وجود

... loading ...

وجود

بشریٰ بی بی

اتوار 30 ستمبر 2018 بشریٰ بی بی

ایک روز قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر خاتونِ اول محترمہ بشریٰ بی بی محوِ گفتگو تھیں۔ ایک عالَم اس کا کئی مہنیوں سے منتظر تھا۔ محترمہ بشریٰ بی بی کو اس سال کے آغاز سے قبل ہی ہماری قومی زندگی میں جگہ مل گئی تھی ۔ عمران خان کے چاہنے والوں سے زیادہ وہ اُن کے مخالفین کے ہاں زیر بحث رہیں۔ ان کے حوالے سے طرح طرح کے افسانے گھڑے گئے ۔ میاں نواز شریف کے تین دہائیوں کے اقتدار میں اُن کی خوشہ چینی کی سند پانے والے قلمکاروں کی کھیپ نے کیا کُچھ نہیں کہا ، کیسی کیسی کہانیاں تخلیق نہیں کی گئیں ۔ حکمران خاندان کی اصطلاح عام کرنے والی ایک خاتون کے زیر سایہ کام کرنے والے سوشل میڈیا سیل نے کیا کیا کارنامے سرانجام نہیں دیے۔ جس کا جنتا ظرف تھا اُس نے اُتنا ہی ڈلیور کیا۔
لیکن بشریٰ بی بی کے ایک انٹرویو نے تنگ نظری اور حسد کے گارے سے تعمیر ہونے والے افواہوں کے ایفل ٹاور کو منٹوں میں مسمار کر دیا ۔
کھول کے کیا بیاں کروں ، سرِ مقامِ مرگ و عشق
عشق ہے مرگِ با شرف ، مرگِ حیات بے شرف
صُحبت ِ پیرِ روم سے ہوا مجھ پہ یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربجیب ، ایک کلیم سر بکف
( اقبال ؒ )
بشریٰ بی بی کا کہنا ہے کہ ’’ عمران خان کو دنیاوی چیزوں سے کوئی رغبت نہیں ۔ وہ انتہائی سادہ طبیعت انسان ہیں ۔ کھانے میں یا کپڑوں میں کسی چیز میں کوئی نخرے نہیں ہیں ۔ میری نظر میں جس انسان میں لالچ نہ ہو وہ کامیاب انسان ہے۔ میری ساری زندگی جائے نماز پر گزری لیکن جب یہاں آئی تو عمران خان کے طور طریقے دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ انہیں ہر جاندار کا بہت احساس ہے۔یہاں تک کہ پودوں وغیرہ کا بھی۔ اسطرح کی باتوں سے میں نے اُن سے بہت کُچھ سیکھا ۔میں نے ان کو بتایا کہ رب سے عشق کرکے انسان کتنا مضبوط ہوتا ہے، انہوں نے مُجھے یہ سکھایا کہ مخلوق کی خدمت کرکے انسان کے اندر کیا بدلاؤ آتا ہے۔ اور وہ اللہ کے کتنا قریب ہوجاتا ہے۔۔۔ ‘‘
بُشریٰ بی بی کی باتیں عمران خان کے مخالفین کے لیے یقیناًچونکا دینے والی ہیں لیکن ان کے قریبی لوگوں کے لیے بھی یہ حیرت کا سامان لیے ہوئے ہیں کہ بشریٰ بی بی کی نگاہِ دوربین کپتان کے حوالے سے کس قدر درست تجزیہ اور ادراک کی حامل ہیں ۔
عمران خان نے جب سے کرکٹ کے میدان میں قدم رکھا ہے جاننے والوں پر اپنا سحر طاری کیا ہوا ہے۔ جواں سالی میں ملکہ برطانیا سے مصافحہ کرنے والے میں جھجھک اور احساسِ کمتری نام کی کسی چیز کا کوئی شائبہ تک نہیں ہوتا۔وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کی بعد ان کی اداؤں کے نکتہ چین اس راز کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے کہ یہ شخص دنیاوی راحت کا کبھی طلبگار رہا ہی نہیں۔ دنیاوی عیاشیاں اور آسانیاں چھوڑ کر اُس نے سیاست کی وادی پُر خار کا انتخاب کیا ۔ جو صاحب ادراک انہیں قریب سے جانتے ہیں وہ یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ سیاست میں آنے کے بعد سے مسلسل بائیس سال سے اپنے ارد گرد کے چھوٹے لوگوں میں گھرے رہنے کے باوجود و ہ کبھی چھوٹا دکھائی دیا ، نہ ہی محسوس ہوا۔ اُن سے محبت وہی کرتا ہے جو اُس کے باطن کی روشنی سے واقف ہے۔ عہد حاضر کے قلمکاروں میں یہ مقام او ر مرتبہ صرف اور صرف نابغہ روزگار ہارون الرشید کو حاصل ہے۔ اگرچہ ایک بڑے اور بزرگ صحافی اور ایک اخباری گروپ کے مالک کو بھی اب عمران خان کی اچھائیاں نظر آنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ ان کے پاس ’’ پاکستان تحریک انصاف کی بنیادی رُکنیت بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ دن قبل لاہور میں دوپہر کے ایک کھانے پر اُبلے ہوئے چاولوں پر مسور ڈال کر لطف اندوز ہوتے عطاء الحق قاسمی نے شعیب بن عزیز اور برادرم منصور آفاق کی موجود گی میں کپتان سے بہت دور کے ماضی کی ایک ملاقات پر فخر محسوس کرتے ہوئے کہا ’’ منصور آفاق کو شاید معلوم نہیں کہ عمران خان ایک مرتبہ میرے گھر بھی تشریف لائے تھے۔۔ ایسے میں مُجھے اپنے اندر ’’ میاں برادران ‘‘کے لیے تھوڑی سی ہمدردی محسوس ہوئی کہ بڑے اور چھوٹے میاں صاحب درجنوں مرتبہ عطاء الحق قاسمی صاحب سے ملے ہوں گے اور کئی مرتبہ ان کے گھر گئے بھی ہوں گے لیکن ان سب ملاقاتوں پر کپتان سے ایک ملاقات کی انسپائریشن بھاری ہے ۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ’’ نصیب اپنا اپنا ‘‘ ۔۔۔۔
کپتان کے اردگرد کے لوگ ہارون الرشید کی سچائی سے خائف رہتے ہیں لیکن راقم نے جب بھی اُن کی زبان سے عمران خان کے بارے میں کچھ سُنا یا ان کی لکھی ہوئی کوئی تحریر پڑھی تو مجھے حضر شیخ علی ہجویری (داتا گنج بخش ) کی شیخ ابوالقاسم عبد الکریم بن ہوازن القشیری کے بارے میں لکھی تحریر کا یہ اقتباس یاد آجاتا ہے کہ
’’ میں نے اُن سے ابتدائی حال کی بابت پوچھا تو اُنہوں نے کہا ایک دن مجھے ایک پتھر کی ضروررت لاحق ہوئی سرخس کی شاہراہ سے جو پتھر اُٹھاتا تھا وہی جوہر و پارس ہوتا تھا ۔۔‘‘
بشری بی بی کے اس انٹرویو نے غور و فکر کے نئے زاویے اور در وا کیے ہیں۔ عمران خان پر اُس کے کریم رب کی جو عطائیں اور عنایتیں ہیں وہ انسانیت سے ان کی محبت اور عشق کی بدولت ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کی وساطت سے سسکتے لبوں اور کانپتے ہاتھوں کی دعاؤں نے انہیں خُدا سے قریب تر کرکے دُکھی لوگوں کا محبوب بنا دیا ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر سرفراز اس محبوب لیڈر کے سامنے مسائل کا ایک انبوہ کثیر اور ارد گرد نااہل اور مناصب کے طلبگار لوگوں کی للچائی اور بھیک مانگتی نظروں کا گھیرا ہے لیکن کپتان کا دل روشن اور دماغ بیدار ہے۔ 2018 ء کے عام انتخابات میں اُس کے اعتماد کی سوداگری کرنے والوں سے لے کر اُس سے اپنے دنیاوی مفادات وابستہ کرنے والوں سے وہ پوری طرح واقف اور چوکنا ہے وقت کے ساتھ ساتھ معاملات پر اُس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔ بُشریٰ بی بی کا یہ ادراک درست ہے کہ وہ اپنی سخت کوشی جدوجہد اور خُدائے لم یزل پر اپنے کامل یقین کی بدولت ان تمام مسائل پر قابو پا لیں گے۔ ایسا ہی یقین منصور آفاق کی اس تازہ نظم میں جھلکتا ہے جو انہوں نے میرے ہاں بیٹھے ہوئے بے ساختہ کہی اور میں نے محفوظ کر لی۔
وقت جب جھوٹ کے دوزخ میں تڑپے صدیوں
کوئی انصاف کی تحریک جنم لیتی ہے
پھر نکلتا ہے شبِ غم سے اُجالوں کا سوار
جس کے بڑھ بڑھ کے قیامت بھی قدم لیتی ہے

وہی سچائی بھرے عہد کا آغاز کرے
ظُلم کی جھوٹ کی تردید اُسی کے دم سے
وُہی تبدیلی کی انجیلِ مقدس ٹہرے
اِک نئے دور کی تمہیدی اُسی کے دم سے

اُس کی کرنوں سے فروزاں میرا غیور وطن
اُسی کے جلووں سے منور میرا آئندہ ہے
آسماں گیر اُسی کی کہانی ہے اب تک
وُہ ہی تابندہ ہے سُورج وہی پائندہ ہے

اُسی خورشید کی زرتاب شعائیں چُن کر
ظُلمتِ شب بھی اُجالوں سے کفن بُنتی ہے
اُس کو کیا علم کے سورج کبھی بُجھتا ہی نہیں
وہ تو بہری ہے میری بات کہاں سنتی ہے

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر