وجود

... loading ...

وجود

مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارخانے کی منتقلی

پیر 04 جون 2018 مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارخانے کی منتقلی

گزشتہ  دنوں دوانتہائی اہم واقعات رونما ہوئے جو آگے چل کر دنیا میں بہت بڑی تبدیلی کا سبب بننے والے ہیں۔پہلا تو امریکی سفارتخانے کا مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیا جانا ہے اس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کا ایران کے ساتھ کیا جانے والا جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان ۔ان فیصلوں کی روشنی میں ہمیں اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ نام نہاد ’’عالمی امن‘‘ کے قیام کے لیے بنایا جانے والا اقوام متحدہ کا ادارہ عملًا ختم ہوچکا ہے۔ اس کی ’’ افادیت‘‘ یہیں تک تھی۔ ویسے تو اس نام نہاد ادارے کا وجود نائن الیون کے ڈرامے کے بعد ہی تحلیل ہونا شروع ہوچکا تھاجب امریکا نے اپنے صہیونی دجالی اتحاد نیٹو کے ساتھ مل کر افغانستان پر فوجی کشی کی۔ اس کے بعد عراق کا نمبر آیا اقوام متحدہ میں عراقی سفیر چیخ چیخ کر امریکا کے اس فیصلے پر احتجاج کررہا تھا لیکن اس کی کچھ نہ سنی گئی اور عراق تباہ کردیا گیا۔اب آگے جو کچھ ہونے جارہا ہے اس کے لیے اقوام متحدہ کی رہی سہی جو ساکھ رہ گئی تھی اسے بھی ختم کرنا امریکا اور اسرائیل کے لیے ضروری ہوچکا ہے اس لیے آپ دیکھیں گے کہ سب سے پہلے امریکا اقوام متحدہ کو چلانے کے لیے دیے جانے والے فنڈز روکے گا ،اس کے بعد باقی یورپین ملک اور اسرائیل بھی ایسا کریں گے، یوں یہ ادارہ آپ اپنی موت مر جائے گا۔ ایسا کیوں ہوگا ؟ کس کے مفاد میں ایسا کیا جائے گا؟ اس سوال کا جواب خاصا تفصیلی ہے۔جس کا جواب ہم مختلف زاویوں سے اپنی گزشتہ تحریروں میں دیتے رہے ہیں۔

