وجود

... loading ...

وجود

صحافت اور احتساب

هفته 17 نومبر 2018 صحافت اور احتساب

میرے ایک صحافی دوست دوماہ قبل بے روزگار ہو ئے تو انہوں نے ’’ ویج بورڈ ‘‘ کے حصول کے لیے متعلقہ ادارے سے رجوع کیا ۔
ویج بورڈ کے معاملے پر قلمکاروں اور مالکان کے درمیان تصفیہ کروانے ، معاملات طے کرنے یا انصاف کی فراہمی کے لیے قائم کیے گئے ادارے نے ’’اسٹے آرڈر‘‘ جاری کردیا ۔ اخبار کی مینجمنٹ نے ماننے سے انکار کر دیا ۔ اور ساتھ ہی مدعی صحافی کے اخبار کی عمارت تک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی ۔ مدعی کو تاریخ پر تاریخ والا معاملہ درپیش ہے ۔۔۔۔۔۔۔
میں نے دوست سے دریافت کیا کہ آپ اور دوسرے ملازمین کو کیوں برخواست کیا گیا تھا ۔۔ اُس کا جواب تھا کہ اب حالات بدل رہے ہیں ۔۔ امریکا افغانستان سے معاملے کی بساط تقریباً لپیٹ چُکا ہے۔ اب گرانٹیں بند ہو رہی ہیں ۔۔ میں اُس سادہ لوح کی جانب سے بھری بزم میں راز کی بات کہنے پر چونکا ۔۔ اور دریافت کر بیٹھا کہ آپ کے ادارے کو ماہانہ کتنی گرانٹ ملتی تھی ۔۔ اُس نے اپنے ادارے کے ایک چینل اور اخبارات کا نام لے کر بتایا سب کے لیے ساڑھے سات کروڑ ماہانہ ۔۔۔ میں حیران ہونے کی منزل پر پہنچنے والا ہی تھا کہ یہ سُن کر پریشان بھی ہو گیا کہ اخبار کی سرکولیشن تو اب پانچ ہزار تک پہنچنے والی تھی ۔۔۔۔معاملہ میری حیرانی اور پریشانی پر ہی ٹل جاتا لیکن مجھے لاہور کا ایک ریجنل اخبار یاد آگیا جسے پانچ سالوں سے 43 سے 44 کروڑ کے ہندسوں کے درمیان کی رقم کے سرکاری اشتہارات دیے گئے تھے ۔۔ مزے کی بات ہے کہ یہ سارا معاملہ ’’ نیب ‘‘ کے علم میں بھی ہے۔۔۔۔۔۔
آج کل بڑے میڈیا ہاؤسسز سے لے کر چھوٹے اخبارات اور چینلز میں ملازمین پر خزاں رُت آئی ہوئی ہے ۔۔ اس وقت جبکہ کالم سُپردِ قلم کیا جا رہا ہے اطلاعات ملی ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان آج دوپہر نامور کالم نگاروں سے ملاقات کر رہے ہیں ۔ کالم کی اشاعت کے ساتھ ہی اس ملاقات کی تفصیلات بھی قارئین تک پہنچ جائیں گی ۔ دو دن قبل وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی ہوا تھاجس میں وفاقی وزیر اطلاعات سمیت پنجاب، سرحد اور بلوچستان کے اربابِِ وزارت اطلاعات و نشریات شریک تھے ۔ اس بیٹھک میں فیصلہ کیا گیا کہ میڈیا انڈسٹری کو بحران سے نکالنے کے لیے اشتہارات کے بقایا جات کی ادائیگی کا آغاز کیا جائے ۔۔ یہ بقایا جات سابقہ حکومتوں کے ادوار سے چلے آ رہے ہیں ۔۔ کیا ان ادائیگیوں سے اخبارات میں کام کرنے والوں کا بھی کُچھ بھلا ہوگا ۔۔ کیا ہزاروں نہیں توسینکڑوں بے روزگار ہونے سے بچ جائیں گے ۔۔۔ ایسے میں انگریزی کے مایہ ناز شاعر کمیونٹری پیٹمورComvanty Patmore کا ایک واقعہ یاد آگیا ۔۔
’’ شاعر اپنے کم سن بچے سے ناراض ہوگیا اور اُسے تھپڑ رسید کر دیے ۔۔ بچہ پھولوں اور سکوں سے کھیل کھیل کر آخر کار سو گیا ۔ جب شاعر اُس کے کمرے میں داخل ہواتو اُس نے بچے کے رُخسار وں پر تازہ جگمگاتے ہوئے آنسو دیکھے۔۔ اس بچے کی آہوں اور آنسوؤں کو شاعر برداشت نہ کر سکا ۔۔ وہ بچہ جس کی ماں بھی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئی تھی ۔۔۔ شاعر اتنا رویا کہ اس کے آنسو بچے کے رُخساروں پر تیرنے لگے۔۔۔ پیٹمور Patmore کہتا ہے کہ جب ہمیں لحد میں ا‘تارا جائے گا اور ہم ابدی نیند سو رہے ہوں گے تو خالق حقیقی اپنی بے پایاں شفقت کی بدولت اپنی مخلوق کو ضرور معاف کر دے گا۔ جو ساری عمر پھولوں اور سکوں سے کھیلتے رہے۔۔۔ اسی قسم کی درد کی کسک اور اُمید کی کرن اُسی وقت پنہاں ہوگی جب حکومت اشتہارات کے بقایا جات کی ادائیگی کو ’’ ویج بورڈ ‘‘ دینے سے مشروط کر دے ۔۔۔۔ ورنہ ویج بورڈ کو ترسنے والے کارکنوں کو آسودگی اُسی وقت میسر آئے گی جب وہ زندگی کی مشقتوں سے آزا د ہوں گے اور عالمین کے رب کی جانب سے رحمت ، شفقت اور معافی کے سزاوار ٹھہریں گے ۔۔
نئی حکومت کے آنے کے بعد ابھی سو دن بھی نہیں گزرے کہ ہماری صحافت کے تیور بدل گئے ۔ ٹاک شوز کے اینکرز آج سے ایک سال پہلے والی پوزیشن اور اسکرپٹ پر آ گئے ۔ بس پہلے ان کا مخاطب نواز شریف یا ن لیگ کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔۔ اب عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جسے تبدیلی سرکار کے نام سے پُکارا جا رہا ہے۔۔ جو عمران خان سے وضعداری کا اظہار کر رہے ہیں وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار یا کسی دوسرے ارباب حکومت کو نشانا بنا کر طعنہ زنی میں مصروف ہیں ۔۔۔
معاملہ وہی ہے جس کے سیاق و سباق بالا سطور میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ بتا یا جا رہا ہے وقت کے ساتھ ساتھ معاملات میں بہتری کی اُمید ہے۔کاغذ کی مارکیٹ میں کھڑا کیا گیا مہنگائی کا طوفان جلد تھمے گا ۔ آسودگی آنے پر صحافتی کارکنوں کی ادارہ بدری اور بے روزگاری کا سلسلہ بھی تھم سا جائے گا۔ لیکن اس شعبے کے سنجیدہ طبقات ایسی اصلاحات کے متمنی ہیں جن سے میڈیا انڈسٹری کے آجر اور اجیر کے درمیان معاملات میں بہتری آئے ۔۔اس صائب خواہش کی تعمیل اُس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک ویج بورڈ کا درست طریقے سے نفاذ نہ ہو ۔۔حکومت اور دیگر ذمہ دار ریاستی اداروں کو اس شعبے کو ملنے والی سبسڈی اور خفیہ گرانٹوں کا احتساب بھی کرنا ہوگا ۔۔ دنیا جانتی ہے نائن الیون کے واقعات کے بعد سے وفاقی دا رلحکومت، صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں اخبارات و جرائد سے وابستہ لوگوں پر ’’ ڈالر ‘‘ خاصا مہربان رہا ہے۔ صوبے میں نام نہاد قوم پرستی کی آڑ میں حکایت خونچکاں لکھنے والے صحافیوں کا استحصال بھی کیا گیا ۔۔
نئے پاکستان کی جدوجہد سے جن لوگوں نے آس اور اُمید باندھی تھی اُن میں اخباری صنعت اور الیکٹرونک میڈیا سے وابستہ وہ بے زبان کارکن بھی شامل ہیں جن کی صدائیں نہ تو کسی منہ پھٹ اینکر کا اظہاریہ بنتی ہیں اور نہ ہی ان کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والی تنظیمیں دلجمعی سے ان کے لیے کوئی لڑائی لڑتی دکھائی دیتی ہیں ۔ یہ تمام ادارے صلاحتیوں کے قبرستان اور اشنان گھاٹ بن چُکے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں میڈیا سے وابستہ لوگ بہت زیادہ تحفظات کا شکار نظر آتے ہیں ۔۔ ہمیں تو ان میں ہمیشہ وطن اور اہل وطن پر نثار ہونے والا ایک ایسا شخص نظر آیا ہے جیسا کسی کالر کا پھول دکھائی دیتا ہے۔ رہا اس گلاب کے ساتھ چسپاں کانٹوں کا سو اُن کا شُمار وہ کریں جو عمران خان کو گوارا نہ کرنے والے شُمار ہوتے ہیں۔۔ وہ جہاں بھی ملا ہے جب بھی دکھائی دیا ہے زندگی سے مسکراتی آنکھوں اور کھلکھلاتے ہونٹوں سے نباہ کرنے والا شخص ہی دکھائی دیا ہے ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ کوئی عام سی بات نہیں ۔۔۔ اور ایسی سرشت رکھنے والے عام نہیں قدرت کے انعام یافتہ لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔۔ معاملہ دیکھنے والے کی آنکھ اور سوچنے والے کی فہم کا بھی ہوتا ہے۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر