... loading ...
یوٹرن’’ اچھے‘‘ ہوتے ہیں جیسے صابن فروشوں کے لیے داغ، جیسے اداکاراؤں کے لیے اسکینڈلز۔ جیسے سنی لیون کے لیے۔ ۔۔۔ ارے چھوڑیے!!! یہ بھی کوئی بحث ہے۔عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بڑے بہت ہوگئے ہیں۔اُن کے موضوعات کی فہرست دیکھتے ہیں تو لگتا ہے کہ کانٹ ، ہابس اور ہیگل کو ہی زیبا ہے کہ وہ اُن پر بات کریں۔ آپ بھی اُن موضوعات کی فہرست پر نگاہ ڈالیں جو عمران خان کی گفتار کا ہدف رہے ، تویقین کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ مدینہ کی ریاست ،روحانی دنیا، علامہ اقبال کا شاہین اور اب یہ یوٹرن والا تازہ موقف !!!!
امریکی ریاست سینٹ لوئس کی لمبی شاہراؤں سے گزرتے ہوئے سامنے کچھ بورڈ آویزاں ملتے ہیں، جس پر لکھا ہوتا ہے :
Remember, if you’ re headed in the wrong direction, God allows U-turns
(یاد رکھیں! اگر آپ غلط سمت میں آگئے ہیں تو خدا یوٹرن کی اجازت دیتا ہے)
الیزن گاپا بوٹکا (Allison Gappa Bottke) کا یہ مشہور فقرہ دراصل اُس کی مختصر کہانیوں کی ایک کتاب کا نام بھی ہے۔ مسکراہٹ ضبط کیجیے !یہ کتاب دراصل ایک عورت کے سفرِ حیات کے محور میں مختلف کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس تناظر میں یوٹرن کا ایک اپنا لطف ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کی ناں اور ہاں میں فاصلہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اردو شاعری کے بھی کیا کہنے!
اُٹھتے اُٹھتے ہی اُٹھیں گے یہ حجاباتِ حجاب
آتے آتے ہی آئے گی یہ نہیں ہاں کے قریب
یہ رہوارِ خیال کہاں بھٹکتا ہے، یوٹرن اچھی بات ہے۔ عمران خان کے ذہن میں یوٹرن کی تقدیس پر نہ جانے کیا تصور رہا ہوگا۔ مگر الیزن کی کہانیوں میں شاہراہ حیات پر غلط سمت دوڑانے والی جن گمراہوں کی نشاندہی کی گئی ہیں اُن میں بُرا انتخاب، منفی رویے اور تباہ کن فیصلے شامل ہیں۔ اگر زندگی کی سڑک پر دوڑتے ہوئے یہ عناصر کسی کوبھٹکا رہے ہو تو مصنف کے مطابق خدا اُسے یوٹرن کی اجازت دیتا ہے۔ عمران خان کے باب میں معاملہ مختلف ہے ۔ وہ وزیراعظم کے منصب کو اپنی زندگی کا مقصد بنا کر چلے تھے۔ اور اس کے لیے اُنہوں نے بُرے انتخاب، منفی رویے اور تباہ کن فیصلے کیے۔اور اسے وہ کامیابی کے جائز یوٹرن کہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے نزدیک وہ لیڈر ہی نہیں جسے یوٹرن لینا نہ آتا ہو۔ عمران خان کی تسلی تھوڑے الفاظ میں عام طور پر نہیں ہوتی ، اس لیے وہ اس موضوع پر بھی کم بولنے پر راضی نہ ہوئے۔ اُنہوں نے مزید فرمایا کہ جو یو ٹرن لینا نہیں جانتا ، اُس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہوتا۔ ہٹلر اور نپولین یوٹرن نہ لینے سے شکست سے دوچار ہوئے۔ اپنے اس موقف پر اُن کے اور نوازشریف کے درمیان سمٹتے فاصلے دیکھ کر اُنہوں نے یہ بھی فوراً کہنا ضروری سمجھا کہ نوازشریف نے عدالت میں یوٹرن نہیں لیا، جھوٹ بولا۔
وزیر اعظم عمران خان کا یوٹرن تصور جتنی پست سطح سے آیا ہے، اس کی کوئی توجیہ چاہتے ہوئے بھی نہیں کی جاسکتی۔ اس کی حمایت میں لکھنے والوں کو نوازشریف کے دستر خوانی خوانی قبیلے کی نفسیات چاہئے۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ یہ موقع عمران خان نے ہی دیا کہ خواجہ آصف کو پسند نہ کرنے والوں کوبھی اُن کا تبصرہ پسند آیا : عمران خان یوٹرن والے بیان پر بھی یوٹرن لیں گے‘‘۔ مگر یہ اتنی بھی سادہ بات نہیں جو عمران خان نے کہی اور خواجہ آصف کے تبصرے میں جس کی تفہیم کی گئی۔نوازشریف اورآصف زرداری سمیت سب سیاسی رہنما کم وبیش اسی راستے کے مسافر ہیں ۔نوازشریف نے ابھی ابھی قطری خط اور اپنے بیٹے کے موقف سے اپنے آپ کو علیحدہ کیا ہے یہاں تک کہ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب سے بھی استثنیٰ کے ذریعے اظہارِ لاتعلقی کردیا ہے۔ دوسری طرف آصف زرداری معاہدوں پر اپنا بیان دے چکے ہیں کہ یہ قرآن و حدیث نہیں ہوتے۔یہ میکاولی طرزِ فکر سے بھی خطرناک زاویہ ہے جس میں انسان کسی عقیدے، نظریے اوردائرے میں خود کو نہیں رکھتا۔ اس کی ہر بات سیاست کے لیے ہوتی ہے اور اس نوع کی سیاست میں مفادات مذہب اور یوٹرن عقیدہ بن جاتا ہے۔ عمران خان کے ہاں یہ بات زیادہ بھیانک اس لیے ہے کہ وہ بات ریاست مدینہ کی کرتے ہیں ۔ رہنما قائداعظم کو مانتے ہیں۔ مفکر علامہ اقبال کو قرار دیتے ہیں اور مثالیں ہٹلر اور نپولین کی دیتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست اُصول پر کھڑی تھی اور اس کے لیے جو راستا اختیار کیا گیا اُس میں کہیں کوئی یو ٹرن نہیں تھا۔ کسی بھی رہنما کے لیے منزل سے کہیں زیادہ راستے کا شعور معنی رکھتا ہے۔ اگر وہ راستے کو نہیں سمجھتا اور اُسے راستا باربار بدلنے کی ضرورت پڑتی ہے تو پھر یہ قیاس کبھی غلط قرار نہیں پاسکے گا کہ وہ منزل کے ادراک میں بھی کامیاب ہوا ہے یا نہیں۔ جو شخص راستے کی سمجھ نہیں رکھتا اُس کے بارے میںیہ یقین کرنے کی وجہ بھی نہیں ملے گی کہ اُسے منزل کی سمجھ ہے۔ عمران خان کے باب میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے ۔ایک طرف وہ مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں مگر ساتھ ہی چین سے سیکھنے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایک ملغوبہ ذہن کے ساتھ اقتدار کی بے پناہ محبت کے شکار شخص کی طرح بروئے کار ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے یوٹرن تصور میں مثالیں بھی عجیب استعمال کی گئیں۔ انسانی نفسیات کے ماہر فرائڈ کے نزدیک انسان کی پھسلتی زبان سے نکلنے والے الفاظ اور اس کی مثالیں اس کے اندرون کو باہر کرتی ہیں۔ درحقیقت آدمی کی مثالیں اُس کی جبلت سے آتی ہے۔ ہٹلر کی مثال عمران خان کے مزاج کا سنجیدگی سے مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔ حیرت ہے کہ اُنہیں ہٹلر کے یوٹرن نہ لینے سے ہونے والی ناکامی کا خیال آتا ہے جبکہ طبعاً نیک آد می ایسے افراد کی ناکامیوں کو ہی پسند کرتا ہے۔پھر نپولین کا تو واٹر لو اس کے تو یوٹرن کا نتیجہ تھا۔ افسوس یہ ہے کہ عمران خان گاہے روحانی دنیا کی بات کرتے ہیں مگر اُن کی سیاست اور اُس کا پورا بیانیہ کہیں سے بھی ’’اخلاقی‘‘دکھائی نہیں دیتا۔ وہ سیاست میں بدترین طور پرمیکیاولین سے بھی زیادہ گھناؤنے تیور ظاہر کرتے ہیں۔ مگر اکثر مدینہ کی ریاست، قائد اعظم، علامہ اقبالؒ ، روحانیت، مولانا رومی اور نہ جانے کون کون سے موضوعات پر اپنا ہنر آزماتے رہتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر وہ ان موضوعات کے درمیان رہ کر یوٹرن کو ایک تصور کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ جبکہ متوازی طور پر وہ باقی رہنماؤں کے کم وبیش ایسے ہی طرزِ عمل پر گرج برس بھی رہے ہیں۔ وہ اپنے جھوٹ کو یوٹرن جیسا اور دوسروں کے یوٹرن کو جھوٹ جیسا باور کرانے میں لگے ہیں۔ ایسے عالم میں عمران خان پر انحصار کرنے والے بہت جلد مایوسی کی دلدل میں ہوں گے۔ پھر یوٹرن کو سیاسی بائبل بنانے والے اس شخص کے تیور اُن کے حوالے سے کیا ہوں گے؟ اس پر ابھی بات نہیں کی جاسکتی۔ مگر کسی بھی ابہام کے بغیر عمران خان کا رویہ کندھا دینے، کندھا لینے اور کندھا جھٹکنے والا ہے۔ ایسے شخص کا دوست دشمن جیسا اور دشمن دوست جیسا ہوسکتا ہے۔ اب یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ عمران خان نے اپنے خلاف عامر لیاقت اورفواد چودھری ایسے گالی گفتار کرنے والوں کو کیوں کر قبول کر لیا تھا؟اب یہ بات بھی سمجھی جاسکتی ہے کہ عمران خان کے لیے اپنے قریب ترین لوگ بھی غیر متعلق اور غیر اہم کیوں بن جاتے ہیں۔مگر کیا ایسا شخص جو منزل تک پہنچنے کے لیے ایسے ایسے یوٹرن کو قبول کرنے والی ذہنیت رکھتا ہو، منزل تک پہنچ بھی سکتا ہے یا پھر یوٹرن پر یوٹرن لے کر راستوں کی گھمن گھیریوں اور پیچ داریوں میں اُلجھ جاتا ہے۔ چرچل نے اپنی کتاب ’’عظیم ہم عصر‘‘(Great Contemporaries)میں لکھا ہے کہ
’’جگمگاتے ہوئے لمحات میں ہی کوئی تیز ترین انسان دھندلا دیا جاتا ہے‘‘۔
عمران خان نے اپنے انجام کا آغاز خود کردیا ۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اُن کے یوٹرن اُنہیں کہاں پہنچاتے ہیں۔