... loading ...
بلوچستان میں آئے روز کسی نہ کسی جگہ آپریشن رد الفساد کے تحت دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ دہشتگرد پکڑے جاتے ہیں، مارے جاتے ہیں اور ان کے ٹھکانوں اور کمین گاہوں سے بڑی تعداد میں اسلحہ کی برآمدگی ہوتی ہے۔ فورسز پر حملوں اور عام لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کی خبریں بھی برابر آتی ہیں ۔کسی کو مخبر کے نام پر ، کسی کو پنجابی کے نام پر یا کوئی مذہب کی اپنی اختراع و تعبیر کے تحت قتل کر دیا جاتا ہے۔ آخر الذکر گروہوں نے بلاشبہ مشکل اور خوف کی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ ان گروہوں کے تعاقب میں قانون نافذ کرنیو الے ادارے برابر لگے ہوئے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ بھی ہدف کے تاک میں لگے رہتے ہیں۔جیسے ستائیس مئی کو عصر کے وقت ٹریفک پولیس کے دو اہلکار نشانہ بنائے گئے ۔ جہاںپولیس نے موقع پر پہنچ کر دو حملہ آوروں کو بھی مار دیا۔ عرصے سے کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں میں مطلوب دہشتگردوں کی تصاویر در و دیواروں پر چسپاں کی گئی ہیں، جن پر انعامی رقومات رکھی گئی ہیں اور یہ سب مقامی افراد ہیں۔ جو اپنے ہی ملک کے دشمن بن گئے ہیں، اپنے ہی لوگوں کو مارنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس میں سلمان بادینی اور عمران رئیسانی عرف چھوٹا عمر کا نام اور تصویر شامل ہے ۔ 16مئی کی رات کو شہر کوئٹہ کے پوش علاقے چلتن ٹائون کے عقب میں واقع کلی الماس میں سی ٹی ڈی، ایف سی اور حساس اداروں نے انتہائی مطلوب شخص سلمان بادینی کی موجودگی کی اطلاع پر آپریشن کیا۔ یہ لوگ کلی الماس میں ایک مکان میں رہائش پذیر تھے ۔ اطلاع یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ اہلخانہ بھی تھے اور مزدوروں کی شناخت کے ساتھ رہ رہے تھے۔ بہر حال مسلح تھے ، خودکش جیکٹ ہمراہ تھیں گویا یہ محفوظ ٹھکانہ تھا اور یہیں سے تخریبی منصوبہ بندی کی جاتی تھی اور آئندہ بھی کی جانی تھی۔
واضح ہو کہ 24اپریل کو ایئر پورٹ روڈ پر وزیراعظم آزاد کشمیر کی آمد کے موقع پر پولیس کے ٹرک پر خودکش حملے کی تیاری یقینی طور پر اسی جگہ ہوئی ہوگی ،کیونکہ دھماکے کا یہ مقام کلی الماس کے قریب ہی ہے۔ چنانچہ اس رات آپریشن میں لشکر جھنگوی العالمی بلوچستان کا سربراہ سلمان بادینی مارا گیا۔ یہ چوبیس پچیس سال کا نوجوان تھا اور مقامی شخص تھا۔ اس کے ساتھ دو خودکش حملے آور مارے گئے ۔ افسوس کے آپریشن کے دوران ملٹری انٹیلی جنس کا آفیسر کرنل سہیل عابد اور اے ٹی ایف کا اہلکار ثناء اللہ آغا بھی قربان ہوگئے۔ آپریشن مطلوب ملزم عمران رئیسانی عرف چھوٹا عمر کی گرفتاری کے بعد اس کی نشاندہی پر کیا گیا ۔ چھوٹا عمر بھی بے رحم شخص ہے۔ سلمان بادینی درجنوں واقعات کا مرکزی کردار تھا۔ اگلے ہی روز یعنی سترہ مئی کو افطاری کے بعد دہشتگرد موٹر سائیکل اور گاڑی میں آکر چمن ہائوسنگ اسکیم کے قریب فرنٹیئر کور کے مددگار سینٹر پر حملہ آور ہوئے۔ پہلے موٹر سائیکل سوار نے داخلی گیٹ کے ساتھ خود کو دھماکے سے اڑایا جس کے بعد باقی مسلح افراد جنہوں نے خودکش جیکٹس باندھی ہوئی تھیں سینٹر کے اندر گھسنے کی کوشش کی ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی گاڑی کے سامنے موٹروے پولیس کے اہلکار محمد ادریس کی گاڑی آگئی ۔اس طرح دہشتگردوں کی راہ میں خلل پیدا ہوا اور وہاں ڈیوٹی پر موجود ایف سی اہلکاروں کو انہیں نشانہ بنانے میں کامیابی ملی۔ اطلاع کے مطابق پانچ دہشتگرد مارے گئے۔ مقابلے کے دوران دھماکے کی وجہ سے سات ایف سی اہلکار زخمی ہوگئے۔ دیکھا جائے تو اس گروہ کے لوگ تیاری کے ساتھ بڑی تباہی کی نیت سے آئے تھے جس میں وہ کامیاب نہ ہوسکے ۔لیکن غور و پریشانی کی بات یہ ہے کہ ان گروہوں کے افراد صوبائی دار الحکومت اور دوسرے علاقوں میں موجود ہیں۔
لگتا ایسا ہے کہ سلمان بادینی کی ہلاکت کا فوری اور بڑا بدلہ لینے کی غرض سے چند ہی گھنٹوں میں ایف سی مددگار سینٹر پر حملے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ اگرچہ اس تنظیم کی جانب سے حملے میں شریک پانچ دہشتگردوں کی جو تصاویر جاری کی گئی ہیں اس میں یہ افراد ایف سی مددگار سینٹر کے ماڈل یعنی نقشے کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملے کی منصوبہ بندی بہت پہلے سے ہورہی تھی اور پورے علاقے کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا تھا۔ مرنے والے ان پانچ افراد سے متعلق بتایا گیا ہے کہ ان کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس بابت سیکورٹی اداروں نے مزید بھی تحقیق و تفتیش کی ہوگی ۔ دہشتگردوں نے کرنل سہیل عابد ، اے ٹی ایف اہلکار ثناء اللہ آغا اور موٹروے پولیس کے اہلکار محمد ادریس کو نشانہ بناکر بہت بڑا نقصان کردیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے ۔غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ مقامی نوجوان ان تنظیموں کا حصہ بن رہے ہیں۔چنا ںچہ ان اسباب و عوامل پر بڑی گہرائی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے، کہ دہشتگرد کیسے ہمارے نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ تبلغات رازداری کے ساتھ کی جاتی ہیں۔لہذا بدی کے ان سر چشموں کو فنا کرنے کی ضرورت ہے ۔محلوں کی سطح پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔کہ کیسے اپنے نوجوانوں کو انسانیت دشمنوں کا ہتھیار بنانے سے رو کا جائے ۔کسی وزیر و مشیر کی گیدڑ بھبکیوں کی بجائے مساجد کے منبر،سیاسی ودینی جماعتیں ،سماجی تنظیمیں اور حقیقی قبائلی معتبرین مددگار بن سکتے ہیں۔ گویا سنجیدہ رُخ دے کر اس جانب کامیابی کے ساتھ گامزن ہوا جاسکتا ہے۔