... loading ...
ترک شاعر اور ناول نگار ناظم حکمت نے کہا:
’’غرض کہ یہ سب دل کا معاملہ ہے‘‘۔
رومانوی انقلابی کہلانے والے ناظم حکمت کا انتقال جون1963 ء کو ہوا، اُن کا سابقہ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے ’’جغادریوں ‘‘ سے نہیں پڑا، وگرنہ وہ کہتے:
’’غرض کہ یہ سب پیٹ کا معاملہ ہے‘‘۔
ابھی ابھی ایک تحریر نظر سے گزری، کچھ لوگ نکتہ آفرینیوں میں گزارا کرتے ہیں۔ ایک صحافی اور تاجر کے درمیان جنگ میں صحافی ہار جائے تو بچ جانا والا تاجر حقائق سے ایسے ہی سفاکانہ چاندماری کرتا ہے۔ وہ اپنی ہی تحریروں کا خود ہدف بن جاتا ہے۔ اپنی ہی آواز کی گونج سے بھاگتا پھرتا ہے۔ دل مردہ باد، پیٹ زندہ باد !!!تاجر نے اپنی آنکھ سے پاکستانی میڈیا کی مشکلات کو دیکھا ہے ، اُنہوں نے وزیراعظم عمران خان سے حالیہ ملاقات کے حوالے سے جو نکات اُٹھائے ، وہ اخباری صنعت سے وابستہ مسائل کی نشاندہی نہیں کرتے بلکہ اُس کے بین السطور میں اُن چند عناصر کے ذاتی دکھوں کی کراہیں سنائی دیتی ہیں جنہیں گزشتہ حکومتوں کی طرح میڈیا صنعت میں دراز دسترخوان اور اُس پر انواع واقسام کے اشتہا انگیز کھانے نہیں مل رہے۔ چونکہ اب یہ نکات’’ جلسہ عام ‘‘میں باانداز دگر موضوع بحث بن ہی گئے ہیں تو اس کا حقیقی ’’ماجرا‘‘ بھی سامنے آہی جانا چاہئے۔
ضبط کروں میں کب تک آہ اب
چل اے خامے بسم اللہ اب
پہلی بات تو یہ دھیان میں رہے کہ لکھنے والے کے کنجِ لب سے ایک لفظ بھی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران میں نہ پھوٹا تھا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جنسِ ہنر بیچنے والے مثالِ سائلِ مبرم نشستہ راہ میں رہتے ہیں۔ وہ کلمۂ حق ادا نہیں کرتے۔ اُن کے الفاظ دائیں بائیں تاک جھانک کے بعد محتاط پیرایوں میں رہتے ہیں کہ کب کون سی لاٹری کھل جائے۔ چنانچہ کالم بھی ایک ایسی ہی تدبیر ہوتا ہے جس میں صرف وزیراعظم نہیں بلکہ جہاں جہاں سے رزق چنا جاسکتا ہے اُن سب کو تاک تاک کر اشارے دیے جاتے ہیں۔ بات جی ٹی روڈ اور موٹر وے کے موازنے کی نہیں، یہ مسائل کی تجارت ہے اور تجارت کی سائنس ہے۔
اقتدار سے دائم راہ ورسم کے شوقین نے سرکاری اشتہارات کے واجب الوصول بلوں کا ذکر کیا ہے۔ مناسب بات ہے۔ مگر اس میں ایک کھیل ہے اور وہ بہت بھیانک ہے۔ یہ ایک ٹولہ ہے جس نے میڈیا صنعت کی مختلف نمائندہ تنظیموں پر اپنے پاؤں گدھوں کی طرح گاڑ لیے ہیں۔اور اشتہارات کی فراہمی میں ایک ڈاکیے کا کردار ادا کرنے والی ایجنسیوں کو ایک گندے اور ناپاک نظام سے اپنے ’’مفادات‘‘ کی تال میل کے ساتھ ایک طاقت ور شناخت دے دی ہے۔ یہ معاملہ بھی ایک ایسے ہی ناپاک سلسلہ وار ڈرامے سے جڑا ہے۔ وزیر اعظم سے ملاقات میں واجب الوصول جن بلز کی بات کی جارہی ہے ، یہ اُس کا عرصہ دس سال پر محیط کرتے ہیں۔ اب اس میں قباحت یہ ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کی رقوم سابق وزیراعظم نوازشریف کے دور سے جڑی ہے جبکہ دس برسوں کے تذکرے میں جناب آصف علی زرداری کے دورِ اقتدار کے پانچ سال بھی آجاتے ہیں۔ دراصل عہدِ زرداری کے پانچ برسوں کے بہت سے معاملات ، مقدمات کی صورت میں عدالتوں میں ہیں۔ جس کا سب سے نمایاں واقعہ میڈاس نامی ایک اشتہاراتی ایجنسی کا ہے۔ اس مقدمے میں سندھ کے سابق وزیرِاطلاعات شرجیل میمن سمیت دیگر اشتہاراتی ایجنسیوں کے ذمہ داران اور سرکاری ملازمین جیلوں میں ہیں۔چنانچہ بجا طور پر یہ نکتہ وزیراعظم کے سامنے رکھا گیا کہ دس برسوں کے بجائے اُن گزشتہ پانچ برسوں کے بلز کی ادائی پر غور کیا جائے جو غیر متنازع ہیں ۔ سپریم کورٹ نے بھی جس رقم کی ادائی کی بات کی تھی وہ اِسی عرصے سے متعلق ہے۔ مگر جلسہ عام کے لکھاری اس پر مطمئن نہیں۔ چنانچہ وہ اس سے آگے بڑھ کر دس برسوں تک معاملہ لے جانے پر مصر رہتے ہیں اوراس کا سبب کچھ اور نہیں بس ایک اشتہاری ایجنسی میڈاس کے سربراہ انعام اکبر ہے۔وہ ایک دلچسپ پیرایے میں ان کا ذکر کرتے ہیں:میڈیا انڈسٹری نے جن سے اربوں کروڑوں وصول کرنے ہیں، اُنہیں اپنا بزنس چلانے کا موقع کیوں فراہم نہیں کیا جارہا‘‘ ؟کیا اشتہاراتی ایجنسیوں کے کوئی پیداواری یونٹ ہوتے ہیں۔ جہاں سے کوئی مارکیٹ کی چیز پیدا کی جاتی ہے۔ اُن کی ذمہ داری ایک اشتہار دینا ہوتی ہے جس کی رقم اُنہیں اپنے کسی پیداواری یونٹ میں بیٹھ کر چھاپنی نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ رقم حکومت کے خزانے سے اُنہیں مہیا ہوتی ہے جسے وہ اپنے پندرہ فیصد کمیشن کاٹ کر اخبارات کو ادا کرنے کی پابند ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس سرکاری رقم کو ہڑپنے کے بعد اُنہیں کون سا موقع چاہئے جس میں وہ اپنے کاروبار کو جاری رکھ کر رقم کی ادائی کریں گے۔ کہیں یہ کاروبار میڈیا انڈسٹری سے ہٹ کر تو نہیں۔ جہاں تک ان کے کاروبار کا تعلق ہے تو وہ اب بھی اے پی این ایس کی مہربانی سے جاری ہے جو اُنہیں نام بدل بدل کر دیگر ایجنسیوں کے نام پر اُنہیں کاروبار کرنے کا موقع غیر متناسب انداز سے مہیا کیے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس برہنہ سچائی کے باوجود کالم نگار نے کیوں یہ مغالطہ پیدا کیا؟
کالم نگار کو اعتراض ہے کہ ریفرنس دائر ہونے سے پہلے یا بعد ان کی گرفتاریاں کیوں کی گئیں؟ان کی رہائی کے لیے موصوف اور اے پی این ایس کے موجودہ سیکریٹری جنرل نیب سمیت نہ جانے کن کن دیواروں سے سرپھوڑتے رہے ہیں۔ ان کی انوکھی دلیل یہ ہے کہ جب دوسروں کو ضمانت مل رہی ہیں توانہیں کیوں نہیں؟ ایک قانون پسند اور انصاف کے خواہاں شخص کے لیے مسئلہ یہ کیوں ہے کہ انہیں رہائی کیوں نہیں ملتی؟ ان کا مسئلہ یہ کیوں نہیں کہ بدعنوانی کے مقدمات میں جنہیں ضمانتیں ملی ہیں، اُنہیں بھی قانون کے نرغے میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ غرض کہ یہ سب پیٹ کا معاملہ ہے!!
اس معاملے میں سب سے سنگین واردات یہ ہوچکی ہے کہ نیب نے دوران تفتیش جب میڈاس پر واجب الاداء رقم کے حوالے سے اے پی این ایس اور پی بی اے سے رابطہ کیا اور اُن کی جانب سے پیش کردہ رقوم کے اعدادوشمار کے حوالے سے موجود فرق کی بابت رہنمائی چاہی تو پی بی اے نے تو اپنے حصے کی وضاحت کردی مگر اے پی این ایس کے ان ذمہ داران نے مجرمانہ روش اختیار کرتے ہوئے نیب کو یہ غلط موقف پیش کیا کہ اے پی این ایس کے میڈاس سے کوئی متنازع امور حل طلب نہیں ہیں۔ یہ جھوٹ اس کے علاوہ ہے جو اس کے کچھ ذمہ داران اور انعام اکبر کے درمیان خاموش کاروباری تعلق کے ساتھ ناپاک طریقے سے موجود ہے۔ چنانچہ یہ تمام عناصر اپنے ہر اقدام کا ہدف انعام اکبر کی رہائی اور نیب پر دباؤ ڈالنے کی تدبیر بناتے ہیں۔ وزیراعظم سے ملاقات میں یہ انداز دس سال کی ادائیوں سے جوڑ کر بالواسط رکھا گیا۔چونکہ وزیراعظم عمران خان کے سامنے احتسابی عمل کے برخلاف بات کرنا ممکن نہیں تھی تو اس مسئلے کو کالم کی شکل میں جلسہ عام میں بالواسطہ رکھ دیا گیا۔اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ پیٹ پالنے والوں کو جیل میں یہ یقین بھی دلایا جاسکے کہ اُن سے فوائد سمیٹنے والے اُن کے حق میں مہم کا کوئی موقع بھی ضائع نہیں کرتے۔زنداں کی تاریک راتوں میں بھید کھلنے والے لمحات میں بھی شاید ہی انعام اکبر کو یہ بات سمجھ میں آسکے کہ یہ عناصر جب حکومتوں کو دھوکا دینے میں کامیاب رہتے ہیں تو وہ کس کھیت کی مولی ہے؟ یہ نکتہ دھیان میں رہے کہ دل کا تعلق دائمی ہے مگر پیٹ کا تعلق ضرورت کے ساتھ بدل جاتا ہے۔ انعام اکبر کو معلوم نہیں کہ پرویز مشرف ، آصف زرادی اور نوازشریف کے ساتھ تعلق کی تال میل میں کبھی دل نے پیٹ پر فتح نہیں پائی۔وہ بھی بس انتظار فرمائیں!!! موضوع باقی ہے مگر کالم کا ورق نبڑ گیا۔