... loading ...
بساطِ خاک سے ہم اٹھتے ہیں!!یہ سرشار کردینے والے لمحات ہیں۔
وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب فرمایا ۔ اللہ اکبر ! یہ خطاب نہیں، پاکستان نے اقوام عالم میں اپنا سر اُٹھایا ہے۔ایسے تاریخ ساز لمحات کو سیاسی تعصبات کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہئے۔وزیر خارجہ کا دورۂ نیویارک کامیاب رہا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا دورہ ہے جس میں پاکستان کی ایک خارجہ پالیسی نظر آئی۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے عالمی منچ پر ایک زبردست تحرک پیدا کیا۔ بھارت اور امریکا کے برسوں سے جاری کھیل کو اُلٹا کر رکھ دیا۔
ہے گرمی آدم سے ہنگامۂ عالم گرم
سورج بھی تماشائی تارے بھی تماشائی
ایک مدت سے بھارت کی مکروہ چال یہ ہوتی کہ وہ کسی بھی عالمی سطح کی سرگرمی سے پہلے پاکستان کو مذاکرات کا جھانسا دیتا اور اس ترغیب میں پاکستان کو عالمی سطح پر بھارت کے خلاف کسی بھی کردار سے روکے رکھتا۔ اس کے برعکس وہ عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام کرنے کا یہ موقع ضائع نہ کرتا۔ پاکستان وقت گزرنے کے بعد بس لکیر پیٹا کرتا۔ اس کھیل میں پاکستان کے تاجر حکمرانوں کی منفی ذہنیت بھارتی چالبازیوں کی معاون بن جاتی۔ اقوام متحدہ کے ا س پلیٹ فارم پر ہمارے تاجر حکمرانوں کے خطاب گزشتہ کئی برسوں سے بالواسطہ اشاروں اور ایمائی پہلوؤں کے ساتھ محض کھوکھلے لفظوں سے عبارت ہوتے۔پاکستان کے اس کردار پربھارت کو مسکراتے اور خود کو کسمساتے دیکھتے اب دہائیاں بیت چکیں۔
تحریک انصاف کی حکومت نے آج اس کا کفارہ ادا کیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اردو میں خطاب کرنے والے پہلے رہنما بن گئے۔ یہ عالمی سطح پر ہماری خود اعتمادی کا اظہار ہے۔ اپنے تہذیبی وفور میں یہ خود اعتمادی دنیا کی نظروں میں ثابت کرتی ہے کہ ہم کوئی گونگی قوم نہیں۔ مگر اس کا ایک داخلی پہلو بھی ہے جو ہمارے قومی تناظر کو ابہام سے پاک کرنے میں مدددیتا رہے گا۔ اردو کا رواج قوم کی تہذیبی پرداخت اور اس کی اجتماعی ساخت میں ایک ہم آہنگی دینے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ یہ عمل ایک مسلسل مشق کے ساتھ پاکستان کے اندر شمیم جانفزا کے خوشنما جھونکوں کو کوبکو کردے گا۔ اس سے ایک قومی نفسیات جنم لے گی جس کی پاکستان کے مختلف علاقوں میں اشد ضرورت ہے۔ شاہ محمود قریشی نے اردو میں خطاب کرکے عالمی سطح پر ہمیں سرخرو نہیں کیا بلکہ پاکستان کے اندر بھی امکانات کی ایک دنیا کو آباد کردیا ہے۔
وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے
وزیر خارجہ شاہ محمو د قریشی نے جو باتیں اقومِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہیں، اُس میں پاکستان سے وابستگی کی خوشبو رچی بسی ہوئی تھی۔ پاکستان نے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر عالمی سطح پر اپنا موقف بلند کیا۔ لفظ چبا کر بات نہیں کی۔ پاکستان کی اپنی خارجہ پالیسی پہلی مرتبہ متحرک شکل میں نظر آئی۔ شاہ محمود قریشی کی مختلف سطح پر تقریباً ملاقاتیں اور امریکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں بھی اس کی جھلک موجود تھی۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب میں بہت سے نمایاں پہلو تھے۔ مگر سب سے توانا پہلو بھارت کے متعلق گفتگو تھی۔ جس میں پہلی مرتبہ اس ملک کو اُس کے درست مقام پر رکھ کر بات کی گئی۔یہ پہلا موقع تھا کہ کلبھوشن یادیو کا موضوع پاکستان نے بلند آواز میں اُٹھایا۔ نوازشریف کی حکومت نے اس معاملے میں پراسرار خاموشی اختیار کیے رکھی۔ جس پر اُنہیں مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ نوازشریف نے اپنی مختلف تقاریر سے اُن شکوک کو پروان چڑھایا یہاں تک کہ اُنہوں نے پاکستان اور بھارت کے نظریاتی تصادم کو بھی سرے سے ماننے سے انکار کردیا اور دوقومی نظریہ کو اپنے پسندیدہ موضوع یعنی اشیائے دستر خوان کی دونوں ممالک میں مشترکات کی میزان پر تولا۔یہ نکتہ ہمیشہ پراسرار رہا کہ نوازشریف نے کسی بھی موقع پر کلبھوشن یادیو کا نام کیوں نہیں لیا جو بھارت کے خلاف پاکستان کا ایک سب سے مضبوط مقدمہ ہے۔شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے تمام واقعات میں بھارت ملوث ہے۔ اُنہوں نے خاص طور پر پشاور اسکول کے بچوں کے قتلِ عام اور سانحہ مستونگ کا ذکر کیا۔ یہ بالکل درست مقدمہ ہے جو تاخیر سے پیش کیا گیا۔ پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی میں بھارت ہر سطح پر ملوث ہے اور کلبھوشن کی گرفتاری اس کا ثبوت ہے۔ مسئلہ کشمیر، مسئلہ پاکستان بھی ہے۔ پاکستان نے ایک طویل عرصے کے بعد اس مقدمے کو لڑنے کا حق ادا کیا۔ برہان وانی جہادِ کشمیر کا ہیرو ہے اور اب ایک لہکتا استعارہ بھی۔ بھارت کو یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ہمارے ہیروز اور ولن کا تعین اپنے ہاتھ میں لے لے۔ بلاشبہ مسئلہ کشمیر اور بھارت کی طرف سے مذاکرات ملتوی کرنے کی حیلہ جوئیوں پر وزیر خارجہ نے جس طرح گفتگو کی، وہ سب لائق ستائش ہے۔ اور تو کچھ نہیں، پاکستان کے فعال کردار نے بھارت کی اب تک کی پاکستان کے اندر اور باہر پاکستان کے خلاف تمام سرمایہ کاری کو برباد کردیاہے۔
ایک نظریاتی تشخص کی تلاش میں پاکستان کو آدرش ریاست کے طورپر دیکھنے کی خواہش مرتے مرتے ایک بار پھر جینے لگی ہے۔ پاکستان کا عالم اسلام میں ایک قائدانہ کردار اُس کی تاریخ وتہذیب کا مقام برحق ہے۔ اسی لیے پاکستان کو مغرب سے آنکھیں چار کرنے کا حقیقی حوصلہ پیداکرنا چاہئے۔ مغرب کی جعلی علمیت کی پرتیں کھل رہی ہیں۔ اور اس میں سے ایک تعفن و تعصب زدہ وجود اُبھر رہا ہے۔ مغرب میں ہادی عالم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کا ایک تسلسل اس کی تاریخ ،تہذیب اور نفسیات سب کو بے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان کو اس پر علمی وعملی سطح پر ایک فعال کردار اداکرنا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو باور کرایا تھا کہ وہ اس پر ایک فعال کردار ادا کریں گے۔ پاکستان میں حکمرانوں کی تاریخ ایسی نہیں کہ وہ اپنے وعدوں کا زیادہ پاس کریں۔ مگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ خوش نصیبی ہمارے حصے میں آئی کہ ہم نے اس عالمی فورم پر اس مسئلے کو پوری طرح اجاگر کیا۔ شاہ محمود قریشی کے یہ الفاظ تاریخ میں گونجتے رہیں گے کہ مہذب اقوام میں متعصبانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے ، گستاخانہ خاکوں کی وجہ سے مسلم ممالک کو ٹھیس پہنچی ہم اس بڑھتی اسلام دشمنی کا بھرپور مقابلہ کریں گے۔ درحقیقت یہی وہ کردار ہے جس کی پاکستان تلاش میں تھا۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت اس جستجو کا حاصل بن پائے گی۔ شاہ محمود قریشی کے خطاب نے امید کے دیے روشن کیے ہیں۔ یہ وہی شاہ محمودقریشی ہیں جو پیپلزپارٹی کے عہد حکومت میں اسی وزارت سے سرفراز تھے۔مگر اب وہ ایک نئے عہد کا گجر بجا رہے ہیں۔ قیادت کا فرق تاریخ کا فرق پیدا کرتا ہے اور یہ نظر آرہا ہے۔ ناکامی کے اندیشے بھی کم نہیں مگر کیا یہ کم ہے کہ پاکستان نے اقوام عالم میں سر اُٹھا کر بات کرنا شروع کردی ہے۔ یہ تاریخ کے دھارے کو موڑ دینے والی روش ہے اور اس سے منہ موڑ کرکھڑے ہونے والے منہ لگانے کے قابل نہیں۔