وجود

... loading ...

وجود

فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیوں اور کیسے؟

بدھ 23 مئی 2018 فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کیوں اور کیسے؟

امریکی صدر ٹرمپ نے بالآخرپورے عالم اسلام کی دشمنی لیکراپنے سفارتخانے کا مقبوضہ فلسطین (غزہ) کی سرزمین پر گذشتہ دنوںافتتاح کر ہی ڈالاایسی قرارداد تو سابق ادوار میں ہی امریکی حکمرانوں نے پاس کر رکھی تھی مگر کسی سابقہ امریکی صدر کوایسی اسلام دشمنانہ حرکت کی جرآت نہ ہوتی تھی کہ ملت اسلامیہ ایسے عمل کا سخت رد عمل دے گی مگرٹرمپ کے دور میں امریکن بر بریت اور دہشت گردی کھل کر دنیا کے سامنے آچکی مگر چونکہ اسرائیلیوں نے ٹرمپ کو صدر منتخب کروانے میں اس کی بھرپور امداد کی تھی اور سبھی یہودی تنظیموں نے بڑھ چڑھ کرالیکشن مہم میں اربوں ڈالر خرچ کیے اس لیے “ادلے کا بدلہ”والا محاورہ یہاں فٹ بیٹھتا ہے ۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ہی مقبوضہ فلسطین میں امریکی سفارت خانہ بنانے کا جو اعلان کیا تھا مقتدر ہوتے ہی اس نے یہ بزدلانہ اور احمقانہ فیصلہ برقرار رکھا حالانکہ امریکی عوام کا ایسا کوئی مطالبہ نہ تھا صرف یہودیوں اور اسرائیل کے بذات خود پریشر کی وجہ سے ٹرمپ مجبور محض ہواسینکڑوں ملکوں کے سفیروں کوشرکت کی دعوت دی گئی مگر بیشتر اس میں شامل نہیں ہوئے جنوبی افریقہ اور ترکی نے افتتاح موقع پر6درجن سے زائد افراد کے قتل اور ہزاروں مسلمانوں کے زخمی ہونے پر اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ۔

ہمارے مقتدر افرادتو پھسلنے چکنے گھڑے کی طرح کے رہے ہیںکمانڈو مشرف کا جھکائو اسرائیل کی جانب تھا اسے تسلیم کرنے کا عندیہ دیامگر ہماری غیرت مند پاک افواج کہ جس کا ماٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے نے ایسا نہ ہونے دیا ۔مشرف نے اکیلے فون کال پر 9/11کے بعد اپنے ہوائی اڈے امریکنوں کو دے ڈالے تھے مگر اسے اسرائیل کے مسئلہ پر تسلیم کرنے کی جرآت پلیدہ نہ ہو سکی ۔سفارتخانے کے افتتاح پر مقامی فلسطینیوں نے زبردست احتجاجی مظاہرے کیے۔ہزاروں خون میں نہلائے گئے مگر غیرت ایمانی کا مظاہرہ جاری رکھا۔نامعلوم وجوہ کی بنا پر عالم اسلام ایسے چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے جیسے انہیں کسی سانپ نے سونگھ اور ڈس لیا ہوکاش آج شاہ فیصل شہید مسٹر بھٹو اور ضیاء الحق زندہ ہوتے تو عالم اسلام اس مسئلہ پر لازماً مشترکہ موقف اپناتے ہوئے اسرائیل اور امریکا کی بھرپور مذمت کرتا ۔امریکی تعلقات پر بھی لازماً نظر ثانی کی جاتی ویسے مسلمانوں کی تنظیمں اوآئی سی وغیرہ بھی آج تک کاغذی تنظیمیں ثابت ہو ئی ہیں۔اس کاہنگامی اجلا س ترکی نے بلوایا ہمارے وزیر اعظم نے بھی وہاں جا کر تقریر فرمائی قرار دادیں منظور ہوئیں یہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل پرایک بڑا پریشر تو ہیں مگر آمدن نشتند برخواستندوالا معاملہ نہ ہو کہ وہاں امریکا اسے ویٹو کردے اور ہم خاموش بیٹھ جائیں۔

عالم اسلام کو ڈٹ جانا چاہیے ۔اور سچ تو یہ بھی ہے کہ پورے عالم اسلام کے56اسلامی ممالک کے پاس ایٹمی قوت نہ ہے جن سے اسرائیلوں اور امریکیوں کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا صرف پاکستان ہی عالم اسلام میں ایٹمی قوت رکھتا ہے اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی بھرپور دفاعی امداد کرنے کے قابل بھی مگر جرآت رندانہ کہاں سے آئے ؟ہمارے ہاں تو بڑی سیاسی جماعتوں کے راہنمایان ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیںگالی گلوچ الزام تراشی کردار کشی جوتے سیاہیاں پھینکنے و مخالفین پر فائرنگ کرنے جیسے قابل مذمت واقعات میں انتخابات سے قبل ہی تیزی آتی جارہی ہے باشعور افراد کا خیال ہے کہ آئندہ آمدہ2018 کے انتخابات خونی ہوں گے اور مار دھاڑ سے بھرپور کریہہ ظالمانہ فلم بھی چلے گی جس سے ووٹر خوفزدہ بھی ہیں کہ انہی کے بچوں عزیزوں کو ایسے تصادم میں زخمی ہو کر موت سے ہمکنار ہونا ہے کسی لیڈر کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوگاکہ وہ درجنوں مسلح افراد کے جلو میں گھومتے ہیں ان بڑے جغادری سیاسی پہلوانوں میں کوئی بھی کشتی جیت گیا تو ہارنے والے پہلوان قطعاً برداشت نہیں کریں گے اور انتخابات سے قبل ہی اس میں دھاندلیوں کے الزامات لگ رہے ہیں بیشتر محب وطن عوام بڑی سیاسی جماعتوں کو بڑے بھینسوں کی لڑائی سمجھ کر اس سے علیحدہ رہنے میں بھلائی سمجھتے ہیںان کا بجا خیال ہے کہ نعرے باز لوٹوں کو اکٹھا کرنے والے کبھی بھی غرباء کسانوں مزدوروں اور محنت کشوں کے مسائل حل نہ کر پائیں گے دینی جماعتیں لاکھ کہیں کہ ہیں مگر نہ ہیں صرف اپنے اپنے مسالک کے افراد کے اکٹھ ہیں عام ووٹر تو لیڈروں کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگانے پڑ جاتا ہے کہ سبھی سیاسی پارٹیوں پر جاگیرداروں ،نودولتیے سود خور سرمایہ داروں ظالم کرپٹ وڈیروں کا قبضہ ہو چکا ہے نئی قیادت جیسے نعرے کبھی کے دفن ہو چکے عین ممکن ہے کہ”تنگ آمد بجنگ آمد” کی طرز پر پسے ہوئے طبقات کے مظلوم بھوک، مہنگائی اوربے روزگاری سے بلکتے ہوئے عوام اللہ اکبر اللہ اکبر اور ختم المرسلین تاجدار ختم نبوت محمد عربیﷺکے نعرے لگاتے اللہ اکبر تحریک کی صورت میں گندی غلیظ گلیوں کوچوں اور رہائشوں سے نکلیں اور کسی بھی جغادری سیاستدان کی اقتداری خواہشات کو کچلتے ہوئے خدا کی زمین پر خدا کی حکومت قائم کرٖڈالیں اس پر پاکستان عالم اسلام بالخصوص فلسطین ،کشمیر کے مظلوم افراد کی بھرپور امداد کر سکے گا اقتداری چھینا جھپٹی نے آج تو تقریباً تمام ہی قائدین کو مصروف کر رکھا ہے کہ “تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو “کے مصداق کر پشنوں کے الزامات سے جان چھڑانے رائیونڈی اور بنی گالائی محلات کی حفاظت کرنے اور عوام میں مقبول ہوجانے کے لیے نت نئے بیانیے جاری کیے جارہے ہیںخدائے عزوجل مسائل میں الجھی ہوئی اس قوم پر لازماً اس دفعہ اپنی خصوصی رحمتوں کی بارشیں برسا کر ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنا ڈالیں گے کہ لا الہ الا اللہ کی بنیادپر بننے والی اس نظریاتی مملکت کے لاکھوں بچوں عورتوں جوانوں کے خون نے اس کی جڑوں کو سینچا تھا۔سلامتی کونسل نے غزہ کی پٹی پر بہیمانہ اسرائیلی قتلوں پر تحقیقات کا مطالبہ تو کیا ہے مگر امریکا نے ایسی کسی بھی قرارداد کو ویٹو کردیا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر