... loading ...
کرنسی سرمایہ داروں کا پرانا ہتھیار ہے اور ہمارے ہاں اسٹیٹ بنک کرنسی مارکیٹ کا ریگو لیٹر مانا جا تا ہے اگر ہم پاکستانی روپے کی قیمت کم ہو نے سے نہ روکیں گے تو مہنگائی کا جن طوفان بن کر اٹھکیلیاں کرتا ہو اہمیں روند ڈالے گاپرانے درآمدی اشیاء کے آرڈرز کے تحت بھی روپے کی قیمت کی کمی کے آثار نمایاں ہو نا شروع ہو جاتے ہیں آمدہ رمضا ن المبارک کے ماہ کے دوران ڈالر کی روز بروز افزونی کی وجہ سے تقریباً سبھی درآمد کی جانے والی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں 18تا25فیصد تک اضافہ ہوجانا قدرتی امر ہو گاالیکٹرونکس کا جدید سامان کراکری ،ادویات کیمیکلز ،جڑ ی بوٹیاں ،قیمتی گھڑیاں و سیلولر فون میک اپ کا سامان اور بچوں کے خشک دودھ کی مارکیٹوں میں مہنگائی کا بھونچال محسوس ہو گاکوئی بھی چیز ہم جس بھی قیمت پر بیرونی ممالک سے خریدیں جب ڈالر کی قیمت بڑھے گی تو لا محالہ اس چیز کی قیمت وہیں پڑی رہنے کے باوجود بڑھ جائے گی مگر سرمایہ داروں کی خصوصی بے ایمانیوں اور سرمایہ پرستی کی وجہ سے جب ڈالر کی قیمت کم ہونے لگتی ہے تو اسی چیز کی قیمت کم ازکم ہمارے ہاں تو کم نہیں ہو تی اس طرح تمام نقصان ہر صورت صارفین برداشت کرتے ہیں۔
پٹرول بم تو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو لازماً حکمران چلاتے جا رہے ہیں جس میںغریبوں کے استعمال والے لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں پٹرول کی نسبت کچھ زیادہ ہی بڑھائی جاتی ہیںتیل کی قیمتیں اگر کبھی روپیہ 2روپیہ کم بھی کی جائیں گی توتیل کی مہنگائی سے اشیاء کی قیمتیں جو بڑھ گئیں تھیں ان کی قیمتوں میں کمی نہیں آتی یعنی ہمیں سرمایہ دار دونوں ہا تھوں سے لوٹتے رہتے ہیں کہ وہ تو سود در سود جیسے دنیا کے کافرانہ غلیظ ترین کاروبار میں ہا تھ رنگتے جاتے رہتے ہیں مگر عوام تک اس کے قطعاً کوئی مفادنہیں پہنچ پاتے یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جو بھاری قرضہ جات ہم نے آئی ایم ایف ورلڈبینک اور دیگربین الاقوامی فنانشل اداروں سے لے رکھے ہیں وہ بھی ڈالر کی قیمت بڑھائے جا رہے ہیں کہ اس کی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی طلب تو لا محالہ قیمتوں کو زیادہ کرڈالتی ہے ہمارے ہاں تو نئے افراد بھی بیرون ممالک کے بڑے بینکوں اور عالمی مالیا تی اداروں کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں۔
آخر شوکت عزیزکیسے ان اداروں کا ملازم ہو تے ہوئے نکل کر ہمارا وزیر اعظم بن بیٹھا تھا؟یہودی سرمایہ داروں نے ہمیں شکنجوں میں کس رکھا ہے ہماری معیشت کا مکمل کنٹرول تمام یہود نواز اداروں کے پاس ہے جو قرضہ دیتے ہوئے ہمیںٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ گھورتے بھی رہتے ہیںوہ وصولیوں کے لیے قیمتوں کو بڑھانے ٹیکس وصول کرنے جیسے احکامات جاری کرتے ہیں اور ہم ان پر عمل درآمد غلاموں کی طرح کرتے نظرآتے ہیںچند سرمایہ پرستوںکا یہ دعویٰ کہ ہماری ایکسپورٹ بڑھائی جائے تو ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت کم ہو جائے گی بالکل انہونی بات لگتی ہے اگر ہم ہو ش مندی سے کام لیں اور فضول و غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر چند سالوں کے لیے پابندی لگادیں تو ہی ڈالر کی قیمتوں میں ہمارے ہاں ٹھہرائو آسکے گا۔
ہم بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی دوبارہ بھیک مانگنے پر مجبور محض ہو چکے ہیں اسی لیے یہودی نصرانی اور سامراجی سرمایہ کار ادارے ہمیں جس طرف ہانکیں ہم ادھرہی مڑنے اور تابعداریاں کرنے پر آمادہ رہتے ہیںاگر ہم اور ہمارے سود خور سرمایہ دار طبقاٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍت اور منہ بولے دام وصول کرنے والے صنعتکاروں نے رویہ نہ بدلا تو ڈالر کی قیمت خرید بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا کئی اشیاء تو بیرون ممالک سے ہمیں درآمد کرنا ہی پڑتی ہیں جن میں ایل این جی ،تیل ،زرعی اشیاء ،کو کنگ آئل وغیرہ اور سی پیک پروجیکٹس کے ضمن میں مشینری وغیرہ درآمد کرنا ہماری مجبوری ہے ویسے نہ تو ہم نے برآمدات کو بڑھانے کی ادنیٰ ترین بھی کوشش کی ہے اور نہ ہی در آمدات کی کمی کی ہے تو پھر ڈالر تو لازماً آسمانوں سے باتیں کرے گا بنیادی معاشی اصلاحات بھی ہم کرنے کو تیار نہ ہیں سیاستدان سبھی اقتداری دیوی کی چھیناجھپٹیوں میں مصروف ہیںاور ایکدوسرے پر تبرے برسانا اور مغلظاتی بارشیں برسانا ان کا شیوہ بن چکا ہے ہمارے جو افراد بیرونی مالیاتی اداروں میں ملازم ہیں ان کا صرف اور صرف مشن اپنے مالک مالیاتی اداروں کی مضبوطی ہے خواہ اس میں پاکستان کا کتنا ہی معاشی نقصان کیوں نہ ہو جائے!”جیدا کھائیے اسے دا گائیے “کی طرح ان کو بھرتی ہی اس مشن پر کیا گیا ہے اور وہ ایسے عمل کوپاک وطن سے غداری بھی نہیں سمجھتے بلکہ مال کمائو ہی ان کی واحد خواہش ہے۔
مہنگائی کی چکی میں پسنے والے افراد خود سوزیوں خود کشیوں اور نہروں تالابوں میں ڈوب نہ مریں تو اور کیا کریں؟ان سے اپنے معصوم بال بچے بھوکوں مرتے نہیں دیکھے جاتے ملک لازماً خدا کی کبریائی کی تحریک اللہ اکبر کی بدولت ہی سودی نظام کی قہر اندازیوں سے نجات پاکر اسلامی فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