... loading ...
کوئٹہ کے ہزارہ عوام دو دہائیوں سے زیر عتاب ہیں۔ وحشت، سفاکیت اور ظلم و جبر کا وہ کونسا حربہ ہے جو ان پر آزمایا نہ گیا ہو۔ یہ لوگ ا پنے خدو خال کی وجہ سے دہشتگردوں کے لیے آسان ہدف بنے ہوئے ہیں۔ وادی کوئٹہ کے مشرقی و مغربی پہاڑ کے دامن میں ان کی آبادیوں کے تحفظ کے لیے خاطر خواہ اقدامات اُٹھائے جاچکے ہیں۔ تاہم انہیں تعلیم، ملازمتوں،کاروبار اور محنت و مزدوری کے لیے آمدروفت کے دوران نشانہ بناہی لیا جاتا ہے ۔ بلاتفریق جنس و عمر مارے جارہے ہیں۔2013ء کے علمدار روڈ خودکش حملوں کے بعد طویل دھرنا دیا گیا ۔ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف آئے پنجابی امام بارگاہ میں ہزارہ مذہبی،سیاسی و قبائلی عمائدین سے طویل ملاقات و مذاکرات کیے۔ چناں چہ اُسی لمحے بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ بھی ہوا جو 14جنوری 2013ء سے13مارچ 2013ء تک نافذ رہا۔ لیکن گورنر راج کے دوران ان پر ایک اور ہلاکت خیز خودکش حملہ ہوا ۔ دہشتگردوں نے بارودی مواد سے بھرے ٹریکٹر پر لادی پانی کی ٹینکی کا دھماکا کیا۔اردگرد کی عمارتیں بھی منہدم ہوگئیں ۔ 110لوگ پیوند خاک ہو گئے جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ گویا ان پر حملوں کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ روزگار، کاروبار اور ملازمتوں کے دروازے بند اور آمدروفت تو نہ ہونے کے برابر ہوکر رہ گئی۔ ہزارہ عوام ایسے واقعات کے خلاف احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ ہدفی قتل کے واقعات کی نئی لہر کے بعد ایک بار پھر احتجاج پر مجبو رہوئے جس کی باز گشت پورے ملک میں سنی گئی۔ اعلیٰ عدالت نے سومو ٹو نوٹس لے لیا۔ شہر میں چار مختلف مقامات پر دھرنے دیئے گئے ۔
قومی اسمبلی کے سابق ممبر آغا ناصر شاہ کو ئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج پر بیٹھ گئے۔ علمدار روڈ پر شیعہ مذہبی جماعتوں نے دھرنا دیا ۔ مغربی بائی پاس پر ہزار ہ ٹائون کے مرد و زن سڑک پر بیٹھ گئے۔ مجلس وحدت مسلمین کے رکن اسمبلی آغا رضا جن کے پاس قانون کی وزارت کا قلمدان بھی ہے نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاج شروع کیا ۔سب سے پہلے ہزارہ خاتون وکیل جلیلہ حیدر نے پریس کلب کے سامنے چند مرد و زن کے ہمراہ مظاہرہ کیا اور تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردی۔ اگرچہ ازیں پیش اور اس دن بھی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکن سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ بلوچستان اسمبلی کے سامنے بھی مظاہرہ کیا جس میںبڑی تعداد خواتین کی بھی شامل تھی۔ تاہم اس خاتون وکیل نے تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کرکے مذہبی تنظیموں کو مشکل سے دو چار کردیا اور چار و ناچار وہ بھی دھرنے دینے پر مجبور ہوئیں۔دیکھا جائے تو وزیر قانون آغا رضا کا احتجاج سمجھ سے بالاتر ہے ۔ معلوم نہیں کہ وہ کس کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ اپنی حکومت کی ناکامی کا ماتم کررہے تھے یا حق نمائندگی کی لاج رکھنے کی خاطر احتجاج شروع کیا۔ یاد رہے کہ مجلس وحدت مسلمین کو پورے پاکستان میں فقط کوئٹہ سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی ملی۔ گویا ہزارہ عوام نے یہ نشست جیت کر دی ہے ۔
