... loading ...
سیکرٹری پاکستان الیکشن کمیشن بابر یعقوب فتح محمد نے سینٹ کی مجلس قائمہ برائے داخلہ کو اس امر سے آگاہ کیا ہے کہ الیکشن کے دوران بہت سے سکیورٹی خطرات ہیں‘ کچھ عالمی طاقتیں الیکشن کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں جس کے پیش نظر صوبوں نے فوج بلانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ انکے بقول سکیورٹی خطرات الیکشن کمیشن کے لیے بڑی پریشانی کا باعث ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت ہونیوالے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے انتظامات پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاک فوج کے ساتھ سکیورٹی پر اجلاس ہو چکے ہیں۔ پاک فوج مشرقی اور مغربی سرحدوں پر مصروف ہے تاہم سکیورٹی خطرات سے عہدہ برآہونے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار بھی نہیں کیونکہ پولیس کی سکیورٹی ناکافی ہے اور صوبے سکیورٹی کے لیے پاک فوج کو بلانے کا تقاضا کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں 20 ہزار پولنگ سٹیشن حساس قرار دیئے گئے ہیں۔ ان پولنگ سٹیشنوں پر کیمرے لگائے جائینگے جس سے سکیورٹی اور الیکشن عملے کا نظم و نسق بھی مانیٹر کیا جا سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ سکیورٹی خطرات پر قائمہ کمیٹی کو ’’ان کیمرہ‘‘ بریفنگ دینگے۔ انکے بقول اس بار اضافی بیلٹ پیپر نہیں چھاپے جائینگے اور بیلٹ پیپرز صرف سرکاری پریس سے چھپوائے جائینگے اور انکی حفاظت کو یقینی بنایا جائیگا۔
اس وقت جبکہ صدر مملکت کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کے لیے 25 جولائی کی تاریخ کا اعلان کیا جاچکا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے نگران وزیراعظم اور نگران وزیراعلیٰ پنجاب کے لیے نامزدگیاں ہوچکی ہیں اور خود الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی ضابطہ اخلاق سمیت انتخابی عمل کا طریقہ کار جاری کرکے انتخابات کے انتظامات بھی مکمل کرلیے گئے ہیں تو سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے بعض عالمی طاقتوں کے حوالے سے سکیورٹی خطرات اور انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی بات کرنا بادی النظر میں انتخابات کے پرامن اور بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ آج حکومت‘ قوم اور ریاستی آئینی ادارے 2018ء کے پرامن اور بروقت انتخابات کے لیے پرعزم ہیں‘ چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار متعدد مواقع پر اعلان کرچکے ہیں کہ انتخابی عمل میں کسی قسم کی تاخیر ہونے دی جائیگی نہ کسی کو رخنہ اندازی کی اجازت دی جائیگی۔ اسی طرح وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی تواتر کے ساتھ اس عزم کو دہرارہے ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات شیڈول کے مطابق مقررہ وقت پر ہی ہونگے اس لیے اس فضا میں جبکہ پوری قوم انتخابات کے لیے تیار ہے اور تمام پارلیمانی جماعتیں اپنے اپنے منشور عوام کے پاس لے جانے کے لیے انتخابی میدان میں اتر چکی ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن کا انتخابی عمل کو بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے سبوتاژکرنے اور سکیورٹی خطرات لاحق ہونے کا عندیہ دینا ان عناصر کے عزائم کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہے جو انتخابات کے انعقاد یا مقررہ وقت پر انعقاد کے بارے میں نت نئے شوشے چھوڑ کر انتخابات کے موخر ہونے کے اپنے ہی پیدا کردہ خطرات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ایسے عناصر جن میں بعض سیاست دان اور اپنے تئیں دانشور بھی شامل ہیں‘ انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک قوم کو یہی بھاشن دیتے رہے ہیں کہ انہیں مقررہ وقت پر انتخابات منعقد ہوتے نظر نہیں آرہے۔ یہی عناصر انتخابات سے پہلے احتساب کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں اور عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید تو صدر مملکت کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد بھی انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔
اصولی طور پر تو مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی تیاریوں‘ انتخابات کی تاریخ کے اعلان اور نگران سیٹ اپ کے قیام کے یقینی ہونے کے بعد انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے تمام قیافوں‘ قیاس آرائیوں اور چہ میگوئیوں کا سلسلہ ختم ہو جانا چاہیے تھا اور اس وقت ملک میں انتخابی فضا اس نہج پر ہی استوار ہوچکی ہے کہ انتخابات کے ملتوی یا موخر ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہی اس لیے اس موقع پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کا سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے روبرو پرامن انتخابات کے انعقاد کے معاملہ پر بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے سکیورٹی خطرات کا اظہار کرنا قطعی نامناسب ہی نہیں‘ بلاجواز بھی ہے اور چیف الیکشن کمشنر کو بائی پاس کرنے کے بھی مترادف ہے۔
یہ بات اپنی جگہ پر درست ہے کہ ہر انتخابات کے موقع پر سکیورٹی خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ 2007ء کے انتخابات کے انعقاد سے ایک ماہ قبل انتخابی میدان میں اترنے والی پیپلزپارٹی کی قائد اور سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ کے بعد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ کر شہید ہوگئیں تو اس واقعہ کے باعث عام انتخابات کے انعقاد کے معاملہ میں خوف و ہراس کی فضا پیدا ہونا فطری امر تھا چنانچہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی انتخابی مہم وقتی طور پر ترک کردی اور اندیشہ یہی تھا کہ انتخابات طویل مدت کے لیے ملتوی ہو جائینگے تاہم پیپلزپارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے انتخابی میدان خالی نہ چھوڑنے کے عزم کا اظہار کیا اور صرف ایک ماہ کی تاخیر سے انتخابات سکیورٹی خطرات کے باوجود منعقد ہوگئے۔ اسی طرح 2011ء کے انتخابات کے موقع پر بھی ملک میں جاری دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کے تناظر میں سکیورٹی خطرات لاحق رہے ہیں تاہم جمہوری عمل کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے یہ انتخابات بھی مقررہ وقت پر متعینہ شیڈول کے مطابق منعقد ہوئے۔ اسکے برعکس 2018ء کے انتخابات کے حوالے سے بعض حلقوں اور عناصر کی جانب سے مسلسل غیریقینی کی فضا قائم کرنے اور برقرار رکھنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور یہ غیریقینی کی فضا اس حد تک اپنے اثرات چھوڑنے لگی کہ انتخابات کے حوالے سے میاں نوازشریف کی زیرصدارت منعقدہ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی اجلاس میں بھی اسکی صدائے بازگشت سنی گئی اور خود میاں نوازشریف کو یہ کہنا پڑا کہ اگر انتخابات ہوگئے تو ہم ان میں سازشی عناصر کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینگے۔
ایسی غیریقینی کی فضا کے باوجود انتخابات کے مقررہ میعاد میں ہی انعقاد کے لیے پولنگ کی تاریخ کا اعلان ہوا ہے اور نگران حکومتیں بھی سیاسی جماعتوں سے اتفاق رائے سے تشکیل پارہی ہیں تو اس وقت کم از کم الیکشن کمیشن کی جانب سے تو انتخابی عمل پر سکیورٹی خطرات کی تلوار نہیں لٹکائی جانی چاہیے بلکہ اسکی جانب سے انتخابات کے مقررہ وقت میں پرامن انعقاد کا ہی قوم کو پیغام ملنا چاہیے۔ انتخابات کے انتظامات کے لیے جو ذمہ داریاں الیکشن کمیشن کی ہیں وہ بہرصورت اسے ادا کرنی چاہئیں۔ اس سلسلہ میں ملک کے سکیورٹی ادارے الیکشن کمیشن کی ہدایات پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں اور سکیورٹی خطرات کے تناظر میں جس سکیورٹی ادارے کے اہلکاروں کو جہاں تعینات کرنا مقصود ہوتا ہے‘ اسکے مطابق ہی سکیورٹی ادارے بشمول افواج پاکستان ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں جیسا کہ 2011ء کے انتخابات کے موقع پر بھی افواج پاکستان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے 25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے لیے جن 25 ہزار پولنگ سٹیشنوں کے حساس ہونے کی نشاندہی کی ہے وہاں افواج پاکستان سمیت سکیورٹی کے متعلقہ اداروں کو حفاظتی انتظامات کی ذمہ داریاں سونپی جاسکتی ہیں تاہم سیکرٹری الیکشن کمیشن کا بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے انتخابات کو سبوتاڑ کرنے کی کسی سازش کی بات کرنا ان انتخابات سے پوری قوم کو خوفزدہ کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہے اس لیے قائمہ کمیٹی کو پہلے اس امر کا کھوج لگانا چاہیے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کسی کے ایماء پر تو ایسا بیان نہیں دیا جو خدانخواستہ انتخابی عمل کو سبوتاڑ کرنے پر منتج ہو سکتا ہے۔ ملک کی سالمیت کیخلاف ہمارے روایتی دشمن بھارت کی سازشیں اور منصوبہ بندیاں کسی سے ڈھکی چھپی تو نہیں ہیں جبکہ ہماری ارض وطن پر دہشت گردی کی اکثر وارداتیں بھی اسی کے ایماء پر ہورہی ہیں اس لیے انتخابات کے دوران اسکی ایجنسی ’’را‘‘ کی جانب سے دہشت گردی کی کسی واردات کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ ایسے سکیورٹی خطرات کا کھلم کھلا اظہار کرکے ووٹروں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جائے۔ اس تناظر میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کے بیان کے پس منظر کا مکمل کھوج لگانا ضروری ہے۔ اگر ایسے کوئی سکیورٹی خطرات ہونگے تو سکیورٹی کے تمام انتظامات فوج کے حوالے کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوگا جس کے لیے یقیناً عساکر پاکستان کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا جبکہ انہوں نے اپنے فرائض متعلقہ سول اتھارٹی کے احکام کے تابع ہی سرانجام دینے ہیں۔
اندریں حالات سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے سکیورٹی خطرات کے حوالے سے سینٹ قائمہ کمیٹی کے روبرو دیئے گئے بیان کا سخت نوٹس لیا جانا چاہیے اور آئندہ کے لیے الیکشن کمیشن کے کسی اہلکار کی جانب سے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جانا چاہیے جس سے انتخابات کے بروقت اور پرامن انعقاد کے بارے میں کسی غیریقینی کی فضا پیدا ہو سکتی ہو۔ الیکشن کمیشن کا کام پولنگ والے دن انتخابی عملہ‘ بیلٹ بکس‘ بیلٹ پیپرز اور دوسری متعلقہ مشینری کی ہر پولنگ بوتھ پر فراہمی کو یقینی بنانے کا ہے‘ اسے یہ ذمہ داری بہرصورت خوش اسلوبی سے سرانجام دینی چاہیے۔
متعدد نوٹسز کے باوجود وقاص اکرم، حماد اظہر، زلفی بخاری، عون عباس، میاں اسلم، فردوس شمیم، تیمور سلیم، جبران الیاس، خالد خورشید، شہباز گل، اظہر مشوانی اور شامل ، جے آئی ٹی میں پیش نہیں ہوئے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے کے معاملے میں آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں قائم جے آئی...
سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی نے چند روز قبل حیدر آباد ، سکھر موٹروے کو ترجیح نہ دینے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کراچی سکھر موٹروے شروع نہ ہونے تک تمام منصوبے روکنے کا کہا تھا حیدرآباد ، سکھر موٹروے پر وفاق اور سندھ کے درمیان جاری تنازع میںوزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ کو ...
مصنوعی ذہانت کو کسی نئے مقابلے کے میدان میں تبدیل ہونے سے روکا جائے مصنوعی ذہانت کا استعمال نئے اسلحہ جاتی مقابلوں کا آغاز کر سکتا ہے، عاصم افتخار پاکستان نے اقوام متحدہ میں عسکری مصنوعی ذہانت کے خطرات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ عسکری میدان میں آ...
جی ایچ کیو حملہ کیس تفتیشی ٹیم کو مکمل ریکارڈ سمیت اڈیالہ جیل میں پیش ہونے کا حکم سپریم کورٹ کی 4 ماہ کی ڈائریکشن کے مطابق کیس کا فیصلہ ہو گا ،التوا نہیں ملے گا جی ایچ کیو حملہ کیس کی آئندہ سماعت پر بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ ش...
اڈیالہ میں پولیس نے بانی کی بہنوں اور دیگر قائدین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا پی ٹی آئی کے قائدین کو ویرانے میں چھوڑنا انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کا کہنا ہے کہ اڈیالہ میں پولیس کی جانب سے عمران خان کی بہنوں اور دیگر قائدین کے...
سندھ ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست کی سماعت بغیر کارروائی ملتوی کردی ترمیم صحافتی فرائض پر جبری سنسر شپ اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، درخواست میں مؤقف سندھ ہائی کورٹ کے آئینی بینچ نے صحافتی تنظیموں کی پیکا ترمیمی ایکٹ کیخلاف درخواست کی سماعت بغیر...
سی پی ایل سی نے سال کے ابتدائی تین ماہ کے دوران کراچی میں لوٹ مار کی تفصیل جاری کردی کروڑوں مالیت کی 537گاڑیوں اور 12ہزار 182موٹر سائیکلوں سے شہریوں کو ہاتھ دھونا پڑا شہر میں گزشتہ ماہ مارچ کے مہینے میں بھی لوٹ مار کی وارداتوں میں شہری بھاری مالیت کی 160 گاڑیوں اور ...
پاکستانی عوام کے پیروں تلے معدنی ذخائر اور ہاتھوں میں مہارت ہے، مایوسی کی کوئی گنجائش نہیں، مجھے پختہ یقین ہے کہ پاکستان معدنی معیشت میں ایک عالمی رہنما کے طور پر ابھرنے کے لیے تیار ہے، آرمی چیف چین ، امریکہ، روس، برطانیہ ، آذر بائیجان سمیت متعدد ممالک سے منرلز سکیورٹی میں شرا...
پی ٹی آئی کارکنوں کا جیل کے قریب احتجاج اور پتھراؤ ،عمران خان کی تینوں بہنوں، عالیہ حمزہ، ایم این اے شفقت اعوان سمیت متعدد کارکنوں کو حراست میں لیا گیا، خواتین کو کچھ دور لے جاکر پولیس نے رہا کردیا بیرسٹر گوہر، سلمان اکرم راجہ اور ظہیر عباس چودھری کی گاڑی کو جیل سے کچھ دور لگے ...
ایم کیو ایم کا ایک گروپ کراچی میں نفرتیں پھیلا رہا ہے ، یہی لوگ افراتفری چاہتے ہیں ایم کیو ایم کو جو بات کرنی ہے وہ عوامی مینڈیٹ پرکرے، شرجیل میمن کا ایم کیو ایم کو جواب سندھ کے سینئر وزیر شرجیل میمن نے ایم کیو ایم قیادت کو استعفے دے کر دوبارہ الیکشن لڑنے کا چیلنج دے دیا۔کراچی ...
ایم کیو ایم رہنماؤں نے پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیا چنگاریاں اگر بارود کے ڈھیر تک پہنچیں تو شہر میں آگ لگ جائے گی، خالد مقبول متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی) کی حکومت سندھ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ک...
آرٹیکل 8 کی شق تین اے کے تحت معاملہ عدالت نہیں آسکتا‘ پھر اپیل کیسے؟ جسٹس جمال خان مندو خیل سانحہ جعفر ایکسپریس ،بولان میں دہشت گردی کا سپریم کورٹ میں تذکرہ،سات رکنی آئینی بینچ کی سماعت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کیس آئندہ دو سماعتوں پر مکمل کرنے کا ...