... loading ...
پاکستان عظیم بحرانوں کے نرغے میں ہے ۔ مگر کچھ لوگ اس سے لذت کشید کرتے ہیں۔ریحام خان خود کوئی مسئلہ نہیں یہ بحران دربحران تہہ داریوں کی ایک پرت ہے۔ اس میں سوچنے سمجھنے کے بہت پہلو ہیں۔ کاش عسکری ادارے اس پر غور کریں!
میکاولی طرزِ فکر میں بحران کا انتظام بحران سے کیا جاتا ہے۔ خارجی وداخلی دائروں میں اس کی الگ الگ شکلیں ہوتی ہیں۔ سابق صدر اوباما کے چیف آف اسٹاف راہم ایمانوال سے انگریزی کا جملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ
147NEVER WASTE A GOOD CRISIS148
(ایک اچھے بحران کو کبھی ضائع نہ کرو)
درحقیقت اس فقرے کی جڑ خود میکاولی کے ایک فقرے میں ہے، وہ لکھتا ہے کہ
147Never waste the opportunity offered by a good crisis.148
میکاولی کی حشرساماں فکر میں یہ فقرہ خطرات کو اُبھارکر زندگی کرتا ہے۔ قومی ریاستیں اس کلیہ کو روز برتتی ہے۔ بحران ریحام خان نہیں، نوازشریف کا ہے۔ تین دہائیاں بیت گئیں، قومی منظر سے موصوف ہٹنے کوتیار نہیں۔سرمائے کے منتر سے جمہوریت کا ایسا جادو چڑھایا ہے کہ سرچڑھ کر بول رہا ہے۔ عارضی مفادات کے مارے ریاست کے مستقل مفادات کو داؤ پر لگا کر ایسی ایسی پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں کہ کہکشائیں بھی دم بھر کر دیکھتیں اور رشک کرتی ہیں۔سیاست میں ان کی سمائی دراصل جمہوریت کی پوتڑائی سے ہے۔ مگر اُن کا حالیہ وجودِ اندرون دراصل قوتِ بیرون سے برقرار ہے۔یہ نوازشریف بمقابلہ عمران خان دنگل نہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مقابل عالمی اسٹیبلشمنٹ ہے۔ معلوم حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف کی جگہ متبادل کی جدوجہد ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ نوازشریف جگہ خالی کرنے کو تیار نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ مقابل عالمی قوتیں نوازشریف کے متبادل کے طور پر کسی سیاسی شخصیت کو اُبھرنے نہیں دینا چاہتیں۔ اُنہیں یہ تو گوارا ہے کہ نوازشریف کی جگہ مارشل لاء آجائے مگر کوئی سیاسی شخصیت نہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کا پکا راگ الاپنے والے بھی عجیب نفاق میں مبتلا ہیں ، اُنہیں ایسی جمہوریت قبول نہیں جس میں نوازشریف کا کوئی متبادل سیاسی قد کاٹھ لے کر اُبھرتا ہو۔یہ عناصر جمہوریت کو نوازشریف کے ہم معنی بنانے پر تُلے ہیں اور الفاظ کے نرت بھاؤ سے ایسانقشہ کھینچتے ہیں کہ ووٹ کی پرچی کا مطلب بس 25؍ جولائی ہے۔ جمہوریت کا مطلب صرف نوازشریف ہے۔ فکر کا یہ عامیانہ پن علم وفضل سے گندھا اور ادب سے لتھڑاہو ا ہے، تصور کی یہ آمریت ، جمہوریت کی چادر اوڑھ کر اِتراتی اِٹھلاتی ہے۔ابھی کل تک یہ سقراط سرکاری ٹیلی ویژن پر بیٹھ کریہی درسِ آگہی انڈیلتے تھے۔ان سقراطوں کے ہاتھوں میں زہر کے ایسے جام ہیں جو اُنہیں تو صرف مخمور رکھتے ہیں مگر دوسروں پر’’ مارڈالا ‘‘ کی ہیبت طاری کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ان سقراطوں کو تاریخ میں ایسا مقام میسر آیا جس میں ’’سچ ‘‘ کے بدلے ’’زہر‘‘ نہیں جام اور دام میسر آئے۔
