... loading ...
وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد صحافت کے’’ سیونگلیوں‘‘ نے اپنا کھیل شروع کردیا ہے۔ سیونگلی بھی کیا زبردست کردار ہے۔ ذرا جان لیجیے!انیسویں صدی کے کارٹونسٹ اور ناول نگار جارج ڈو موریئر اپنے زبردست ناول ٹرلبائی (Trilby) کے حوالے سے بہت مقبول ہوا۔ سیونگلی اُسی ناول کا ایک افسانوی کردا رہے جو ہپناٹزم کا ماہر تھا اور’’ بدنیتی ‘‘سے دوسروں کو اپنی مرضی کا تابع بناتا تھا۔ پاکستانی صحافت میں بھی کچھ ’’خوامخواہ‘‘ کے سیونگلی پیدا ہوگئے ہیں جو دوسروں کی مرضی کو اپنا تابع مہمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اُن میں ہپناٹزم ایسا کوئی ہنر بھی نہیں۔ اُن کا واحد ہنر ہے تو بس یہ کہ
کوئی مشتری ہو تو آواز دے
میں کم بخت جنسِ ہنر بیچتا ہوں
عامل معمول کو چھوڑیے! آدمی کی اپنی ذات تضادات کے گرداب میں ہو تو وہ کسی کو قائل بھی کیسے کرسکتا ہے؟ نیب میڈاس کے انعام اکبر کے حسابات کی جانچ پڑتال کررہی تھی تو ’’یہ عناصر‘‘مختلف اخباری اداروں کو قائل کررہے تھے کہ وہ اُن حسابات کو درست قرار دے دیں جو انعام اکبر نے نیب کو دیے ہیں اور جو لین دین کے حوالے سے درست نہیں۔ ان میں سے ایک تنخواہ دار سیونگلی ’’ صاحب ‘‘ تو وہ بھی ہے جن کی بات خود اُن کے ادارے نے بھی نہیں مانی۔ موصوف مختلف اشتہاراتی ایجنسیوں کے مالکان کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں اور اپنے ادارے کا’’ نفس ناطقہ‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ ناشران کے نظم پر یہ نِفاختے ناچتے پھرتے ہیں۔ ہر روز نئی پھلجڑیاں چھوڑتے ہیں۔ اور اپنا اُلّو سیدھا کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک اشتہاری ایجنسی کے مالک انعام اکبر کے لیے یہ اتنا درد کیوں محسوس کررہے ہیں؟ اگر اے پی این ایس کے ذریعے انعام اکبر کو تحفظ فراہم کرنے کی اس مذموم روش کے پیچھے حقائق ٹٹولے جائیں تو نیب کے ریفرنس ان میں سے کچھ اخباری مالکان کے حاشیہ برداروں اور کچھ کے بیٹوں پر بھی بنیں گے۔محکمہ اطلاعات سندھ کے ساتھ انعام اکبر کی ساز باز کوئی معمولی درجے کی نہیں۔ انعام اکبر کی میڈاس کا تقرر پیپرا قواعد کے مطابق نہیں ہوا تھا۔ یہ ایجنسی سندھ حکومت کو زیادہ رقوم کے دعوے بھیجتی رہی اور اخباری اداروں کو کم ادائی پر راضی کرتی رہی اور وہ کم رقم بھی ادا نہیں ہوئی۔ دوسری طرف سندھ حکومت کی اطلاعات کا ہما’’ شہد‘‘ کے شوقین شرجیل انعام میمن کے سر پر تھا۔ جو اپنے ’’انعام‘‘ کو دیکھتے تھے ۔ اُنہیں جس طرح اسپتال کے کمرے میں پڑی ’’بوتلیں‘‘ نظر نہیں آئیں ٹھیک اسی طرح میڈاس کی طرف سے دائر کردہ مختلف رقوم کے دعووں کی اصلیت بھی نظر نہیں آئی۔یہاں ایک سوال دوسرا بھی پیدا ہوتا ہے کہ میڈاس اتنی بڑی رقم کیسے ہڑپنے میں کامیاب ہوا؟ناشران کے ادارے اے پی این ایس نے اس حوالے سے ایک نظم قائم کررکھا ہے کہ اگر کوئی اشتہاری ادارہ متعین وقت پر رقم ادا نہیں کرتا تو اُسے معطل کردیا جاتا ہے۔میڈاس اتنی بڑی رقم اے پی این ایس کے مخصوص عناصر کی ملی بھگت کے بغیر ہڑپ ہی نہ کرسکتا تھا۔ یہ ایک انتہائی چالبازی سے کھیلا گیا کھیل ہے۔ جس کی تفصیلات الگ سے سپرد قلم ہونی چاہئے۔
جلسہ عام کے راقم نے یہ نکتہ خوب اٹھایا کہ ’’عوام تک زیادہ پہنچ رکھنے والوں اور محدود اشاعت رکھنے والوں کے ساتھ یکساں سلوک بجائے خود ناانصافی ہے۔ بقول رمیزہ نظامی، ان کے اخبار اور ’’ڈیلی من من‘‘ کو ایک ترازو میں کیسے تولا جاسکتا ہے‘‘؟ یہ واحد درست بات ہے جو اس تحریر میں شاید ہو۔ موصوف کے اپنے اخبار کو صرف محکمہ پنجاب کی طرف سے جولائی 2015 سے جون 2018 تک 36 ؍ کروڑ 74؍لاکھ 982 روپے کے اشتہارات ملے ہیں۔ رمیزہ نظامی جس ڈیلی من من کی بات کررہی تھی کہیں وہ خود اُن کا اپنا اخبار تو نہیں۔ موصوف کو یہ ضرور بتانا چاہئے کہ اُن کے ’’ڈیلی من من‘‘ کو کن ’’خدمات ‘‘ کے عوض یہ نوازشیں ہوئیں۔ جبکہ وہ زیادہ پہنچ اور محدود اشاعت رکھنے والے اخبارات کے ساتھ یکساں سلوک کو ناانصافی بھی سمجھتے ہیں۔ کیا موصوف نے ڈیلی من من کا ذکر’’ ایّاں ایّاں پو پو‘‘ پڑھ کر تو نہیں کردیا۔جہاں تک نوازشریف کے اولین دورِ اقتدار میں اُن کی ایک بڑے اخباری گروپ یعنی جنگ گروپ سے جنگ چھڑنے کی بات پر موصوف کا فقرہ ہے وہ بھی کسی احساس گناہ کی پیداوار لگتا ہے کہ اخبار اور اقتدار کی لڑائی میںآج تک اقتدار کو فتح حاصل نہیں ہوئی، وقتی پیش قدمی پر نہیں تاریخ کے صفحات پر لکھی ہوئی ہار پر نظر رہنی چاہئے۔ یہ نکتہ اس وقت کا اقتدار بآسانی سمجھ نہیں رہا تھا، لیکن آج یہ معاملہ اس کے ضمیر کا بوجھ ہے‘‘۔ کیا اس کا کچھ بوجھ موصوف بھی محسوس کرتے ہیں۔ خاکسار کو اس زمانے میں میر شکیل الرحمان کے انٹرویو کا اتفاق ہوا تھا جو ایک ہفت روزہ میں شائع ہوا۔ اس انٹرویو کے لیے میر شکیل الرحمان کے ساتھ کوئی چار گھنٹے سے زیادہ کی نشست ہوئی تھی، جس میں موصوف نے بہت سے آف دی ریکارڈ حقائق بھی بیان کیے تھے۔ نواز شریف کے پاس جنگ پر قبضے کے لیے جو ایجنڈا تھا، اُس کی پیچیدگیوں اور بھول بھلیوں میں بہت سے آرزومند اخبارنویس بھی گھاٹ لگائے بیٹھے تھے۔تاریخ کے بہاؤ میں یہ حقائق ابھی اپنے مناسب وقت اور موقع کو تلاش نہیں کرپائے۔ اداکاروں کے پاس کردار ادا کرنے کے لیے بس ایک متعین وقت ہوتا ہے مگر تاریخ کے کردار اداکاروں کی طرح وقت کے قیدی نہیں ہوتے۔ اس نوع کے نکات اُٹھانے سے ماضی نہیں مٹتا۔ دوست دشمن کا اندازا رکھنے والے نشانی اور نشانا دونوں ہی یاد رکھتے ہیں۔ بس نفاختے کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ لوگ باگ نبھا رہے ہیں۔ دیکھیے کب تک نبھاتے ہیں؟وزیراعظم کو انگلیاں نہ جلانے کا مشورہ دینے والے اپنے ان ہاتھوں کو تو اس آگ سے نکالیں جو نہ جانے تاریخ کے کس کس الاؤ میں جل رہے ہیں!!!
بلاشبہ مطبوعہ صحافت ایک بحران سے گزررہی ہے ،مگر اس کے بیشتر مسائل ان ایسے لوگوں کی قیادت کے باعث ہی پیدا ہوئے جنہوں نے اخبارات کی آبرو کو بیچا اور اِسے اقتدار کی ہوس ناک نگاہوں کے سامنے برہنہ ہونے دیا۔ لفظ لفظ کی قیمت وصول کی، فقرے فقرے کو لین دین میں تولا۔جانے والے کی مذمت اور آنے والے کی مدحت کو منثورِصحافت بنایا۔مشرف کو قائداعظم ثانی کہا، زرداری کی مدح سرائی کے لیے دلیلیں تراشیں۔ نوازشریف ڈوبے تو اُن سے کنی کترائے، پھر اُبھرے تو پھر قربت کے بہانے بنائے،انسانوں کی پوری پوری منڈلیاں سجاسجا کر برائے فروخت پیش کیں۔ مطبوعہ صحافت اس دوران کسی حیا باختہ دوشیزہ کی طرح بستر پر دراز آنسو بہاتی رہی۔ اب اس کا غازہ اُترا ہے تو اس کی تجارت بھی کی جارہی ہے۔ مگر اب یہ کام دوسرے ہاتھوں پر چھوڑئیے، بیمار کرنے والے چارہ گر اچھے نہیں لگتے!!