... loading ...
یہ ایک نئے عہد کی کتاب ہے، جس کا ابھی دیباچہ بھی نہیں لکھا جاسکا۔ مگر لوگ اتنے اُتاؤلے ہو گئے کہ ابھی سے اس کا تتمہ پڑھنے کو بے تاب ہیں۔
پاکستانی سیاست کا بارہواں کھلاڑی اب پہلا بلے باز بن چکا ہے، یہاں تک کہ قومی سیاست کا کپتان بھی۔ دوسری طرف پہلے بلے بازی کرنے والے دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین بارہویں کھلاڑی بننے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ پاکستانی کرکٹ کی طرح سیاست میں بھی ’’پاؤر پلیئر‘‘ اصل قوت رکھتے ہیں۔ کھیل کی بساط اور کھلاڑیوں کی صف بندی سے واضح ہے کہ مایوسی آخری بار’’ ہلہ بول ‘‘پر اُکسا رہی ہے۔ ابھی مولانا فضل الرحمان کی’’ نیٹ پریکٹس‘‘ کا بھی ذکر باقی ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کیا خوب تبصرہ فرمایا:آصف زرداری جانتے ہیں احتساب کے ادارے حکومت کے ماتحت نہیں‘‘۔وہی ’’پاؤر پلیئر‘‘ والا نکتہ!مگر شاہ محمود قریشی کے الفاظ کی بیچارگی پر قائم علی شاہ یاد آتے ہیں۔ اُن کی وزرارتِ اعلیٰ میں سب سے کم حکومت خود اُن کی اپنی تھی۔ اُن کا وجود تقریباتی ضرورتوں کو پورا کرتا اور سندھ میں کوس لِمن الملک آصف زرداری کے’’ منہ بولے بھائی ‘‘اویس ٹپی اور سگی بہنا ڈاکٹرفریال ٹالپوربجایا کرتیں۔ اویس ٹپی پر اُفتاد پڑی تو جناب زرداری نے ایک ایک کرکے ساری چیزیں چھین لیں۔ منہ بولے بھائی سے جو آخری چیز واپس لی گئی وہ اُن کے ہاتھ کی گھڑی تھی۔بے رحم وقت کا فیصلہ صادر ہوا تو شاید دھیان میںیہ ہو کہ جس نے لوگوں کے اچھے وقت کو اپنی مستعار طاقت سے چھینا ہو، اُس کا وقت بُرا چل رہا ہو تو اُسے قیمتی گھڑی سے وقت دیکھنے کا بھی حق نہیں۔ اس دور میں جب کبھی کوئی بحران اُٹھا تو قائم علی شاہ مسکراتے ہوئے کہتے ، میرا کیا قصور ہے؟ شاہ محمود قریشی کے الفاظ میں قائم علی شاہ کی بیچارگی بولتی نظر آئی۔
وزیر خارجہ کے معصومانہ الفاظ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کے تیور سے جنمے ہیں۔ جناب زرداری نے گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں حزب اختلاف کی کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کا ہی عندیہ نہیں دیا بلکہ اُنہوں نے شکوہ سنجی کے ساتھ اسیری ورہائی کے بیچ جھولتے نوازشریف سے ملاقات کا بھی اشارہ دیاہے۔ مگر دونوں کی اپنی اپنی لاچاریاں اور مجبوریاں ہیں۔ حزب اختلاف کی یہ جماعتیں کسی آدرش پر نہیں بلکہ اپنے اپنے بقا کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔ چاہے اس کے لیے وہ الفاظ کوئی بھی چن لیں۔ زر خرید صحافت کے بے رتبہ قلم اور بے آبرو زبانیں اپنے ہنر سے اِسے کوئی بھی رنگ دینے کی کوشش کریں۔مگر یہ سیاسی رہنما دراصل اپنے اپنے بچاؤ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح چلنا چاہتے ہیں کہ وہ ’’پاؤر پلیئرز ‘‘ سے اپنا دامن بچانے میں کامیاب ہوجائیں اور دوسرا اُن کے پاؤں کی زنجیر نہ بن سکے۔ نوازشریف کے لیے یہ صورتِ حال قابلِ قبول نہیں۔ وہ ساتھ اُبھرنے یا ساتھ ڈوبنے کی سانٹھ گانٹھ چاہتے ہیں۔زرداری سمجھتے ہیں کہ نوازشریف شاید نہ اُبھر سکیں، مگر وہ اب بھی خود کو بچانے میں کامیابی کی اُمید رکھتے ہیں ۔ ایک کے بعد ایک بحران اُن کے خلاف اقدام کو ٹالنے کا باعث بن سکتا ہے ۔ اس دوران میں کہیں وہی خاموش ’’این آر او‘‘ ہوسکتا ہے جس کی وہ باربار تردید کرتے ہیں۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ عام انتخابات سے پہلے آصف علی زرداری نے ’’پاؤر پلیئرز‘‘ کو پیشکش کی تھی کہ اُنہیں سیاسی گنجائش دی جائے تو اُن پر بدعنوانی کے نام پر جو بھی ہندسہ ترتیب پاتا ہے وہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ طاقت کی زبان تو ہوتی ہے کان نہیں۔ پیشکش سنی ہی نہیں گئی۔ اس سے لگتا ہے کہ ’’پاؤر پلیئرز‘‘اس بازی کو احتساب کی گیند اور انصاف کی پچ پر ہی کھیلنا چاہتے ہیں۔ اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طے صرف یہ نہیں کیا گیا کہ بدعنوانوں سے پیسے واپس لینے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر اُن سے سیاسی زمین بھی چھین لینے کا ارادہ باندھا گیا ہے۔ اگر یہ نتیجہ درست ہے تو آصف زرداری کا یہ نتیجہ بھی درست ہے کہ اُن کی گرفتاری کوئی خبر نہیں ہوگی۔ مگر اس میں ایک ’’نئی خبر‘‘ ضرور نکلے گی کہ پہلی مرتبہ یہ گرفتاری آصف زرداری کے لیے خطرناک خبر لائے گی اور وہ عدالتوں اور احتساب کے اداروں کو اپنی ڈھب پر نہ لاسکیں گے جس کے بعد اُنہیں یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ اُن کے خلاف کسی عدالت سے کچھ ثابت نہیں ہوسکا۔ یہ ایک ضمنی پہلو ہے کہ پاکستان میں نظام انصاف اکثر مجرموں اور بدعنوانوں کا مددگار رہتا ہے۔ یہ اس طرح بروئے کار آتا ہے کہ مجرم اور بدعنوان مظلوم اورپوتر لگنے لگتے ہیں۔ ایک تیز رفتار اور حقیقی نظام انصاف ہی نئے پاکستان کا چہرہ بن سکتا ہے۔
قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے
اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو
کیا پاکستان میں عدلیہ اپنا قبلہ بدل رہی ہے ؟ اسی دھڑکے کے شکار وہ سیاسی رہنما ہیں جو اس سے قبل انصاف کے ایوانوں میں راہ ورسم رکھتے رکھتے اسی انصا ف سے کھلواڑ کرتے آئے ہیں۔ پہلی مرتبہ ان سیاسی رہنماؤں کو رات کی وہ تاریکیاں میسر نہیں آرہی جس میں وہ ایک تال میل سے انصاف کے ہاتھوں پر تالی مار کر نکل جاتے تھے۔ زرداری اور نوازشریف کے چہروں پر یہ بے بسی پڑھی جاسکتی ہے۔ عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈے اور سوشل میڈیا کا بہاؤ بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ کھیل خراب ہوگیا۔ اس ماحول میں جس نوع کے دلائل سامنے آرہے ہیں وہ عجیب وغریب ہیں۔ جمہوریت میں جمہوریت نہیں رہی، عدلیہ میں انصاف نہیں رہا، اور احتساب ، انتقام کی ایک چکی بن گیا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کے رہنما یہ کہتے ہیں کہ سندھ میں کوئی کارروائی نہیں ہورہی۔ سندھ کے رہنما یہ کہتے ہیں احتساب کا رخ صرف ہماری جانب کیوں ہے؟ مگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نو ن ایک دوسرے کے خلاف اس انگشت نمائی کے باوجود مولانا فضل الرحمان کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہونے کو بھی تیار ہیں۔اور موقع ملے تو نوازشریف اور زرداری ساتھ بیٹھنے کو بھی آمادہ ہیں۔ یہ کس نوع کی سیاست ہے؟احتساب دوسرے کے خلاف کیوں نہیں۔ سیاست ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں؟اس کھینچا تانی میں دونوں جماعتوں کا ہدف تحریک انصاف کی حکومت ہے ، مگر نہیں۔ دونوں جماعتیں ابھی اُس قوت کانام لینے کو تیار نہیں جسے سیاسی کھیل میں بھی ’’پاؤر پلیئر‘‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ دیہاتی دوشیزہ کی طرح پلو پکڑ کر اس قوت کو ’’اِن اُن وہ ‘‘ کہہ کر اشارتاً بات کرتی ہیں۔ زرداری نے ایک مرتبہ ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کا دعویٰ کیا تھا۔ تب سے اب تک وہ اس بیان کے کنکر چبارہے ہیں۔ اب پھر اُنہوں نے میڈیا میں اپنی چھب دکھلائی ہے۔ سنیچر کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُن کے مخاطب وہی تھے جن کانام لیتے ہوئے یہ سب کتراتے ہیں۔زرداری کے الفاظ میں دیہاتی دوشیز ہ کی جھجھک ملاحظہ کریں:ہم بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنے آپ، شاید آپ سے زیادہ محب وطن ہیں۔‘‘ یہ ’’آپ‘‘ کون ہے؟بات کہاں ختم ہوئی۔ آگے فرمایا: قانون سازی ہمارا کام ہے اس لیے تمام امور ہمیں نمٹانے دیں اور ہم یہ پارلیمنٹ میں لڑ جھگڑ کر کرلیں گے‘‘ جی ہاں یہ جن سے کہا جارہا ہے وہ پارلیمانی قوت نہیں۔ ذرا ٹہر کر وزیر خارجہ کو تسلی نہ دے دیں کہ آپ بھی خوامخواہ دل پر لے گئے، آل پارٹیز کانفرنس کا ہدف آپ نہیں مگر جن کے خلاف ہے اُن کا نام نہیں لیا جاسکتا ۔کیا حزب اختلاف کی ایسی صف بندی اُنہیں کوئی کامیابی دلا سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہ دراصل ایک دوسرے سے طاقت لے کر اپنا اُلو سیدھا کرنے کی ایک مشق ہے۔ اس دوران میں مولانا فضل الرحمان کو متحرک رہنے اور اپنا آپ دکھانے کا موقع ملتا رہے گا ،ا ور بس!!!