وجود

... loading ...

وجود

سرمایہ داروںکے ہاتھ کھلوناڈالر

جمعه 04 مئی 2018 سرمایہ داروںکے ہاتھ کھلوناڈالر

کرنسی سرمایہ داروں کا پرانا ہتھیار ہے اور ہمارے ہاں اسٹیٹ بنک کرنسی مارکیٹ کا ریگو لیٹر مانا جا تا ہے اگر ہم پاکستانی روپے کی قیمت کم ہو نے سے نہ روکیں گے تو مہنگائی کا جن طوفان بن کر اٹھکیلیاں کرتا ہو اہمیں روند ڈالے گاپرانے درآمدی اشیاء کے آرڈرز کے تحت بھی روپے کی قیمت کی کمی کے آثار نمایاں ہو نا شروع ہو جاتے ہیں آمدہ رمضا ن المبارک کے ماہ کے دوران ڈالر کی روز بروز افزونی کی وجہ سے تقریباً سبھی درآمد کی جانے والی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں 18تا25فیصد تک اضافہ ہوجانا قدرتی امر ہو گاالیکٹرونکس کا جدید سامان کراکری ،ادویات کیمیکلز ،جڑ ی بوٹیاں ،قیمتی گھڑیاں و سیلولر فون میک اپ کا سامان اور بچوں کے خشک دودھ کی مارکیٹوں میں مہنگائی کا بھونچال محسوس ہو گاکوئی بھی چیز ہم جس بھی قیمت پر بیرونی ممالک سے خریدیں جب ڈالر کی قیمت بڑھے گی تو لا محالہ اس چیز کی قیمت وہیں پڑی رہنے کے باوجود بڑھ جائے گی مگر سرمایہ داروں کی خصوصی بے ایمانیوں اور سرمایہ پرستی کی وجہ سے جب ڈالر کی قیمت کم ہونے لگتی ہے تو اسی چیز کی قیمت کم ازکم ہمارے ہاں تو کم نہیں ہو تی اس طرح تمام نقصان ہر صورت صارفین برداشت کرتے ہیں۔

پٹرول بم تو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو لازماً حکمران چلاتے جا رہے ہیں جس میںغریبوں کے استعمال والے لائٹ ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں پٹرول کی نسبت کچھ زیادہ ہی بڑھائی جاتی ہیںتیل کی قیمتیں اگر کبھی روپیہ 2روپیہ کم بھی کی جائیں گی توتیل کی مہنگائی سے اشیاء کی قیمتیں جو بڑھ گئیں تھیں ان کی قیمتوں میں کمی نہیں آتی یعنی ہمیں سرمایہ دار دونوں ہا تھوں سے لوٹتے رہتے ہیں کہ وہ تو سود در سود جیسے دنیا کے کافرانہ غلیظ ترین کاروبار میں ہا تھ رنگتے جاتے رہتے ہیں مگر عوام تک اس کے قطعاً کوئی مفادنہیں پہنچ پاتے یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ جو بھاری قرضہ جات ہم نے آئی ایم ایف ورلڈبینک اور دیگربین الاقوامی فنانشل اداروں سے لے رکھے ہیں وہ بھی ڈالر کی قیمت بڑھائے جا رہے ہیں کہ اس کی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی طلب تو لا محالہ قیمتوں کو زیادہ کرڈالتی ہے ہمارے ہاں تو نئے افراد بھی بیرون ممالک کے بڑے بینکوں اور عالمی مالیا تی اداروں کے تنخواہ دار ملازم ہوتے ہیں۔

آخر شوکت عزیزکیسے ان اداروں کا ملازم ہو تے ہوئے نکل کر ہمارا وزیر اعظم بن بیٹھا تھا؟یہودی سرمایہ داروں نے ہمیں شکنجوں میں کس رکھا ہے ہماری معیشت کا مکمل کنٹرول تمام یہود نواز اداروں کے پاس ہے جو قرضہ دیتے ہوئے ہمیںٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ گھورتے بھی رہتے ہیںوہ وصولیوں کے لیے قیمتوں کو بڑھانے ٹیکس وصول کرنے جیسے احکامات جاری کرتے ہیں اور ہم ان پر عمل درآمد غلاموں کی طرح کرتے نظرآتے ہیںچند سرمایہ پرستوںکا یہ دعویٰ کہ ہماری ایکسپورٹ بڑھائی جائے تو ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت کم ہو جائے گی بالکل انہونی بات لگتی ہے اگر ہم ہو ش مندی سے کام لیں اور فضول و غیر ضروری اشیاء کی درآمد پر چند سالوں کے لیے پابندی لگادیں تو ہی ڈالر کی قیمتوں میں ہمارے ہاں ٹھہرائو آسکے گا۔

ہم بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی دوبارہ بھیک مانگنے پر مجبور محض ہو چکے ہیں اسی لیے یہودی نصرانی اور سامراجی سرمایہ کار ادارے ہمیں جس طرف ہانکیں ہم ادھرہی مڑنے اور تابعداریاں کرنے پر آمادہ رہتے ہیںاگر ہم اور ہمارے سود خور سرمایہ دار طبقاٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍت اور منہ بولے دام وصول کرنے والے صنعتکاروں نے رویہ نہ بدلا تو ڈالر کی قیمت خرید بڑھنے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا کئی اشیاء تو بیرون ممالک سے ہمیں درآمد کرنا ہی پڑتی ہیں جن میں ایل این جی ،تیل ،زرعی اشیاء ،کو کنگ آئل وغیرہ اور سی پیک پروجیکٹس کے ضمن میں مشینری وغیرہ درآمد کرنا ہماری مجبوری ہے ویسے نہ تو ہم نے برآمدات کو بڑھانے کی ادنیٰ ترین بھی کوشش کی ہے اور نہ ہی در آمدات کی کمی کی ہے تو پھر ڈالر تو لازماً آسمانوں سے باتیں کرے گا بنیادی معاشی اصلاحات بھی ہم کرنے کو تیار نہ ہیں سیاستدان سبھی اقتداری دیوی کی چھیناجھپٹیوں میں مصروف ہیںاور ایکدوسرے پر تبرے برسانا اور مغلظاتی بارشیں برسانا ان کا شیوہ بن چکا ہے ہمارے جو افراد بیرونی مالیاتی اداروں میں ملازم ہیں ان کا صرف اور صرف مشن اپنے مالک مالیاتی اداروں کی مضبوطی ہے خواہ اس میں پاکستان کا کتنا ہی معاشی نقصان کیوں نہ ہو جائے!”جیدا کھائیے اسے دا گائیے “کی طرح ان کو بھرتی ہی اس مشن پر کیا گیا ہے اور وہ ایسے عمل کوپاک وطن سے غداری بھی نہیں سمجھتے بلکہ مال کمائو ہی ان کی واحد خواہش ہے۔

مہنگائی کی چکی میں پسنے والے افراد خود سوزیوں خود کشیوں اور نہروں تالابوں میں ڈوب نہ مریں تو اور کیا کریں؟ان سے اپنے معصوم بال بچے بھوکوں مرتے نہیں دیکھے جاتے ملک لازماً خدا کی کبریائی کی تحریک اللہ اکبر کی بدولت ہی سودی نظام کی قہر اندازیوں سے نجات پاکر اسلامی فلاحی مملکت بن سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر