... loading ...
سرزمین کشمیر اپنی تاریخ اور جغرافیا ہی کے اعتبار سے مختلف نہیں بلکہ یہاں اخلاق و کردار بھی بڑا انوکھا ہے بالخصوص ہمارے حکمرانوں اور لیڈروں میں یہ مرض اس قدر گٹھیا اور ناقابل علاج شکل اختیار کر چکا ہے کہ ہر شریف النفس اسے دور بھاگنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے ۔کشمیر میں تحریک کشمیر کے پس منظر میں سیاسی اختلافات نے ’’انسانی قدروں‘‘کو بھی متاثر کردیا ہے اور اس حد تک کر دیا ہے کہ آپ کے تصور سے بھی بالاتر ۔یہاں لوگ سیاسی بنیادوں پر ہی تعزیت اوراظہارِ ہمدردی بھی کرتے ہیں ۔جو جس مسلک ،مکتبہ فکر اور تنظیم سے وابستہ ہے وہ اپنے اُس دائرے میں قابل احترام و عزت تصور کیا جاتا ہے اور جو اسے باہرہے چاہیے وہ کعبۃ اللہ کا امام ہی کیوں نہ ہو ان کو کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا ہے ۔اپنے مسلک ،مکتبہ فکر اور تنظیم کے جاہل کو بھی عالم تصور کیا جاتا ہے جبکہ مخالف مزاج کے ’’عالم دوراں‘‘کو توہین و تضحیک کا نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ہے ۔اس بیماری میں یہاں سیکولر ،لبرل اور مذہبی لوگ برابر کے شریک ہیں ۔1990ء سے اس میں اور بھی شدت آئی ہے ۔کہنے کو مذہبی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ نبی رحمتﷺ بیمار یہودی کی بھی خبرگیری فرماتے تھے مگر ان کا خود کا حال یہ ہے کہ وہ غیر مسلک یا تنظیم کے فرد کو سلام بھی نہیں کرتے ہیں ان کی مسجد میں جا کر ان کے پیچھے نماز پڑھنا تو بہت دور کی بات یہی بیماری یہاں کے سیکولر اورآزاد خیال حکمرانوں میں بھی اسے بھی بدتر حالت میں سرایت کر چکی ہے ۔ جس کا اندازہ آپ اگلے چند سطور میں اچھی طرح لگا سکتے ہیں ۔
2مئی 2018ء کے دن یہ خبر موصول ہوئی کہ شوپیان میں چند ’’سنگبازوں‘‘نے ایک اسکول بس پر پتھراؤ کیا جس میں چند معصوم بچے زخمی ہو گئے جن میں دو کوگہری چوٹیں آئیںتو انہیں علاج معالجے کے لیے سری نگرمنتقل کیا گیا ۔یہ خبر میڈیا تک پہنچنے کی دیر تھی کہ ہر طرف مذمتوں کا طوفان برپا ہوگیا اور یقیناََ یہ واقع قابل مذمت ہے ۔سری نگر سے لیکر دلی تک ہر فرد اور لیڈر اس کے خلاف خوب بول رہا تھا ۔کچھ میری طرح سوشل میڈیا پر آکر اس کی مذمت کرنے لگے اور کچھ نے اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے لیے بیانات جاری کرتے ہو ئے ’’سنگبازوں‘‘کو خوب لتاڑا ۔2مئی 2018ء کی شام کو ٹیلی ویژن چینلز پر اتنا شور شرابا برپا تھا کہ ہر جگہ ایک ہی خبر اور ایک ہی تبصرہ کہ’’کشمیر میں سنگبازوں نے انتہائی خطرناک اور وحشیانہ کام کرتے ہو ئے معصوم طالب علموں کو زخمی کردیا‘‘۔’بے چارے پینلسٹ‘ الفاظ تلاش کرتے ہو ئے سنگبازانِ کشمیر کو جی بھر کر کوس رہے تھے کہ دیکھو کس قدر وحشی اور ظالم لوگ ہیں یہ ایک طرف’’ ملی ٹینٹوں‘‘ کو فوج سے چھڑانے کے لیے پتھراؤ کر کے ان کی مدد کرتے ہیں وہی دوسری طرف اب معصوم اسکولی بچوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔کچھ تجزیہ نگار حکومت کو ہدف تنقید بنانے میں مصروف تھے کہ یہ لوگ سنگبازوں کو گرفتار کرنے کے بعد رہا کر کے کشمیر کے امن کو خطرے میں ڈال رہے ہیں اور رات دیر گئے مجھے اس ساری گفتگو اور بحث و مباحثے میں منافقت کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا اور مجھے لکھے پڑھے مکاروں اور انسانی ہمدردی سے محروم جاہلوں کی عقل پر افسوس ہو رہا تھا کیوں؟
یقیناََ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کہیں میں اسکولی بچوں پر پتھراؤ کو جائزتونہیں سمجھ رہا ہوں؟کہ ان کی ہمدردی میں جنہوں نے دو بول بولے اور جنہوں نے سنگبازوں کی مذمت کی میں الٹا انہی کی مذمت کر رہا ہوں بجائے اس کے کہ میں بھی ان کے ساتھ شریک مذمت ہوجاتا میں انہی کو کوس رہا ہوں۔ جی نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ’’ظلم‘‘کی مذمت کی جانی چاہیے اور مکمل طور پر حوصلہ شکنی بھی ۔چاہیے یہ ظلم ’’مجاہد ‘‘کرے یا فوجی اور پولیس والا ۔نہ کہ یہ کہ جو میرے من مزاج کے مطابق ہو اس ظلم پر خاموشی اور جو من مزاج سے متصادم ہو اس کے لیے جی بھر کر صلواتیں اور بد دعائیں ۔شوپیان ضلع میں 2مئی2018ء کوبہ یک وقت دوواقعات پیش آئے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق جنوبی ضلع شوپیان کے زاوورہ علاقے میں بدھ کی صبح یعنی 2مئی کو اس وقت سنسنی پھیل گئی جب اسکولی بچوں کو لے جارہی ایک بس پر نامعلوم افراد نے پتھرائو کیا۔پتھرائو کی زد میں آکر دو بچے زخمی ہوئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق شوپیان کے زاوورہ روڑ پر صبح ساڑھے نو بجے نامعلوم افراد نے ’’ریمبو پبلک اسکول شوپیان‘‘ کی بس جودیگام شوپیان کی طرف جارہی تھی پر کچھ نامعلوم افراد نے پتھراؤ کیا جس کی وجہ سے بس میں سوار معصوم بچے سہم گئے۔اس واقعے میں دو بچوں کو پتھر لگے۔ جن میں سے ایک ریحان احمد گورسی ولد نورالدین گورسی ساکنہ زم پتھری کیلر جوکہ دوم کلاس کا طالب ہے سر پر پتھر لگنے سے زخمی ہوا جسے بعد میں علاج و معالجہ کے لیے سرینگر کے ایس ایم ایچ ایس اسپتال منتقل کیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) شوپیان شیلندر کمار مشرا نے کہا کہ بچوں نے گاڑی کے بیشتر شیشے کھول رکھے تھے جس کے نتیجے میں پتھر اندر آئے جس کے نتیجے میں ایک بچہ شدید زخمی ہوا۔ ابتدائی علاج کے بعد اسے سری نگر لے جایا گیا۔
حریت چیئرمین سید علی گیلانی نے شوپیان میں اسکولی بس پر پتھراؤ کرنے والے عناصر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تحریک دشمن عناصر پر کڑی نگاہ رکھنے کی اشد ضرورت ہے جو معصوم اور نہتے لوگوں بالخصوص معصوم بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی گھناؤنی حرکتوں کا ارتکاب کررہے ہیں۔ حریت رہنما نے انقلابی تحریکوں کے لیے کردار کی پختگی، نظم وضبط اور صالح سوچ وفکر کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو قومیں ان اوصاف سے خالی ہوں انہیں دنیا میں غلامی اور ضلالت کے دلدل کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ اپنی قوم کے حریت پسند نوجوان نسل سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے حریت چیرمین نے کہا کہ وہ حالات کی نزاکت کو بھانپ لیں۔ ایک طرف دشمن قوتیں کٹھوعہ کی معصوم بیٹی کو اپنی شیطانی ہوس کا نشانہ بناکر انتہائی بے رحمی سے قتل کیے جانے کے واقع کو معمول کا واقع قرار دے کر ہماری انسانی غیرت اور شرافت کو للکاررہے ہیں اور دوسری جانب ہم اپنے نونہال بچوں پر پتھر برساکر جگ ہنسائی کا موقع فراہم کرنے سے شرم بھی محسوس نہیں کررہے ہیں۔ حریت رہنما نے ایسے شیطانی عناصر کو تحریک دشمن قرار دیتے ہوئے ان کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ غاصب طاقتیں ہماری جائز تحریکِ آزادی کو انتشار کے دلدل میں غرق کرنے پر تْلی ہوئی ہیں لہٰذا ہمیں ان کے مکروہ عزائم کو خاک میں ملاکر ناکام ونامراد بناکر پورے نظم وضبط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ میرواعظ کشمیرمحمد عمر فارق نے شوپیاں میںاسکولی بس کے ساتھ پیش آئے واقعہ کو پریشان کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حیران کن ہے کہ جس گاڑی میں اسکولی بچے سوار تھے اسے نشانہ بنایا گیا۔انہوںنے کہا کہ جو افراد اس طرح کی کارروائیوں کو عملاتے ہیں در حقیقت وہ نہ صرف تحریک کو زک پہنچاتے ہیںبلکہ ہمارے مخالفین کوہمیں بدنام کرنے کاموقعہ بھی فراہم کرتے ہیں۔میرواعظ نے کہا تحریک کی حفاظت کرنا ہر ایک کشمیری کا فرض ہے جس کے خاطر آج تک بیش بہا قربانیاں دی جا چکی ہے ۔ محبوبہ مفتی نے واقعہ پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا ’شوپیان میںا سکولی بس پر پتھراؤکے واقعہ کے بارے میں جان کر حیران اور پریشان ہوں۔ اس بزدلانہ حرکت کے ملوثین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا‘۔ نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر عمر عبداللہ نے ٹویٹ میں لکھا ’پتھربازوں کو عام معافی دینے کا مقصد مناسب رویہ کو جنم دینا تھا۔ ان میں سے کچھ غنڈے اس معافی کو مزید پتھراؤ کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ (جاری ہے )