وجود

... loading ...

وجود

کالاباغ ڈیم کی کہانی

هفته 09 جون 2018 کالاباغ ڈیم کی کہانی

کالا باغ ڈیم کی کہانی کے کئی پہلوووں میں سے اہم ترین یہ پہلو ہے کہ تقریباً ہر الیکشن سے قبل اس ڈیم کی تعمیر کے معاملے کو کسی نہ کسی انداز میں اچھالا ضرور جاتا ہے۔ 1980 کی دہائی کے وسط میں کسی نہ کسی حد تک سندھ اور KPK میںخاص طور پر کالا باغ ڈیم کی شدید مخالفت سامنے آچکی تھی مگر پنجاب میں اس کی تعمیر کی حمایت کو سیاسی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کاآغاز ابھی نہیں ہوا تھا۔ پنجاب میں کالا باغ ڈیم پر سیاست کا آغاز 1988 میں قومی اسمبلی کے نتائج آنے کے بعد ہوا۔ 1988 میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے درمیان دو دن کے وقفہ کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں وال چاکنگ اور جاگ پنجابی جاگ جیسے نعروں کے ابلاغ کے لیے بھر پور طریقے سے استعمال کیا گیا۔ اس کے بعد سے تقریباً ہر انتخاب سے قبل کالا باغ ڈیم کی حمایتیوں اور مخالفین کی کشمکش اچانک نمودار ہوتی ہے اور انتخابات کے بعد غیر محسوس طور پر غائب ہوجاتی ہے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیرکے معاملے پر صرف صحافت اور سیاست کے میدانوںمیں ہی نہیں بلکہ عدالتوں میں بھی زور آزمائی جاری ہے۔

2013 کے انتخابات سے قبل کالا باغ ڈیم کے حمایتیوں کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں دائر ایک درخواست کے ذریعے استدعا کی گئی تھی کہ عدالت حکومت کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے ہدایات جاری کرے۔ اس درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تھا کہ عدالت کو وزیر اعظم پاکستان کو براہ راست نوٹس جاری کرنا چاہیے کہ وہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے اقدامات کریں کیونکہ 1991 میں مشترکہ مفادات کونسل کی میٹنگ میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا جس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ایک سے زائد ایسی درخواستوں پر سماعت کے بعد عدالت نے 29 نومبر2012 کو سنائے گئے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت جاری کی کہ وہ آ ئین کے آرٹیکل 154 کے تحت ڈیم کی تعمیر کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں درخواستیں دائر کرنے والوں نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو اپنے حق میں قرار دیا جبکہ ماہرین نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ بدستور جوں کا توں ہے کیونکہ عدالت کے فیصلے سے زیادہ سے زیادہ یہی مراد لی جاسکتی ہے کہ حکومت ڈیم کی تعمیر کے لیے قومی اتفاق رائے پیدا کرے۔ اس لیے جب عدالت نے ڈیم کی تعمیر کے لیے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ کالا باغ ڈیم پر لاہور ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد نہ تو اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت اور نہ ہی بعد میں آنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی کی مگر اس کیس کے بزرگ وکیل اے کے ڈوگر نے 2015 میں ایک درخواست کے ذریعے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ عدالت کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے حکومت کو لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا حکم جاری کرے۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور موجودہ نگران وزیر اعظم ناصر الملک نے یہ درخواست خارج کر دی تھی۔ الیکشن 2018 کے عین موقع پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ ماضی کی طرح اب دوبارہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہے۔

کالا باغ ڈیم کی کہانی کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ تقسیم ہند کے بعد جب پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائی پانی کی تقسیم کا مسئلہ ایک بہت بڑے تنازعے کی شکل میں سامنے آیا تو اس کے حل کے لیے جاری مذاکرات کے دوران بین الاقوامی ماہرین کی طرف سے دریائے سندھ پر ایک میگا ڈیم کی تعمیر کی تجویز دی گئی۔ اس ڈیم کی تعمیر کے لیے جن دو مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی ان میں سے ایک تربیلا اور دوسرا کالا باغ تھا۔ تربیلا کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کا حتمی فیصلہ ہونے کے بعد کالا باغ ڈیم کا ذکر وقتی طورپر غیر ضروری ہو گیا۔ تربیلا ڈیم کی تعمیر کے دوران ڈاکٹر لیف ٹنک نے ’’ سٹڈی آف واٹر اینڈ پاور ریسورسز آف ویسٹ پاکستان ‘‘ کے نام سے ایک رپورٹ تیار کی جو 1967 ء میں منظر عام پر آئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ تھا کہ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے پاکستان میں پانی کی کمی کا مسئلہ کسی حد تک حل تو ہوجائے گا لیکن تربیلا اور منگلا ڈیموں میں سلٹ آ جانے کے بعد 1985 ء تک یہاں پانی کے نئے ذخائر کی ضرورت پیدا ہو جائے گی۔اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے جو چار تجاویز دی گئیں ان میں سے ایک کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق تھی۔

پانی کی کمی کو پور کرنے کے لیے جو دیگر تجاویز دی گئیں ان میں بالائی دریائے سندھ پر بھی کسی ڈیم کی تعمیر، دریائے سندھ کے معاون دریائوں پر سمال اور میڈیم ڈیموں کی تعمیر اور دریائوں کے علاوہ دیگر (Off river sites) مقامات پر جھیلوںمیں پانی ذخیرہ کرنے کا کہا گیا تھا۔تربیلا ڈیم کے منصوبہ کی تیاری کے وقت بھی کیونکہ کالا باغ کا مقام ڈیم کی تعمیر کے لیے زیر بحث آچکا تھا لہٰذا اس جگہ پر نئے ڈیم کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا۔اس فیصلہ کے وقت کہیں سے بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں کوئی ا?واز بلند نہ ہوئی۔ کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں خیبر پختونخوا کے پشتونوں کی طرف سے پہلی آواز اس وقت سامنے آئی جب اس ڈیم کا منصوبہ تیار کرنے والے غیر ملکی ماہرین کی ٹیم نے نوشہرہ کے پہاڑوں پر نشان لگا کر ان کے زیر آب آنے کی نشاندہی کی۔ اس کے بعد کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوبنے کے تاثر کو زائل کرنے کی بہت کوششیں کی گئیںلیکن یہ کوششیں بارآور ثابت نہ ہوسکیں۔ان سلسلے میں نندی پور گوجرانوالہ میں واپڈا کی طرف سے کالا باغ ڈیم کا ماڈل بنا کر یہ ثابت کرنے کی کو شش کی گئی کہ اس کی تعمیر سے نوشہرہ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔ چینی ماہرین کی ٹیم سے نندی پور ماڈل کی تائید حاصل کی گئی لیکن خیبر پختونخوا سے کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں کوئی کمی نہ آئی اس کے بعد ورلڈ بنک کے تعاون سے امریکی ماہرین کی رائے لینے کے لیے ان کو بھی موازنے بجھوائے گئے مگر ان کی طرف سے مثبت جواب کے باوجود نوشہرہ کے ڈوبنے کے جو خدشات جنم لے چکے تھے، ختم نہ ہوسکے۔ اس معاملے میں کالا باغ ڈیم کی حمایت کرنیوالے ماہرین سے یہ غلطی ہوئی کہ انہوں نے نوشہرہ کے ڈوبنے کا تاثر دینے والی ابتدائی رپورٹ تیار کرنے والے ماہرین کو کبھی بھی یہ موقع فراہم نہیں کیا کہ وہ کسی فورم میں اپنے اخذ کردہ نتائج کا دفاع کریں اور ان کے پیش کردہ اندازوں کو جن رپورٹوں کے ذریعے غلط ثابت کیا گیا ہے وہ سرعام ان رپورٹوں چیلنج کریں۔ اگر ایسا ہو جاتا تو کئی قسم کی مبینہ غلط فہمیاں دور ہونے کا امکان پیدا ہو سکتا تھا۔


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر