۔ بولے کہ کراچی نے نئی کروٹ لی ہے ۔۔ عدم تحفظ کا احساس بہت حد تک ختم ہو گیا ہے ۔۔ایک دور وہ بھی تھا کہ سرشام ہی گھر سے باہر نکلنے والے بچوں کی گھروں کو واپسی کے لیے ماؤں کو گڑگڑا کر دعائیں مانگنا پڑتی تھیں ۔اب آپ رات کے دو بجے بھی گھر سے نکل جائیے ۔۔امان ملے گی ۔۔۔کچھ عرصہ سے دوبارہ اسٹریٹ کرائمز میں اضافے او ر چند ایک اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کی بات بھی انہوں نے کی ۔۔
گورنر ہاؤس تک شہریوں کی رسائی پر وہ صاحب جب بات کر رہے تھے تو چہرے پر افسردگی کے آثار کی جھلک دکھائی دیتی تھی ۔۔۔ روزانہ شام چار بجے سے رات دس بجے تک گورنر ہاؤس کو عوام کے لیے کھولا جاتا ہے ۔ ابتداء میں ایک ہزار سے ڈیڑھ ہزار افراد روزانہ مطالعاتی دورے پر آتے تھے ۔۔ اب بھی لگ بھگ ایک ہزار کے قریب افراد یومیہ وزٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ دن کے وقت مخصوص ا سکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو بھی بُلالیا جاتا ہے۔۔ لیکن شام کے چھ گھنٹے بڑے کٹھن ہوتے ہیں اس تاریخی عمارت کے لیے ۔۔۔۔۔۔
گورنر ہاؤس کراچی کا یہ اعزاز بہت یگانہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب تک کراچی دارلحکومت رہا تو اسے گورنر جنرل ہاؤس کا درجہ حاصل رہا ۔۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے بطور گورنر جنرل یہی ہاؤس استعمال کیا ۔۔ ان کے استعمال کی بہت سی چیزیں یہاں تاریخی ورثے کے طور پر موجود ہیں ۔ جن میں قائد کے زیر استعمال رہنے والی کُرسی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔۔ لکڑی کی بنی ہوئی اس کرسی کی اس قدر مضبوطی کی ایک وجہ اس میں پیتل کا استعمال ہے۔ اس کے جوڑوں اور کیل لگانے کی جگہ پر پیتل لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے اس کی مضبوطی قائم ہے اور یہ سلامت ہے ۔۔ اس کرسی کے موجودہ استعمال کے بارے میں بتایا گیا کہ گورنر کی حلف برداری کے موقع پر اس پر چیف جسٹس تشریف فرما ہوتے ہیں ۔۔ جب کہ کابینہ کی حلف برداری کے وقت اس کرسی پر گورنر بیٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی قائد سے وابستہ بعض اشیاء اور قانون سے متعلق ان کی کئی ذاتی کتابیں یہاں موجود ہیں ۔۔۔
یہ ساری معلومات خوش کُن ہیں لیکن بتانے والے کے چہرے پر افسردگی کی وجہ یہ تھی کہ گورنر ہاؤس کا وزٹ کرنے والے وہاں موجود اشیاء کی اہمیت سے خاطر خواہ آگاہی نہیں رکھتے ۔۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران کئی میزوں کے شیشے دو دو مرتبہ ٹوٹے ہیں ۔۔ خواتین شیشے والی ٹیبلز پر بچوں کو ہی بٹھا دیتی ہیں ۔۔ کئی وزیٹر صوفے پر لیٹ کر استراحت فرماتے ہیں ۔۔۔باغیچوں کے ساتھ بھی کراچی کے لوگ ویسا ہی سلوک کرتے نظر آتے ہیں ۔ جیسا لاہوریوں نے گورنر ہاؤس کھولے جانے کے پہلے دن وہاں کے پودوں اور باغیچوں کے ساتھ کیا تھا ۔۔ کراچی کے گورنر ہاؤس میں پولیس کے لگ بھگ 300 کے اسٹاف کے بعد سب سے زیادہ تعداد میں مالی ہیں ۔۔ لیکن باغیچوں کے اُجڑنے پر یہ باغبان خاموشی سے لہوکے گھونٹ پی کر رہ جانے کے سواکچھ بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔ گورنر ہاؤس کے ارباب اختیار ان معاملات کو اپنی فراست سے یقیناًبہتر بنا سکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں بیوروکریسی کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ معاملات پر اپنی گرفت کو مضبوط رکھا جائے اور حالات کا بہاؤ بہتری کی جانب لانے کی بجائے عوام اور جمہوری حکومتوں کو غیر معقولیت کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے بہانے تلاش کیے جائیں ۔۔۔ گورنر ہاؤس کے تیس سال کے مکینوں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ہمارے مہمان کی آنکھں اُس وقت بھر آئیں جب انہوں نے حکیم محمد سعید کا ذکر کیا ۔۔ کہنا تھا کہ اُن جیسا تو اب کوئی بھی نہیں ۔ اور نہ ہی کوئی اُن جیسا بننے کی کوشش کرتا ہے۔۔ وہ بہت عظیم انسان تھے۔۔ سابق صدر ممنون حُسین کے گورنر بننے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’ گورنر ہاؤس کا سیکورٹی ا سٹاف جب ممنون حُسین کو کراچی کی ایک مارکیٹ میں قائم ان کی دُکان سے گورنر ہاؤس لا رہا تھا تو انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ماجرا کیا ہے۔۔۔؟ راستے میں انہیں بتایا گیا تھا کہ اسلام آباد سے کال آئی کے سندھ کی گورنری کا ’’ُ ہُما ‘‘ آپ کے سر کا منتظر ہے۔۔ فوجی گورنروں کے بارے میں صرف یہی بتاتا گیا کہ ان کا اپنا ایک مخصوص طرز زندگی ہے۔۔ سیدھا چل ۔۔ دائیں دیکھ ۔۔ لیفٹ رائٹ ۔وغیرہ
۔اپنے افسران کو کوئی بُرا نہیں کہتا ۔۔ کہا گیا کہ سب کے سب گورنر صاحبان شریف اور اچھے انسان تھے ۔۔ سابق گورنر محمد زبیر کی بات ہوئی تو محتاط انداز میں شکووں کی قطاریں لگنے لگیں ۔۔ کہا گورنر ہاؤس میں ایک اعلیٰ درجے کا ہسپتال تھا جہاں سرجری کے علاوہ ہر قسم کا علاج معالجہ ہوتا تھا ۔۔ لیکن سابق گورنر زبیر کے دور سے اُس کی بُری حالت ہے۔۔ نئے گورنر عمران اسماعیل تو آگئے مگر اس ہسپتال میں اسپرین کی گولی تک نہیں آئی ۔۔۔۔شکوہ کرنے والے کو کیا بتایا جائے کہ موجودہ گورنر عمران اسماعیل اور محمد زبیر کے گورنر بننے کی وجہ مشترک ہے۔۔ یہ دونوں عمران خان کی وجہ سے ہی اس منصب تک پہنچے ۔۔ محمد زبیر عمران خان کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اور عمران اسماعیل حمایت کرنے کی بدولت۔۔۔۔۔۔ گورنر ہاؤس میں ہر سال وفاق کے زکواۃ فنڈ سے ایک معقول رقم آتی تھی جو باقاعدہ فہرستیں بنا کر صوبے کے اس اعلیٰ آئینی ادارے کی جانب سے مستحقین میں تقسیم کی جاتی تھی ۔۔ گورنر زبیر کے دور سے یہ امدادی رقم بھی بند ہے۔۔شاید اسلام آباد میں بیٹھے حکمران اب یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ کراچی میں زکوۃلینے والا کوئی باقی نہیں رہا ۔۔۔یا پھر ایسا ہے جیسا ایک مرتبہ ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کی جانب سے میانوالی کی بند ٹرینوں کی بحالی کی بات کی گئی تو انہوں نے اپنے مخصوص لہجے میں اپنی صحت کی بساط سے بڑھ کر اونچے لہجے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ میانوالی والے ووٹ عمران خان کو دیتے ہیں اور ٹرینیں ہم سے چلواتے ہیں ۔۔۔ ‘‘
کراچی کے گورنر ہاؤس کی اپنی ایک منفرد تاریخ اور حوالہ ہے، جس میں بانیانِ پاکستان کا ذکر دلچسپی اور انسپائریشن کا باعث ہے۔ پچا س سال کی عمر میں بھی ابھی تک مجھے ایسا موقع ہاتھ نہیں آیا کہ کراچی کو اپنی آنکھوں سے دیکھوں ۔۔۔ ہمیشہ مصروفیات آڑے رہیں ۔۔ اس شہر سے میرے شہر میانوالی کے جو رشتے ہیں اُن میں ایک سانجھ یہ بھی ہے کہ میرا علاقہ بھی باب الاسلام ہے ۔۔۔۔میانوالی کے علاقے میں مسلمان دیبل اور بلوچستان کی فتح سے بھی پہلے پہنچے تھے یہ سب کچھ کراچی کی نیازی کالونی یا لیاری کے اردگرد رہنے والے میانوالیوں کو بھی بتانے کی ضرورت ہے ۔