... loading ...
خوارزم شاہی سلطنت ایشیاء کی سب سے بڑی مملکت تھی ۔جس کی فرمانروائی سلطان محمد خوارزم شاہ کے پاس تھی ۔ سلطان محمد خوارزم شاہ جلال الدین خوارزم کے والد تھے ۔ اُدھر انسانی تاریخ کے سفاک کردار، تہذیب انسانی سے نا بلدچنگیز خان منگول ،چین ، تمخاج، ترکستان کی بالائی منطقوں تک رسائی کے بعد آگے کی جانب بڑھنے کی تدبیر و سوچ بچار میں لگا تھا۔ سلطان محمد خوارزم کی سلطنت و فرماں روائی قرب و جوار کی حکومتیں متاثر و مرعوب تھیں۔ اس کشش کا اسیر چنگیز خان بھی تھا۔ شان و عروج کے ان ایام میں سلطان محمد خوارزم شاہ نے ایک حکومتی وفد جس میں ایک بزرگ ،عامل ، سید بہاء الدین رازی بھی شامل تھے ، چنگیز خان کے پاس بھیجا۔ چنگیز خان سلطان محمد خوارزم شاہ کی جانب سے اس خیرسگالی پر نہایت ہی مسرور ہوا۔اپنے درباریوں کو حاضر ہونے کا کہا ، وہ اکٹھے ہوئے تو انہیں مخاطب کیا کہ دیکھو میری بادشاہی و بزرگی اس اونچے پیمانے پر پہنچ گئی ہے کہ اُس ملک کے بادشاہ نے میرے پاس سفیر بھیجے ہیں کہ جہاں سورج ڈوبتا ہے ۔ چنگیز خان نے بھی دونوں مملکتوں کے درمیان دوستی اور تجارتی تعلقات کے استحکام کا پیغام بھیجا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ چنگیز خان نے پہل کرتے ہوئے پانچ سو اُونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ خوارزم روانہ کر دیا ۔ سونا ،چاندی،ریشم اور دیگر قسم قسم کی نفیس و قیمتی چیزیں اُونٹوں پر لدی ہوئی تھیں۔تجارتی قافلے میں سفیر و تاجر بھی شامل تھے ۔ قافلہ سلطان اور خوارزم کی سلطنت میں داخل ہوا۔ ’’اترا‘‘کہ ایک حاکم قدر خان جس کا نام مورخین غاکر خان بھی بتاتے ہیں ۔ مال و دولت دیکھ کر اس کے دل میں حرص پیدا ہوئی اور قافلہ آگے بڑھنے نہ دیا۔ سلطان خوارزم کو اطلاع بھیجی کہ دراصل تجارتی قافلے کے ذریعے چنگیز خان اپنے جاسوس بھیج چکا ہے اور یہ لوگ مستوجب ہلاکت ہیں ۔سلطان محمد خوارز م اس حریص کی باتوں میں آکر یوں گمراہ ہوگئے کہ بلا مزیدتحقیق کے قدر خان کوکارروائی کرنے کی اجازت دے دی۔جس نے بلا تامل ان سفیروں اور تاجروں کو قتل کر دیا۔ صرف ایک ’’ساربان‘‘ زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوا۔ جس نے پہنچ کر چنگیز خان کو اس خونریزی کی داستان سنا دی۔ چنگیز خان نے انتقامی اقدام سے قبل قدر خان کی حوالگی کا مطالبہ بھیجا۔چوں کہ قدر خان کا خاندان حکومت اور فوج میں اعلیٰ عہدوں پر موجود تھے ۔ چنانچہ شاہ نے ان کی خفگی کے پیش نظر قدر خان کے حوالگی سے انکار کر دیا۔ اب چنگیز خان اپنی وحشی تاتاری افواج کے ساتھ سلطان خوارزم شاہ اور اس کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ جہاں پہنچتا وہاں زمین کو ذات آدم سے پاک کرتا۔ سمر قند، بخارا اور دوسرے منطقوں میں کشت و خون، لوٹ مار اور اسے تاراج کرتا ہو ا مسلسل آگے بڑھتا گیا۔ خوارزم شاہی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سلطان محمد خوارزم کی افواج تاتاری لشکر کے سامنے بے بس ہو گئی ۔ سلطان پر تاتاریوں کو ایسا خوف طاری ہوا کہ قر یہ قریہ چھپتا پھرتا رہا۔ اور اسی عالم میں وفات پا گیا۔ سلطان کے فرزند جلا ل الدین خوارزم شاہ نے بہر حال تاتاریوں کا مقابلہ کیا۔ چنگیز خان نے اس کی جرأت اور بہادری کی تعریف بھی کی۔مگر شہزادہ جلال الدین بھی چنگیزی آفت کے سامنے زہادہ ٹہر نہ سکا۔ شاہی خاندان کی خواتین تک چنگیز خان کی قیدی بن گئی تھیں۔ تاتاریوں نے بخارا میں بے شمار لوگوں کو قتل کیا ۔ علماء ،فضلاء و فقہا مارے گئے ۔ علمی ذخیرے تباہ کر دیے ۔ ایک روایت ہے کہ فتنہ تاتار کی وجہ سے امام رکن الدین امام زادہ کا وقت آخر آیا تو انہوں نے یہ رباعی کہی ،
گفتم کہ دلم ؟گفت کہ خوں کردہ ماست
گفتم جانم؟گفت کہ در پردہ ماست
(میں نے کہا کہ میرا دل؟ محبوب نے کہا وہ ہمارا خون کیا ہوا ۔میں نے کہا ،میری جانِ ؟محبوب نے فر مایا ،وہ ہمارے پردے میں ہے )
گفتم کہ سگ کومے تو درماافتاد
گفتا مزن این دم کہ فرا کردہ ماست
( میں نے کہا کہ آپ کے کوچے کا کتا ہم پر حملہ آور ہوا ہے ۔محبوب نے کہا کہ دم نہ مار یعنی کوئی بات نہ کہہ کیونکہ سب کچھ ہمارا کیا ہوا ہے )
گویا ایک شخص کی ہوس زر و دولت کی وجہ سے مدتوں تاتاری عذاب و فتنہ بلاد مسلم پر مسلط رہا۔ یہاں تک کہ چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی سلطنت کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ امیر المومنین مستعصم باللہ اذیت وبے عزتی کی موت مارے گئے ۔ غدار وزیر اعظم احمد العلقمی جوباوجود ہلاکو خان کا مخبر و معاون ہونے کے قتل کر دیے گئے۔ بغداد میں علم و ہنر کا ہر گہوارہ تہس نہس کر دیا گیا۔ تاتاری ترکستان و خراسان، ایران ، عراق عجم ، عراق عرب ، شام بلکہ مصر کی سرحدوں تک پہنچ گئے ۔ نہ صرف خوارزم شاہی سلطنت برباد ہوئی بلکہ مسلمانوں کے چھ سو سالوں سے علم ،دولت اور ہنر مندی کے جمع کیے گئے تمام ذخیرے برباد ہو گئے۔تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس مدت میں محض انسانی جانوں کا اتلاف 80لاکھ ہوا۔ ایک حکومتی عہدیدار کی ذات کی نفع و طمع اس تباہی اور برباد ی کا موجب بنا۔تاریخ کی یہ حقیقی و المناک داستان حکومتوں اور حکمرانوں کے لیے سبق آموز ہے کہ کس طرح وزیر مشیر اور مصا حبین بعض اوقات بڑی تباہی کو دعوت دیتے ہیں ۔تاریخ کے یہ کربناک وروح فرسااوراق پڑھتے ہوئے سوچا کہ ہر دور کے حکمرانوں کو تاریخ کے اس سبق کو سامنے رکھنا چاہیے ۔کیوں نہ وہ آج کی عمران کی حکومت و اقتدار ہوکہ کہیں ان کی بیس سال کی جدوجہد کا ثمر ان کے بعض وزیر ، مشیر اور دوسرے مصاحبین کے گفتار ، کرتوت و اعمال کی وجہ سے ضائع نہ ہوں۔ لہذاوزیر اعظم حکمرانی میں ایسا مُستغرق نہ ہوکہ اپنے ارد گرد کی خیر خبر تک نہ ہو ۔ہوش و خرد کا دامن تھام لیں اور افہام و تفہیم کے ساتھ حکومت کریں۔اپنے مصاحبین کو شُتربے مہارکی طرح نہ چھوڑیں۔یعنی خوشہ چینوں کو مسائل اور بگاڑ پیدا کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے ۔ان کی تو یہی فطرت ہے کہ آج یہاں ہیں تو کل کہیں اور خوشے چُننے لگیں گے!!!۔