بحرانوں کے بیرونی خالق مملکت پاکستان کے خلاف اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہیں مگر ازل کے بھوکے بھاڑے کے سقراط ان بحرانوں سے نوازشریف کی جواز جوئی کرتے ہیں۔ریحام خان کی کتاب دوسری ہے۔ مگر کرکٹ کی ڈرامائی ’’دوسرا‘‘ گیند دراصل اسد درانی کی پہلی مکالماتی کتاب تھی۔ ریحام خان کی کتاب میں انتخابات کے ہنگام وقت اشاعت پر زور دیا جارہا ہے مگر اسد درانی کے مکالماتی شاہکار کا وقت تو اس سے بھی زیادہ پراسرار اور اہم تھا۔ ڈان میں سرل المیڈا کو انٹرویو دینے کے بعد ملک بھر میں ردِ عمل کی اُٹھنے والی لہروں کے دباؤ میں اچانک یہ کتاب منظرِ عام پر آئی اور نوازشریف پر دباؤ کے طوفان کو ٹال گئی۔ کیا بھارت میں اس کتاب کے وقتِ اشاعت پر غور نہ کیا گیا ہوگا؟بعدازاں سرل المیڈا بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ سے ملاقات کرتے پائے گئے۔اس کتاب کے مندرجات کو چھوڑیے کہ اسد درانی کے افلاطونی مکالمات ، حمودالرحمان کمیشن کے بعد پاکستان کے خلاف دوسری مہلک ترین دستاویز ہے۔ اس کا بتیسواں باب اکھنڈ بھارت کے تصور کو فروغ دیتا ہے۔ اور ہمارے افلاطون جنرل اِسے ممکن العمل باور کراتے ہیں۔ معلوم نہیں وہ کس ملک کے محافظ رہے ہوں گے؟اُن کا پورا زورِ بیان اس پر صرف ہوا کہ فوج بھارت مخالف نہیں اور اکھنڈ بھارت آج بھی قابلِ عمل ہے۔ایک عامی کے ذہن میں بھی جنرل درانی کے مکالمے سے یہ سوال اُبھرے گا کہ اگر یہ بیانیہ درست ہے تو نوازشریف کے سرل المیڈا کو دیے گئے انٹرویو میں آخر بُرائی کیا تھی؟ مگر یہاں اسد درانی کی کتاب بجائے خود موضوع نہیں ، اس پر تفصیلی جائزہ پھر کسی وقت کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ دراصل ریحام خان کی کتاب بھی اِسی قسم کے طوفان کی ایک تحریک ہے۔
حالات کا جبر ہے یا وقت کا سبق، فوج مارشل لاء لگانے سے گریزاں ہے۔اس کیفیت میں ’’متبادل‘‘ کی جستجو زیادہ کٹھن ہے۔ عمران خان متبادل شخصیت کے طور پر اُبھر ضرور آئے ہیں۔ مگر اُن کا اخلاقی وزن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اجتماعی زندگی میں کردار ہی اصل قوت ہے۔ عائشہ گلالئی اور ریحام خان کیسی ہی عورتیں ہوں مگر وہ جن پر الزامات کی یورش کررہی ہیں اُن کے ساتھ بھی کم وبیش اُن جیسا ہی مسئلہ ہے۔کم تر اخلاقی قوت کے باعث عمران خان اپنے کمزور حصے سے پکڑے جارہے ہیں۔صاف نظر آرہا ہے کہ اس فضاء میں نبرد آزما قوتوں کو زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ اگر چہ مسلم لیگ نون کے رہنما یہ کہہ رہے ہیں کہ ریحام خان کی کتاب منظرعام پر نہیں آئی مگر تحریک انصاف نے اس پر طوفان اُٹھا کر کتاب کی تشہیر کا انتظام خود ہی کردیا۔ مگر وہ بھی جانتے ہیں کہ تحریک انصاف نے بروقت پیش قدمی کرکے کتاب کے حیرت واستعجاب کے عنصر کو مارد یا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ریحام خان کو حریص اور کسی ایجنڈے کی شکار بھی ثابت کردیا ہے۔ ریحام کی کتاب کا مسودہ جس نے بھی شائع ہونے سے قبل حاصل کیا اُس کا مقصدِ اولین یہی رہا ہوگا کہ انتخابات سے پہلے اس کتاب کی گند کو اُچھال کر عین انتخابات کے وقت اس کی ہلاکت خیزی کو کم سے کم کردیا جائے۔ تاکہ عمران خان کا چہرہ تب زیادہ ہولناک نہ دکھائی دے۔ تحریک انصاف یہ فائدہ اُٹھانے میں کامیاب رہی۔ ریحام خان کے ٹیلی ویژن انٹرویو ز میں یہ ناکامی اُس کے چہرے پر اشتہار کی طرح چپکی دکھائی دیتی ہے۔ یہ جنگ جاری رہے گی، اندیشہ ہے کہ یہ وحشیانہ روپ دھار لے۔ شریف خاندان کا ہی نہیں، عالمی قوتوں کا بھی سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اور لڑنے کا واحد میدان نوازشریف کی قدرے مقبول قیادت کی صورت میں میسر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ذریعے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں اور دونوں کے پاس درانی ایسے افلاطونی اور ریحام ایسے طوفانی اُشغُلے کم نہیں، دھول اڑ رہی اور ابھی بہت اڑے گی۔کیونکہ بحران کے ذریعے بحرانوں کو ٹالنے کی یہی سائنس ہوتی ہے۔