جلیلہ ایڈووکیٹ لبرل اور سوشلسٹ خیالات کی حامل ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی کوئٹہ آمد اور متاثرہ خاندانوں سے ملنے کا مطالبہ پیش کردیا۔ حالانکہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال 30اپریل کو کوئٹہ آئے ۔ اس خاتون سے ملے،ہزارہ سیاسی و مذہبی رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ادھرآرمی چیف نے بھی اس انسانی مسئلہ کو نظر انداز نہ کیا، یکم مئی کی رات کوئٹہ پہنچ گئے۔ہزارہ عمائدین سے ملاقات کی، جنہوں آرمی چیف کی یقین دہانی پر احتجاج ختم کیا۔ احسن اقبال بھی دوبارہ آمد پروہاں موجود تھے ۔جنہوں نے بعد ازاں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جلیلہ ایڈووکیٹ کو بھی جوس پلاکر بھوک ہڑتال ختم کرادی۔ جلیلہ ایڈووکیٹ فورسز سے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتیں۔ وکلا ء ،تاجر ،سیاسی جماعتوں کے رہنما ء اور سول سو سائٹی کے افراد کا اظہار یکجہتی کے لیے ان کے کیمپ پر تانتا بندھا ر ہا۔ احتجاجی کیمپ میں پشتون تحفظ موومنٹ کے لوگ بھی آتے جاتے۔ گویاان کا نعرہ یہی ہے کہ ان واقعات کے پیچھے وردی ہے۔ معلوم نہیں کس منطق کی بنیاد پر یہ نعرہ لگاتے ہیں۔ اگر بات دہشتگردی کی کی جائے تو اس کے شکار فوج ،ایف سی، پولیس اور دوسری فورسز کے اہلکار، عیسائی، وکیل اور ہر مکتبہ افراد ،اہل تسنُّن کے علماء و مساجد کے خطیب سب ہی رہے ہیں۔ رواں سال اب تک محض کوئٹہ میں37اہلکار جان سے گئے ہیں۔ انہی دنوں جب ہزارہ عوام سراپا احتجاج تھے ۔ طوغی روڈ پر مسجد کے خطیب کا بھائی قتل ہوا۔ جان محمد روڈ پر کئی دکانوں پر اندھا دھند گولیاں برساکر تین دکانداروں کو قتل کیا گیا جن میں نانبائی بھی شامل تھے۔
وزیر قانون نے دہشتگردی کا ملبہ سعودی حکومت پر ڈال دیا کہ وہ امریکا کو خوش کرنے کے لیے ہمارے لوگوں کو قتل کروارہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ افغانستان میں ہزارہ عوام کو داعش یا ان سے جڑی دوسری تنظیمیں کس کے ایماء پر مارہی ہیں۔ وہاں تو ہزارہ مذہبی و سیاسی شخصیات امریکی اتحاد کے تحت حکومت میں شامل ہیں، جنہیں ایران کی بھی حمایت حاصل ہے۔ گویا ایران، افغانستان اور عراق میں امریکا کے اتحادی کا کردار نبھارہا ہے ۔ سعودیوں کے لیے داعش بذات خود ایک چیلنج ہے ۔دیکھا جا ئے توایران اور سعودی عرب دونوں کا کردار مسلم ممالک میں گھنائونا ہے۔ ایران تو پھر بھی دنیا بھر کے شیعہ عوام کے مفادات کے لیے سرگرم ہے۔مگر سعودی عرب تو اہل تسنُّن کے اندر بھی سلفی مسلک کے فروغ اور برتری کے لیے کوشاں ہے۔ مصرمیں اخوان کی حکومت بنی تو امریکہ سے پہلے سعودی شاہ نے اخون المسلمین کو دہشتگرد تنظیم کہہ ڈالا ۔ جنرل سیسی کی اخلاقی، سفارتی اور مالی مدد کی۔ حماس ان کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے۔ دہشتگردی کا لبیل ان پر بھی لگاہے ۔ یعنی سعودی ملوک اسلامی تحریکوں سے خوفزدہ ہیں۔
الغرض جلیلہ ایڈووکیٹ کی ہڑتال سے مجلس وحدت مسلمین کی مقامی لیڈرشپ خاص کر خائف ہوگئی۔ اس خاتون کو برقی، کاغذی اور سوشل میڈیا پر فوقیت حاصل ہوگئی۔ ایسے میں آغا رضا اور اس کی جماعت کو لامحالہ فرنٹ پر آنا ہی تھا۔اور اس دوران ان کی تضاد بیانی بھی عیاں تھی ۔ کیونکہ حکومت کا تو حصہ ہیں ہی پھر دہشتگردی کے سدباب میں ناکامی کا الزام کس کو دیتے۔ حکومت میں نہ ہوتے تو ان کے احتجاج میں نرمی بھی نہ ہوتی۔وزیر قانون آغا رضا نے غالباً جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہزارہ برادری کے احتجاج کو چند شرپسند اور بیرونی ایجنڈے پر کاربند عناصر نے ہائی جیک کرنے کی کوشش کی جسے ہم نے ناکام بنایا اور اپنے جائز مطالبات سول و عسکری قیادت سے منظور کروائے۔ ہمارے احتجاج کو ہائی جیک کرکے اسے ریاست مخالف احتجاج بنایا گیا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو بیرونی ممالک کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور ہم پر پاکستان مخالف ٹھپہ لگانے کی کوشش کی گئی اور ہم نے ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔‘‘ہزارہ عوام مصائب سے دوچار ہیں۔ان کا احتجاج بر حق ہے ۔درحقیقت تحریک عدم اعتماد کے بعد صوبائی حکومت مزید گراوٹ کا شکار ہوئی ہے۔ چناں چہ صوبے میں گورنر راج کا مطالبہ بھی بے معنٰی نہ ہوتا۔