... loading ...
افغانستان کے غیر یقینی حالات پاکستان پر بُری طرح اثر انداز ہیں افغانستان سے ملحق طویل سر حد غیر محفوظ ہے ۔اور یہ صورتحال حال پاکستان کے لیے باعث تشویش ہے ان سرحدوں کی کماحقہ نگرانی و حفاظت یقینی بنائی جاتی ہے تو دہشت گرد عملیات اور ان کے کُل پرزوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔اس مقصد کے تحت پاک افغان سرحد پر پنجپائی کے مقام پر آہنی باڑ کی تنصیب کا کام شروع ہوگیا ہے۔ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ 8 مئی 2018ء کو پنجپائی پہنچے اور وہاں قبائلی عمائدین کی تقریب سے خطاب کیا۔ یوں آہنی باڑ کی تنصیب کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔ اب تک افغانستان کی سرحد سے متصل 5کلومیٹر باڑ لگائی جاچکی ہے۔ پیش ازیں 2013ء سے2016ء کے دوران قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ڑوب، پشین اور نوشکی میں 470کلومیٹر طویل خندقیں بھی کھودی جاچکی ہیں۔ یہ خندقیں گیارہ فٹ گہری اور چودہ فٹ چوڑی ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد سرحد کو محفوظ بنانا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان مجموعی طور پر تقریباً ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل سرحد ہے، جس میں1268کلومیٹر کی سرحد بلوچستان کی ہے۔ پاک فوج اس وقت تک220کلومیٹر سرحد پر باڑ لگاچکی ہے۔ سرحد پر 95 قلعے تعمیر کیے گئے ہیں، یعنی 665 قلعوں کی تعمیر کا منصوبہ زیر تکمیل ہے۔ بلوچستان میں بھی ہر تین کلومیٹر کے فاصلے پر قلعے اور ہر ایک کلومیٹر پر واچ ٹاور تعمیر کیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر صوبے میں 250 قلعے اور 1500واچ ٹاور تعمیر ہوں گے۔ سرحد پر لگانے کے لیے باڑ خصوصی طور پر چین سے منگوائی گئی ہے۔ باڑکی اونچائی 12 فٹ اور چوڑائی 9 فٹ ہوگی، جبکہ درمیان میں خاردار تار کا رول ڈالاجائے گا جو بتیس بتیس انچ کی ہوگی۔ آئندہ چند ماہ میں فرنٹیئر کور کے دو نئے ونگ تشکیل دینے کا بھی امکان ہے جو فینسنگ کے کام کو مکمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
پنجپائی ضلع کوئٹہ کی تحصیل ہے۔ ضلع نوشکی جاتے ہوئے پہلے پنجپائی آتا ہے۔ ضلع نوشکی سے افغانستان کا علاقہ ’’شوراوک‘‘ ملحق ہے، جبکہ پنجپائی سے افغانستان کا علاقہ ’’سرلٹ‘‘ لگتا ہے۔ پنجپائی کے مقام پر یہ سرحد صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے صرف85کلومیٹر دوری پر ہے۔1948ء میں خان آف قلات میر احمد یار خان نے جب پاکستان سے الحاق کا معاہدہ کیا تو الحاق کو ان کے بھائی اور دوسرے بلوچ سیاسی رہنمائوں نے جبری قرار دیا۔ چنانچہ شہزادہ عبدالکریم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ افغانستان کی طرف نقل مکانی کی۔ گویا نیت نوزائیدہ پاکستان کے خلاف مسلح مزاحمت کی تھی، لیکن افغانستان کی حکومت نے انہیں اس کی اجازت نہ دی البتہ انہیں پْرامن طور پر پناہ گزین کی حیثیت سے رہنے کی اجازت دے دی۔ شہزادہ عبدالکریم نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ’’سرلٹ ‘‘کے مقام پر پڑائو کیا۔ افغان حکومت کے عدم تعاون کے بعد شہزاد عبدالکریم لوٹ آئے، اورگرفتار ہوئے۔ انہیں قید و بند کی سزا ہوئی۔ پھر وہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست کا حصہ بھی بنے۔ بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیر بخش مری مرحوم کے بیٹے نواب زادہ بالاچ مری نے جب ریاست کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کی تو کچھ عرصے بعد وہ بھی افغانستان منتقل ہوگئے تھے اور اسی سرلٹ کے علاقے میں مقیم رہے۔ ان کا افغانستان میں انتقال ہوا تو الزام یہ لگایا گیا کہ پاکستان کی فورسز نے سرلٹ کے علاقے میں ان کے کانوائے پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیا۔ سرلٹ کی اکثریتی آبادی پشتونوں کے بڑیچ قبائل کی ہے۔ نواب رئیسانی کے خاندان کی زمینیں بھی واقع ہیں، جبکہ براہوی بلوچ اقوام کے ساسولی اور پاکستانی حدود کے سرلٹ کے سرحدی علاقوں میں پرکانی بلوچ قبائل آباد ہیں ۔ گویا قبائل کا سرحد کے دونوں طرف آنا جانا بغیر کسی رکاوٹ و مشکل کے رہتا ہے۔ نومبر1893ء میں انگریز نے ڈیورنڈ معاہدے کے ذریعے خطِ تقسیم کھینچ کر صدیوں ہزاروں سال سے ایک سرزمین کو جدا کردیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس ارتباط کی وجہ سے دونوں جانب کے عوام کا آنا جانا پھر بھی بند نہ ہوا۔ آہنی باڑ لگنے کے بعد معلوم نہیںان کی آمدورفت کا کیا طریقہ کار وضع کیا جائے گا۔ بہرحال یہ طویل سرحد پاکستان کے لیے غیر محفوظ ہے، چاہے صوبہ خیبر پختون خوا ہو، فاٹا ہو یا پھر بلوچستان… سرحد کے اْْس پار سے مسائل کا سامنا ہے۔بلوچستان میں دہشت گردی کی دو الگ نوعیتیں ہیں۔ ایک مذہب کے نام پر، جبکہ دہشت گردی کی دوسری صورت قوم پرستی اور علیحدگی کے نام پر ہے، اور دونوں ناموں پر دہشت گردی کرنے والے گروہوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔ بلوچ شدت پسندوں کی ہر طرح کی مدد افغان حکومت کررہی ہے۔ اس وقت بھی ایک بڑی تعداد بلوچ رہنمائوں اور جنگجوئوں کی افغانستان کے مختلف شہروں اور دوسرے علاقوںمیں رہائش پذیر ہے جو قلعہ عبد اللہ، پنجپائی اور نوشکی اور دوسرے سرحدی علاقے آمدورفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رہی بات مذہبی گروہوں کی، تو وہ بھی افغانستان کے اندر محفوظ جگہوں میں سکونت رکھتے ہیں اور بلوچستان کے اندر مذکورہ سرحدی علاقے بلکہ دوسرے محفوظ اور دشوار گزار راستوں کے ذریعے داخل ہوتے ہیں۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اس سرحد کو محفوظ تر بنالیا جائے، اور جتنی جلدی اس پر کام ہوگا ملک کی سیکورٹی کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ پنجپائی کا مقام جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے کوئٹہ سے محض85کلومیٹر دوری پر ہے۔ اس قدر قریب سرحد صوبائی دارالحکومت کے لیے سنگین خطرہ ہی ہے، اور یقینا ان گروہوں پر نظر صرف سیکورٹی کے اداروں کی نہیں ہونی چاہیے بلکہ عوام بھی اتنے ہی ذمے دار ہیں، کیونکہ ان گروہوں نے عوام کے مفادات اور سلامتی پر مسلسل حملے کیے ہیں۔
کوئٹہ سیف سٹی منصوبے کا افتتاح بھی امروز ہی ہوا۔ 2 ارب 28 کروڑ روپے لاگت کے اس منصوبے کے تحت کوئٹہ کے داخلی و خارجی راستوں اور اندرون شہر 261 مقامات پر1400 سی سی ٹی وی کیمرے لگیں گے۔ گویا اس منصوبے سے دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے اور دہشت گردوں کی فوری شناخت اور گرفتاری میں مدد ملے گی۔ آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری کے مطابق گزشتہ چھے برسوں میں کوئٹہ کے اندر399 شیعہ ہزارہ، 36 سنی، 29 آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے اور سیکورٹی فورسز کے344 اہلکار اور اقلیتی برادری کے 19 افراد قتل ہوئے ہیں۔ رواں سال چار ماہ کے اندر ہزارہ برادری کے9 افراد قتل ہوئے ہیں جبکہ سیکورٹی فورسز کے28 اہلکار بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