... loading ...
29 اور 30 ستمبر کی درمیانی شب نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مخاطب ہوئے۔ نئی پاکستانی حکومت کے نمائندے کا عالمی سطح پر یہ پہلا خطاب تھا۔ ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان کی جانب سے کسی بھی عالمی فورم پر اس طرح کا جرائتمندانہ موقف سُننے کو ملا ہے۔جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کا دور پاکستان کے عالمی کردار کے حوالے سے آخری دور ثابت ہوا۔ ان کا دور اگرچہ آمرانہ تھا لیکن پاکستان نے اپنا عالمی کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا تھا ۔ پندرھویں ہجری صدی کے آغاز کے موقع پر انہیں اسلامی کانفرنس کے سربراہ کی حیثیت سے اُمتِ مسلمہ کے نمائندے کے طور پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کا اعزاز حاصل ہوا تو انہوں نے اپنی تقریر سے پہلے جنرل اسمبلی میں قاری عبید الرحمن سے تلاوتِ کلام پاک کروائی تھی۔ بعد میں کانسا بلانکا کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے اجلاس میں مصر کی ’’ او آئی سی ‘‘ میں دوبارہ شمولیت کے معاملے پر ان کی شہرہ آفاق تقریر کو ابھی تک یاد کیا جاتا ہے۔
عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد قوم جنرل اسمبلی میں پاکستان کی جانب سے جس بھر پور نمائندگی کی توقع کررہی تھی۔ اُس کا حق شاہ محمود قریشی نے شاندار اور جاندار طریقے سے ادا کر دیا ہے ۔وزیر خارجہ اپنی تقریر میں بعض مغربی ممالک کی جانب سے توہین رسالتﷺ کی جسارت اور بھارت کے حوالے سے جس دوٹوک اور واضح موقف کا اظہار کرنا چاہ رہے تھے وہ درست طریقے سے پاکستانی قوم تک اردو ہی کی بدولت پہنچا ۔ اگر یہ ساری کہانی وہ انگریزی میں بیان کرتے تو شاید ساری پاکستانی قوم ان کے موقف کو درست طریقے سے سمجھ بھی نہ پاتی ۔ قومی خودداری کے اس اظہاریے نے حکومت کی سیاسی ساکھ بھی بہتر بنائی ہے۔
توہین آمیز خاکوں کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر جس موقف کا اظہار کیا تھا اُس سے مغربی دنیا کو مسلمانوں کی تشویش اور نقطۂ نظر کو سمجھنے میں پہلی مرتبہ آسانی ہوئی مجھے یاد ہے چند سال پہلے جب ناروے اور ایک دوسرے ملک کے بعض ملعونوں کی جانب سے ایسی ہی جسارت سامنے آئی تھی تو اُس وقت میری عمران خان سے ٹیلیفونک گفتگو ہوئی تھی اُس موقع پر بھی انہوں نے ’’ہولوکاسٹ ‘‘ کے حوالے سے بات کی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ مغرب کو اس سلسلہ میں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے بر سرِ اقتدار آکر یورپ کی اس کج فہمی اور بد فکری کو قومی اسمبلی کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اصلاح کا راستہ دکھایا ۔اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ٹھیک ہے کہ ہر انسان آکسیجن سے سانس لیتا ہے لیکن مسلمان حُبِ رسول ﷺ کی آب و ہوا میں زندہ رہتا ہے ۔ بحرحال یہ عمران خان کی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ اُس نے اسلامی کانفرنس کی تنظیم اور اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے اس حساس معاملے پر آواز بُلند کی جس سے نہ صر ف اسلامی دنیا میں ملک کا وقار بُلند ہوا بلکہ مغربی دنیا پر بھی حقیقت آشکارا ہوئی ۔
جب سے وزیر خارجہ کے دورہ نیویارک کا اعلان ہوا ممتاز شاعرہ اور ادیبہ فاطمہ قمر کی جانب سے یہ مطالبہ ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آتا رہا کہ پاکستانی وفد کے سربراہ کا جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران ذریعہ اظہار اُردو ہونا چاہیئے ۔ باخبر حلقے ہی جانتے ہیں کہ اس کے لیئے محترمہ فاطمہ قمر صاحبہ نے کس قدر جدوجہد کی ہے اس حوالے سے وہ مبارکباد کی مستحق بھی ہیں ۔ ورنہ ہمارے ہاں بیوروکریسی کی جانب سے انگریزی کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیئے کیا کُچھ نہیں کیا گیا ۔ایسے طبقات نے گذشتہ کئی دہائیوں سے اُردو کو علاقائی زبانوں کاحریف قرار دینے کے انتہائی خطرناک اندازِ فکر کو فروغ دینا شروع کیا ہوا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میںیہ تائثر مستحکم کیا جا رہا ہے کہ قومی زبان اُردو سے علاقائی زبانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
گذشتہ دنوں لاہور میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم علی سوری کے اعزاز میں کھانے کے دوران کراچی سے اُردو کانفرنس میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے صحافی اور ادیب سید عارف مصطفی نے وہاں موجودپنجاب انسیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر لاہور کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صُغریٰ صدف سے استفسار کیا کہ اردو کو بطور قومی زبان علاقائی زبانوں کی حلیف سمجھا جاتا ہے یا حریف گردانا جاتا ہے۔ موصوفہ کراچی سے آئے ہوئے مہمان کی بات کو سنجیدگی سے لینے کے لیئے بھی تیار نہیں تھیں ۔
پاکستان کے اس سب سے بڑے صوبے میں قومی زبان اردو کے ساتھ اس قسم کا رویہ ایک روایت بن چُکا ہے۔جنوبی پنجاب میں لسانیت کے نعرے پر صوبے کے قیام کا مطالبہ ایک عرصہ کی کہانی ہے۔شاہ محمود قریشی کا یہ قابلِ تحسین اقدام بعض ایسے لوگوں کو ناگوار گذرا ہے جو آفاقیت میں اس قدر گُم ہو چُکے ہیں کہ انہیں مملکت خداداد کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدیں غیر ضروری نظر آنی لگی ہیں ۔پاکستان اور نظریہ پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آفاقیت مجروح ہوتی ہے۔۔ ایسے ہی ایک صاحب نے وزیر خارجہ کے حالیہ خطاب کے حوالے سے ارشاد فرمایا ہے کہ ’’ ایسے اقدامات سے عوام کا معیارِ زندگی بُلند ہوتا ہے تو لگے رہو میرے بھائی ۔۔ ‘‘
اردو کے فروغ کے لیئے کام کرنے والی تحریکوں کی اس کاوش کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے جو وہ قومی زبان اور علاقائی زبانوں کے حوالے سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیئے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ بلا شُبہ ان کے اس پُر خلوص دعوے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا کہ ’’ علاقائی زبانیں اُردو کے لسانی سرمائے میں مسلسل اضافہ کا ایک مستقل ذریعہ ہیں ۔ ‘‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ اُردو کی پُر شکوہ عمارت علاقائی زبانوں کے بُلندو بالا اور مستحکم اور مضبوط ستونوں پر اُستوار ہے۔۔ اُر دو اور علاقائی زبانیں لازم وملزوم ہیں ۔
دھرتی کی بولیوں کا رَس تُونے پی لیا
شادابیوں کو ہوگا تیرا جہاں اُردو
پشتو، سرائیکی ہو سندھی ہو یا بلوچی
تارے ہیں یہ زبانیں ، تُو آسمان اُردو
اقبال بھی ہے تیرا ، غالب کا تُو بسیرا
علم و ہُنر کی دُنیا ، حکمت کی کان اُردو
تُو بُلبلوں کا نغمہ ، تُو قمریوں کا گانا
تُو تھاپ ڈھولکی کی ، مُرلی کی تان اُردو
خیبر میں مُشک بو ہے ، بولان میں بھی تُو ہے
مہران تیرا مسکن ، راوی کی جان اُردو ۔۔۔( سلیم احسن )
1973 ء کے آئین کی تشکیل کے وقت نفاذِ اُردو کے لئے پندرہ سال کا عرصہ مقرر کیا گیا تھالیکن مقررہ عرصہ سے تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گذرنے کے باوجود ہم نے اُردو زبان کے نفاذ کے لئے کیا کُچھ کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
وزیر خارجہ کی تقریر میں فلسطین ، کشمیر اور بھارت کے حوالے سے جو انداز اختیار کیا گیا اُس نے عالمی برادری پر واضح کیا کہ کوئی ملک اور قوم پاکستان کے حوالے سے کسی غلط فہمی کا شکار نہ رہے ایک ایٹمی طاقت کے طور پر پاکستان اپنی سا لمیت اور بقاء کے تمام تقاضوں سے آگاہ ہے اور ہم قوموں کی برادری میں سر اُٹھا کر جینے کے قرینے سے واقف ہیں۔ بلا شُبہ ایسا اظہار ایک دیانتدار اور جرات مند لیڈر عمران خان کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ قومی زبان اُردو کے حوالے سے قوم بہت زیادہ پُر اُمید ہے کہ اسی دور میں ہم نفاذِ اُردو کی منزل کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے۔۔