... loading ...
عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لیے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لیے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔تہوار کسی بھی کی قوم کی پہچان اور علامت ہوتے ہیں اگر چہ باشعور اقوا م اپنے اپنے تہوار اپنے اپنے مذہبی رنگ و ڈھنگ سے ہم آہنگ کرکے مناتی ہیں جس سے ان کے مذہب وثقافت کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔یوں تو امت مسلمہ کے بہت سے تہوار ہیں لیکن ان میں سے سب سے زیادہ اہمیت عیدین کو حاصل ہے یعنی عید الفطر اور عید الاضحی کے تہواروں کو دین اسلام میں بہت ہی قدر ومنزلت کا مقام حاصل ہے۔
عاشقان مصطفے کریمﷺ عید میلادالنبیﷺ بھی شان و شوکت سے مناتے ہیں۔عید کے معانی خوشی و مسرت او رجشن کے ہیں۔ عید کے لغوی معانی خوشیوں بھرا دین جو بار بار لوٹ کر آنے کے ہیں جبکہ فطر کا مطلب روزہ کھولنے کے ہیں اسی طرح عید الفطر وہ انعام و اکرام والادن ہے جومسلمانوں کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں والے مہینے کی عبادت گزاری کے بعد شکر گزاری کے طو ر پر عطا ہوا ہے۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے ’’روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجر دو ں گا،، لہذا رب العزت اپنے بندوں کو جنہوں نے رضائے الہی کے حصول اور معرفت خدا اور خوشنودی باری تعالیٰ کے لیے راتوں کو قیام اور دن کو روزہ رکھا ان کے لیے عید الفطر انعام و اکرام کا د ن ہے اس دن کو رحمت کا دن کہا گیا ہے عید الفطر کے دن روزہ داروں کے لیے اور مسلمان بچوں کے لیے ہر طرف قلبی خوشی کا سماں اور مسرتوں بھرا دن ہوتا ہے۔ عید الفطر کا دن دعاؤں کی قبولیت کا دن ہے۔ حضر ت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول پا ک ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر اپنے ملائکہ کے سامنے فخر کرتا ہے اور انہیں مخاطب کر کے فرماتاہے کہ اے میرے فرشتو! اس اجیر (مزدور) کی جزا کیا ہے؟ جس نے اپنے ذمے کا کام پورا کردیا،، فرشتے اللہ پاک کو جواباً عرض کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار اس کی جزاء یہ ہے کہ اس کی مزدوری اسے پوری پوری دے دی جائے۔ اللہ تعالٰی جواباً ارشاد فرماتا ہے اے میرے ملائکہ! میرے ان بندوں نے اپنا وہ فرض پورا کرد یا ہے جو میں نے ان پر عائد کیا تھا۔ پھر اب یہ اپنے گھروں سے (عید کی نماز ادا کرنے اور) مجھ سے گڑ گڑا کر مانگنے کے لیے نکلے ہیں قسم ہے میری ذات اور میرے جلال کی، میرے کرم اور میرے بلند مقام کی میں ان کی دعائیں ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے جاؤ میں نے تمھیں معاف کر دیا اور تمھاری برائیوں کو بھلائیوں میں بدل دیا۔
شافعی محشر، صاحب قرآن ﷺ کا فرمان ہے پھر وہ (عید گاہ سے) اس حالت میں پلٹتے ہیں کہ انہیں معاف کرد یا جاتا ہے (سنن بہیقی) عید الفطر کے دن صدقہ عید الفطر کی ادائیگی اور نمازعید کے واجب اعمال کے ساتھ ساتھ اس دن کی بہت سی مسنون دعائیں اور مستحب اعمال کے کرنے سے رب العزت کی ذات خوش ہوتی ہے اور ان اعمال پر بے حساب انعام و اکرام سے نوازتی ہے۔
ان اعمال میں حجامت بنانا، بال کٹوانا، ناخن کاٹنا، مسواک وغسل کرنا نئے یا کم از کم صاف کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، عید گاہ جانے سے قبل طاق تعدادمیں کجھوریں یا کسی بھی میٹھی چیز کا کھانا، عید گاہ کی جانب جلدی جانا، عید گاہ کی طرف پیدل جانا، راستے میں تکبیرات کا ورد کرنا، بعد نماز ایک دوسرے کو مبار ک باد دینا، راستہ بدل کے واپس آنا، عید کے دن قبرستا ن جانا او ر مرحومین کے واسطے دعاء مغفرت کرنا۔عید الفطر کے دن روزہ رکھناحرام ہے عید الفطرکی نماز کے عظیم اجتماع کا اہتمام کھلی جگہ یا عید گاہ میں کرنے کا بہت ہی اجر و ثواب رکھا گیا ہے۔ عید الفطر دراصل خوشی بھرے جذبوں کا نام ہے اور مسلمان آپس میں نہ صرف محبت الٰہی کے جوش و خروش کے جذبات سے ملتے ہیں بلکہ رشتہ داروں او ر دوستوں کی بھی خوب آوبھگت میٹھے پکوانوں سے کرتے ہیں۔ عزیز اقارب کے گھروں میں عید کی مبار ک باد کے لیے جاتے ہیں باہمی رنجش وجھگڑوں کو ختم کر کے صلح و رحم دلی سے کا لیتے ہوئے ایک دوسرے کی خطاؤں کو درگزر کر دیتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ سچا اور قلبی پیار قائم کرنے کا نام ہی عید ہے۔ عید الفطر کاوقت سورج کے ایک نیزے کے برابر ہونے سے تقریباً دن بارہ بجے تک ہے، عید کی نماز دو رکعت واجب بمع چھ زائد تکبیرات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے پہلی رکعت میں ثنا ء کے بعد، دوسری رکعت میں قراء ت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین تکبیرات پڑھی جاتی ہیں۔ بعد از نماز خطبہ بنی نوع انسان اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا ہے، عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحب استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقۃالفطرکی ادائیگی واجب ہے۔
آئیے! عید کے اس پر مسرت موقع پر ہم بھی یہ تجدید عہد کریں کہ جس طرح اللہ رب العزت سے ہم اپنے گناہوں کی معافی کے خواستگار ہو تے ہیں اسی طرح اپنی انا ء کو ختم کرتے ہوئے اپنے عزیز اقارب، دوست واحباب سے چھوٹی چھوٹی رنجشوں اور نفاق کوصمیم قلب سے معاف وختم کر کے بھائی چارے کی ایسی فضاء قائم کریں جس کا یہ بابرکت دن ہم سے تقاضا کرتا ہے، دوسروں سے معافی مانگنا اور دوسروں کو معاف کر دینا اور حقوق العباد کا خیا ل رکھنا ہی عید کا حقیقی فلسفہ ہے۔
ظاہر ہے عید الفطر کا دن ہماری زندگی کا سب سے اہم دن ہے اور یہ سال میں ایک بار آتا ہے،اس لیے ہماری کوشش ہو کہ اس مبارک دن کو احکام خداوندی کی پاسداری کرتے ہوئے لہو و لعب سے پاک ہوکر دن گزارے، اہل و عیال کے ضروریات کی چیزوں پر فراخ دلی سے خرچ کریں، نہا دھو کر جو کپڑا سب سے اچھا ہو اسے زیب تن کریں، خوشبو لگائیں، اچھا سے اچھا پہنیں، کھائیں، عزیز و اقارب اور دوست و احباب سے وسیع قلب اور خوش دلی سے ملیں، عید کے دن کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت متبرک والا دن قرار دیا ہے، حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر میں کچھ بچیاں جنگ بعاث سے متعلق کچھ اشعار گارہی تھیں، اسی دوران حضرت ابو بکرؓ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول کے گھر میں کیا گایا جارہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس وقت ہماری کروٹ لیے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، حضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ’’اے ابوبکرؓ! انہیں گانے دو،ہر قوم کے لیے تہوار کا ایک دن ہوتا ہے، آج ہمارے لیے عید کا دن ہے (بخاری:۱/۴۲۳،رقم حدیث: ۹۰۹ ، مسلم : ۲/۷۰۶،رقم حدیث :۲۹۸)، دوسری جگہ روایت ہے کہ عید کے دن کچھ حبشی بازی گر کرتب دکھلا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی وہ کرتب دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی اپنی آڑ میں کھڑا کرکے دکھلائے، جب حضرت عائشہ یہ تماشہ دیکھتے دیکھتے تھک گئیں تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اچھا اب چلو‘‘ (مسلم:۲/۷۰۶،رقم حدیث:۲۹۸)۔
عید الفطر کے دن ہمیں اپنے سماج کی خبر رکھنا چاہیے اور وہ لوگ جن کے پاس وسائل کی کمی ہے اُنھیں بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنا چاہیے۔موجودہ دور میں جب ہر طرف نفسانفسی کا عالم ہے اور عید کے تہوار کے لیے شاپنگ کرنا انتہائی مہنگا امر ہے۔ پورئے سماج کی ذمہ داری ہے کے عید کی خوشیوں کے راستے میں مہنگائی کا جو جن آ کھڑا ہوتا ہے اُس کے خلاف ایک بھر پور مہم چلائی جائے تاکہ تاجر حضرات اپنے منافع کو اعتدال میں رکھیں تاکہ غریب بھی خوشیاں منا سکیں۔