جہاں تک امریکا اور ایران کے مابین جوہری معاہدے کا خاتمہ ہے تو یہ بالکل ایسا ہی سراب تھا جو ہم گزشتہ چار دہائیوں میں امریکا ایران دشمنی کی شکل میں دیکھتے آئے ہیں۔ اس حوالے سے ہم بہت مرتبہ کہتے آئے ہیں کہ کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ امریکا یا اسرائیل براہ راست ایران پر حملہ کریں اور فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ایران کاخطرہ دکھا کر ہی امریکی حکومت عرب حکومتوں سے اربوں ڈالر کے اسلحہ کے آرڈر وصول کرتا رہا اس لحاظ سے ایران اس کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی تھی پھر کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مرغی کو اپنے ہاتھوں ذبح کردیتا۔ ایران کے دائیں بائیں واقع افغانستان اور اور عراق کو تباہ وبرباد کردیا گیا لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا لیکن ان دونوں ملکوں کے درمیان جغرافیائی طور پرواقع ایران جسے امریکا علی الاعلان ’’محور شر‘‘ کہتا تھا ہاتھ تک نہیں لگایا۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ امریکا اور مغرب پر مسلط صہیونی دجالی مافیا کو خطے میں ایک ایسے حریف کی ضرورت تھی جس سے عربوں کو ڈرا کران کا سرمایہ اسلحے کی خریداری کی مد میں بٹورا جائے ۔ اندازہ لگائیں اگر عربوں اور ایران کے درمیان تعلقات دوستانہ ہوتے ایک دوسرے کے خطے میں مفادات کا احترام کیا جاتاتو کیا امریکا کو یہاں سے پھوٹی کوڑی ملتی؟ یقینا نہیںلیکن اس صہیونی چال کو نہ ایران کے حکمران ملا سمجھے نہ عربوں کے حکمران شیخ، اس سارے کھیل میں عربوں کو اعتماد میں رکھنے کے لیے امریکا نے چار دہائیوں تک ایران کے ساتھ لفظی دشمنی رکھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ امریکا نے ایران پر اب حملہ کیا لیکن۔۔۔عراق اور افغانستان پر حملوں کے دوران اسے ایران کی خاموش تائید حاصل رہی۔معاملہ جس وقت عراق سے نکل کر شام تک دراز ہوا تو امریکا اور صہیونی دجالی مافیا نے محسوس کیا کہ ایران کو شام کا راستہ دکھایا جائے تاکہ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان بڑی جنگ کی کیفیت پیدا کردی جائے لیکن اس قسم کی پراکسی جنگ کھیلنے کے لیے ایران کو وسیع سرمایہ درکار تھا اس لیے عربوں کے ’’دوست‘‘ امریکا نے اوباما کے زمانے میں ایران کے ساتھ ایک جوہری معاہدہ کیا تاکہ اس معاہدے کی آڑ میں وہ سرمایہ جو ایرانی انقلاب کے وقت سے منجمد پڑا تھا اسے ایران حاصل کرکے اس پراکسی جنگ میں جھونک دے اور خطے کی صورتحال امریکا اور اسرائیل کے موافق ہوجائے۔ قارئین نے دیکھا ہوگا کہ اس معاہدے کے خاتمے کے اعلان پر سابق امریکی صدر اوباما نے موجودہ صدر ٹرمپ پر خاصی تنقید بھی کی لیکن یہ سب کچھ ایک ڈرامے سے زیادہ کچھ نہیں۔ پہلے معاہدہ بھی امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کروایا تھا اور اب اس معاہدے کے خاتمے کا فیصلہ بھی امریکی صہیونی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہوا ہے۔ بھلا کسی امریکی صدر کی اتنی جرأت ہے کہ وہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کوئی فیصلہ کرسکے ظاہری بات ہے کوئی سابق صدر کینیڈی کی طرح سڑک پر مرنا نہیں چاہئے گا۔۔۔ ان تمام باتوں کے علاوہ یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ امریکا نے جس وقت ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائی تھیں تو اس وقت یورپ کے کئی ممالک ایران سے کاروبار کررہے تھے انہیں روکا نہیں گیا تھا جان بوجھ کر وہاں سے آنکھیں بند کی گئی تھی۔بھارت ایران سے تیل خریدتا تھا کبھی امریکا نے بھارت کو دھمکی نہیں دی کہ ایسے ملک سے کاروبار کیوں کیا جارہا ہے جس پر امریکی پابندیاں ہیں؟ درحقیقت امریکا چاہتا تھا کہ امریکا اور ایران کے درمیان اختلافات کا تاثر بھی برقرار رہے اور ایرانی حکومت اپنے سیاسی اور معاشی معاملات بھی چلاتی رہے تانکہ وہ وقت نہ آجائے جب اسرائیل کی خطے میں سیادت کی خاطر خطے کے تمام ملکوں کو تہہ وبالا نہ کردیا جائے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ صدام حسین کے عراق کو محض ایک شک اور ’’غلط‘‘ رپورٹ کی بنیاد پر تباہ کردیا گیا کہ اس کے پاس ’’ہلاکت خیز‘‘ ہتھیار ہیں۔ افغانستان کو ایسے الزام میں نشانہ بنایا گیا جو کبھی ثابت نہ ہوسکا لیکن ایران دمشق تک جاپہنچا، اس کی پراکسی جنگ امریکی ناک تلے یمن جا پہنچی۔ لیکن امریکا اور اسرائیل کو اس سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا ۔۔۔!! فلسطینی حماس کے بانی شیخ احمد یاسین جیسے معزور شخص کو ویل چیئر پر اسرائیلیوں نے شہید کردیا تھا لیکن لبنان میں موجود ایران کی اسرائیل کی جانب فرنٹ لائن پراکسی حزب اللہ کے رہنما حسن نصراللہ کیوں نظر نہیں آئے؟ ان سوالات پر خود ایران کے مقتدر اداروں کو غور کرنا چاہئے کہ انہیں خاموشی کے ساتھ ایک نہ نظر آنے والے صہیونی جال میں پھنسایا جارہا ہے۔کیونکہ اسرائیل نے جس وقت اسٹیٹ آف دی آرٹ ہتھیاروں کے ساتھ اپنی حدود سے باہر نکلنا ہے تو دنیا کو یہ باورکرایا جائے گا کہ اسرائیل کی ریاست کو انتہا پسندوں مسلمان تنظیموں سے شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں اس وقت اس نے یہ نہیں دیکھنا کہ کون سنی ہے اور کون شیعہ ، ان کی نظر میں سب انتہا پسند مسلمان ہوں گے۔

یہ کھیل تو ایران کے ساتھ کھیلا جارہا ہے لیکن عربوں کے ساتھ اس سے بھی برا کھیل کھیلا گیا ہے۔ عرب ملکوں کی وہ پراکسی جو سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران خودبخود تیار ہوگئی تھی، امریکا نے خود عرب حکومتوں کے ہاتھوں اسے ختم کرانے کا عمل شروع کیا ۔اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان تنظیموں اور عرب دارالحکومتوں کے درمیان کمیونیکیشن کا تعطل کمال درجے کی مہارت سے پیدا کیا گیا ۔ اب خود بعض عرب صحافتی ذرائع کا یہ ماننا ہے کہ ان تنظیموں کی جانب سے جو دھمکی انگیز پیغامات عرب حکومتوں کو ارسال کیے جاتے تھے وہ درحقیقت مغرب کے دجالی نظام کی کارستانی ہوتی تھی، جس سے دونوں کے درمیان فاصلے بڑھنا شروع ہوئے۔ اس پر امریکی اور یورپین کارپورٹیڈ میڈیا کا پراپیگنڈہ اور ایسی نام نہاد تنظیموں کا قیام تھا جن کے نام القاعدہ ، داعش اور تحریک طالبان پاکستان رکھے گئے جن سے ایک طرف مسلمانوں حکومتوں کو ڈرایا گیا تو دوسری جانب مغربی عوام کو خوفزدہ کیا جانے لگا۔ان کی سرکوبی کی آڑ میں ایسی اسلامی تحریکوں کے خلاف مسلم ملکوں کی سرکاری فوجوں اور ایجنسیوں کے ذریعے کریک ڈائون کرایا گیا جو کسی طور بھی اپنے اپنے ملکوں کے مفادات کے خلاف نہیں تھیںلیکن ایسا سب کچھ اس لیے کرایا گیا کہ جس وقت مستقبل قریب میں اسرائیل کی عالمی سیادت کے قیام کے لیے قدم اٹھایا جائے تو یہ اسلامی تحریکیں مسلح تحریکوں کی شکل میں امریکا اور اسرائیل کے راستے کی دیوار نہ بن جائیں کیونکہ ان تحریکوں کا زور عالمی دجالی صہیونی مافیا سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں دیکھ چکا تھا اور امریکا تاحال اپنی تمام ترین جدید ٹیکنالوجی اور نیٹو کی مدد کے ساتھ افغان طالبان کی شکل میں افغانستان میں اسے بھگت رہا ہے۔ اس لیے ایسی تنظیموں یا تحریکوں کا خاتمہ ضروری تھا تاکہ اسرائیل کے سامنے کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ رہے۔
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر