... loading ...
گوادر کے گہرے پانی کی بندرگاہ کی شہرت و چرچا دنیا بھر میں ہے ۔ یہ بندرگاہ تاحال پوری طرح فعال نہیں۔ آمرپرویز مشرف کے دوراقتدار میں کوسٹل ہائی وے کی تعمیر مکمل ہوئی۔ یہ منصوبہ ان سے قبل میاں نواز شریف کی حکومت کے پیش نظر تھا۔ چنانچہ پرویز مشرف کے دور میں چند دیگر شاہراہوں پر( جو گوادر کو ملک کے دوسرے علاقوں سے منسلک کرتی ہے) پیشرفت ہوئی۔ کوسٹل ہائی وے کی تکمیل بلاشبہ ایک بڑا اقدام تھا۔ گوادر پورٹ کی تعمیر، انتظام و انصرام پورٹ آف سنگا پور کو ایک معاہدے کے تحت چالیس سال کے لیے دیا گیا۔ سست روی اور صوبے کے مفاد کی خاطر نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے پورٹ آف سنگاپور سے معاہدہ کی تنسیخ کردی ۔الغرض چین سیندک کے سونے اور کاپر منصوبے پر پہلے ہی کام کررہا تھا۔ ہوا یہ کہ حکومت پاکستان نے گوادر کے حوالے سے چین سے مر بوط معاہدہ کرلیا۔ چنانچہ چینی شراکت سے کافی حد تک کام آگے بڑھایا گیا۔
چین پاکستان اکنامک کاریڈور کے تحت طویل مدتی منصوبوں اور شراکت داریوں پر باہمی معاہدے ہوئے ۔ گویا یہ چھوٹا وپسماندہ شہر یا یوں کہیے کہ مچھیروں کی یہ بستی، سی پیک اور اپنے گہرے پانیوں کی بندرگاہ کے باعث دنیا بھر کیلئے اجنبی نہ ر ہی ۔ پچھلے دنوں یعنی29 سے 31اکتوبر کو گوادر میں زبردست ہلچل رہی ۔ جہاں ایشیائی پارلیمنٹرین اسمبلی کی کمیٹی برائے سیاسی امور اور ایشیائی پارلیمان کے قیام کے حوالے سے خصوصی کمیٹی کا تین روزہ اجلاس ہوا۔ اس اہم اجلاس کی خاطر بڑے پیمانے پر انتظامات کیے گئے تھے۔ 28اکتوبر کو بین الاقوامی مندوبین گوادر پہنچنے لگے۔ شہر گوادر کو استقبالی جھنڈیوں اور خوش آمدیدی کلمات سے آراستہ و مزین کیاگیا تھا۔ ان مہمانوں کے لیے جگہ جگہ اور خوبصورت روایتی و ثقافتی پروگرام کا بندوبست کیا گیا تھا۔ بین الپارلیمانی یونین کے سیکریٹری جنرل’’ مارٹن چو گانگ‘‘ اور ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے سیکریٹری جنرل محمد رضا ماجدی ،بین الا قوامی پارلیمانی یونین اور ایشیائی پارلیمانی سیکریٹریٹ کے نمائندوں سمیت26ممالک کے 100سے زائد مندوبین گوادر کی اس کانفرنس میں شریک ہوئے۔ یہ امر یقیناًاطمینان بخش ہے کہ مختلف ممالک جیسے ترکی، شام، قطر، بحرین، انڈونیشیا،چین، اردن اور دوسرے ملکوں کے نمائندوں کی شرکت یقینی بنائی گئی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی ، اراکین سینیٹ ، گورنر بلوچستان امان اللہ خان یاسین زئی اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی مہمانوں کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ گویا یہ اہم نشست تھی جو گوادر کی نئی اور بدلتی صورتحال میں رکھی گئی۔ حکومت پاکستان کی طرف سے ایشیائی ممالک کے مابین ویزے کی پابندیوں کے ختم ہونے کی صائب تجویز پرتوجہ دلائی گئی۔ اب یہ پاکستان اور بلوچستان کی حکومتوں پر منحصر ہے کہ وہ اپنی اس بندرگاہ کو ملک اور صوبے کی معیشت اور اقتصاد کی ترقی کیلئے استعمال کرتی ہے اور یہاں حالات ایسے سازگار بنائے جاتے ہیں کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار کسی ہچکچاہٹ و تحفظات کے بغیر بلوچستان کا رخ کریں۔
گوادر میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے وسیع مواقع پائے جاتے ہیں۔ چناں چہ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی اور بین الپارلیمانی یونین کے مابین تعاون کو مزید فروغ دینے میں دلچسپی لینے کی ضرورت ہے، تاکہ ایشیائی پارلیمانی اسمبلی کے مقاصد کو یکسوئی سے آگے بڑھایا جا سکے۔ کثیر القومی پارلیمان کی میزبانی پاکستان کیلئے اعزاز کی بات ہے۔ ضروری ہے کہ سیاسی استحکام پر ہمہ پہلو توجہ دی جائے تاکہ گوادر یا بلوچستان کے حوالے سے کسی طرح کا تذبذب نہ رہے۔ اس امر میں دو رائے نہیں کہ گوادر ملک کی معیشت کے شاندار و پائیدار مستقبل کا مرکز ہے۔ یہ بندرگاہ مشرق وسطیٰ اور یورپ تک تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ گوادر کو جنگی بنیادوں پر کشادہ سڑکوں کے ساتھ منسلک کرنے کی ضرورت ہے ۔ صوبے کے جن علاقوں میں اقتصادی زونز بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، پر جلد سے جلد کام اور اس کی تکمیل یقینی بنائی جائے۔ گوادر کو سڑکوں کے ساتھ ریل کے ذریعے بھی ملک کے دوسرے حصوں سے جوڑا جائے۔ افغانستان اور ایران کی سرحد تک ریلوے لائنیں بچھائی جائیں ۔اور بلا تاخیر صوبے میں فنی ادارے قائم کیے جائیں۔گویا صوبے کے اندر سی پیک کے ثمرات بر سر زمین دکھائی دینے چاہئیں۔ یہاں روزگار ، صحت، تعلیم، پینے کے صاف پانی اور دوسری بنیادی معاشرتی ضروریات بہم پہنچائی جائیں گی، تو ہمہ پہلو مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ صوبے اور یہاں کے عوام کا مفاد نظر انداز ہو گا، اس سے لا محالہ مشکلات پیدا ہوں گی ۔صوبے اور مرکز کے درمیان اعتماد کی فضاء اس بڑے تجارتی ، اقتصادی اور معاشی منصوبوں پر اثرانداز ہوگی۔ یقیناًبین الاقوامی حالات کے تناظر میں ایشیائی مملکتی ہم آہنگی اور اقتصادی یکجہتی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اچھا ہو تا کہ اگر اجلاس میں بلوچستان اسمبلی کے اراکین کی شرکت بھی ہوتی،جس کا اسمبلی کے فلو رپر حزب اختلاف کی جانب سے شکوہ بھی ہوا۔