... loading ...
رئیس المتغزلین میر تقی میر نے کہا تھا:
جسے شب آگ سا دیکھاسلگتے
اُسے پھر خاک ہی پایا سحر تک
نوازشریف کے انجام سے قطع نظر ابھی تو وہ ایک شب طاری کیے اور آگ بنے ہوئے ہیں۔میر کا بیان ہی کیفیت کو سازگار ہے کہ
جدھر پھر نظر دیکھوں لگ جائے آگ
دم دم کُشی لب پہ کھیلے ہیں ناگ
نوازشریف تُل گئے ہیں کہ قومی مفادات کو آگ میں جھونک کر ذاتی مفادات کی ہنڈیا چڑھائیں گے۔ اُنہیں کون روک سکتا ہے۔ ایک کے بعد ایک وہ بحران پیدا کررہے ہیں۔ اُنہوں نے ڈان کو دیے انٹرویو سے جس بحران کو دانستہ جنم دیا ، وہ اُن کی ایک خاص ذہنیت کی غمازی کرتا ہے۔ یہ ایک اہم ترین موضوع ہے کہ پاکستان ان دنوں خطے میں کن بحرانوں سے نبرد آزما ہے اور دنیا کی نئی تشکیل کے ہنگام میں عالمی طاقتیں کس طرح کا پاکستان دیکھنا چاہتی ہے اور اس میں نوازشریف کس طرح معاونت فرمارہے ہیں۔ مگر اس سے بھی پہلے اس امر کا تعین ضروری ہے کہ نوازشریف کی ذہنی ساخت کیا ہے؟ وہ جو کچھ کررہے ہیں صرف اتنا نہیں کہ وہ اپنے مفادات کے تابع اسی طرح کا کردار اپنے لیے پاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر وہ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں۔ نوازشریف مقبولیت کی لہر میں پاکستان کو آہستہ آہستہ بند گلی میں دھکیل رہے ہیں۔ اُن کا پہلا ہد ف ہے کہ فوج کو براہِ راست اپنے خلاف صف آرا کردیں۔ وہ انتخابات سے قبل ہی مقبولیت کی لہر کو اُن کے خلاف کرناچاہتے ہیں۔ یہ اُن کی حکمت عملی نہیں بلکہ ذہنی ساخت بھی ہے۔
نوازشریف برسوں سے اس کیفیت کو پال رہے تھے کہ فوج کو ایک دفعہ ضرور سبق سکھایا جائے۔ اعجازالحق ایک قصہ مزے سے سناتے تھے ۔ نوازشریف کے ابا میاں شریف نے اعجاز الحق کو 1999 میں کہا تھا کہ بلّے نے ایک دفعہ میرے مور کو کھالیا تھا۔ مجھے لوگوں نے کہا کہ باڑھ لگائی جائے تاکہ آئندہ کبھی یہ نوبت نہ آئے۔ میاں شریف نے کہا نہیں ، میرے پاس اس کا دوسرا حل موجود ہے۔میاں شریف نے ایک دن بندوق پکڑی اور بلّے کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ وہ آیا اور اُسے فائر کرکے نشانا بنایا۔ میاں شریف نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ حل یہی ہے کہ بلّے کو ایک دفعہ ختم کرنا پڑے گا۔ ورنہ باربار یہ واقعات ہوتے رہیں گے۔ کم لوگوں کو علم ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے یہ کیوں کہا تھا کہ بلا دودھ پی جاتا ہے۔ دراصل نوازشریف نے زرداری کو یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ بلے نے بہت دودھ پی لیا ، اب اس کاراستا مل جل کر روکتے ہیں۔ زرداری نے اسی پس منظر میں یہ بات دھرا دی تھی۔ مگر نوازشریف کی ذہنی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی دوستی اور اپنی مرضی کی دشمنی چاہتے ہیں اور اس کو نبھانے کے لیے وقت بھی اپنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آصف علی زرداری نے جب یہ بات کہی تو وہ وزیراعظم تھے اور جنرل راحیل شریف کے ساتھ کچھ معاملات میں آسانی پیدا کرنے کے خواہش مند تھے۔ اس لیے اُنہوں نے زرداری سے اپنی طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کردی تھی۔ زرداری آج تک اپنا یہ زخم سہلائے پھرتے ہیں۔
نوازشریف کے پاس اب لڑنے کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ چنانچہ وہ فوج کے خلاف اپنی آخری لڑائی لڑنے کے لیے گنجائش نکال رہے ہیں۔ اُن کے تمام اقدامات اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ڈان کو انٹرویو کے بعد اُنہوں نے اس جانب اپنے سفر کو مزید تیز کیا ہے۔اُنہوں نے اپنے بھائی شہبازشریف اورو زیراعظم شاہد خاقان عباسی کو اُن کی مرضی کے خلاف دوسری سمت میں دھکیل دیا ۔ شہبازشریف کی وضاحت کو بے آبروکیا ۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اختیار کی گئی پوزیشن کے برعکس وزیراعظم کو کردار ادا کرنے پر مجبور کیا۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ایسے فیصلے مسلسل سامنے آرہے ہیں جو مسلم لیگ نون کی حکومت کی طرف سے فوج کو کسی ردِ عمل کی کیفیت میں مبتلا کرنے کی دانستہ کوششوں کا حصہ دکھائی دیتے ہیں۔ نوازشریف نے خود واضح کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں میری ان ہی باتوں کو ڈان لیکس بنادیا گیا۔ پھر مریم نوازنے کہا کہ پرویز رشید کو غلط سزا دی گئی تھی۔اور اب ڈان لیکس میں اپنے منصب سے برطرف کیے جانے والے راؤ تحسین کو ریڈیو پاکستان کا ڈی جی بنادیا گیا۔ نوازشریف نے اب یہ فرمایا ہے کہ دھرنوں میں صرف عمران خان کا کردار نہیں اور بھی بڑے بڑے نام ہیں۔ وقت آنے پر سب کے نام منکشف کروں گا۔ آشکار ہے کہ نوازشریف مستعار زمین وآسمان پھونک ڈالنے کو تیار ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نوازشریف فوج کو ایک مجبور اور بے بس حالت میں دھکیلنے کے لیے کہاں تک جانے کو تیار ہیں؟ کیااُن کی ذہنی ساخت اس طرح کی ہے کہ وہ فوج کو اس حالت میں دھکیلنے کے لیے بھارت کو پہنچنے والے فائدے کی بھی پرواہ کرنے کو تیار نہیں؟ دراصل اس نکتے کا تعین تاریخ میں نوازشریف کے مقام کا بھی تعین کرے گا۔
نوازشریف درحقیقت کہہ کیا رہے ہیں جس پر اُن کی حمایت میں تُلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ تشریح بھارت کی ہے جسے ہمیں نہیں ماننا چاہئے۔ نوازشریف اپنے بیان کی خود تشریح کررہے ہیں اور باربار کررہے ہیں۔ وزیراعظم کے موقف کے برخلاف اس کا مفہوم وہی ہے جو سب سمجھ رہے ہیں۔ احتساب عدالت کے باہر اُنہوں نے ڈان کو دیے گئے انٹرویو کامتعلقہ حصہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس میں غلط کیا ہے۔یہ ٹھیک وہی فقرے ہیں جس میں یہ بات موجود ہے کہ سرحد پار جانے والے غیر ریاستی عناصر ’’کسی‘‘ کی اجازت سے وہاں جاتے ہیں۔ اگر یہ بغیر اجازت جاتے ہیں ، خود سے جاتے ہیں، ان پر کسی کا کنٹرول نہیں، یہ بات نوازشریف مانتے ہیں تو پھر اُن کا مقدمہ کیا رہ جاتا ہے اور پھر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلانے کی ضرورت کیوں پڑگئی؟نوازشریف سارا مقدمہ ہی اس پر کھڑا کررہے ہیں کہ ایسے غیر ریاستی عناصر کو سرحد پارکارروائیوں کی ’’کسی‘‘ کی جانب سے ’’اجازت‘‘ کیوں دی جاتی ہے؟اور اس موقف میں ’’کسی‘‘ کی وضاحت کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ ’’کسی‘‘ کون ہے؟تو نوازشریف کی لڑائی ایک ایسی آگ ہے جس میں وہ قومی اداروں کو جھونکنا اور جُھلسانا چاہتے ہیں۔ یہ آگ اُنہیں تو فائدہ نہیں پہنچائے گی مگر ملک کو ضرور نقصان پہنچائے گی۔جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا نوازشریف فوج سے لڑتے ہوئے بھارت کو فائدہ پہنچنے کے پہلو کو نظر انداز کردیں گے، اِس پر غور آئندہ کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔اس سوال میں بھی ایک آگ دہک رہی ہے۔ نہ جانے کیوں شاعر کو باغی کا مضمون سوجھا تو اُس کے ذہن میں آگ کے سواکچھ نہ آیا اور نظم کا آخری شعر یوں سوجھا کہ
آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی ہوئی آگ
آگ ہوں آگ بس اب آگ لگانے دے مجھے