وجود

... loading ...

وجود

دہشت گردی کی نئی لہر

جمعرات 03 مئی 2018 دہشت گردی کی نئی لہر

امریکاکے عراق اور افغانستان پر فوجی قبضے کے بعد دہشتگردی کو فروغ ملا ہے۔ داعش نے عراق سے سراُٹھایا ۔ اس کی شاخیں کئی ممالک تک پھیل گئیں۔ یہ تنظیم دوسری دہشتگرد تنطیموں کے لیے بھی مرکزی حیثیت کی حامل بنی۔ افغانستان کے جنگجو اس پرچم کے نیچے جمع ہونا شروع ہوئے۔ امریکا نے القاعدہ ختم کرنے کے لیے افغانستان پر فوجی یلغار کردی۔وہ ختم ہوئے مگر جنگ افغانستان پر جاری رکھی۔یقینی طور پر مقصد افغانستان پر قبضہ کرنا تھا جس میں وہ اپنے افغان ہمنواوں کے تعاون سے کامیاب ہوا۔ اس طرح مقبوضہ افغانستان میں داعش کے نام سے مسلح جتھے مضبوط ہوگئے ،جس کے لیے الزام امریکا کو دیا جاتا ہے۔ یہ کہ امریکا ہی کے زیر سایہ داعش پھل پھول رہی ہے۔ گویا امریکا کی وجہ سے دہشتگردی کونئی صورت مل گئی۔ القاعدہ کے منتشر ہونے والے جنگجوئوں کو پاکستان کے قبائلی علاقوں (فاٹا) کی تنظیموں نے پاس رکھا ۔آپریشن ضرب عضب کے بعد یہ دہشتگرد گروہ افغانستان منتقل ہوگئے۔ جہاں ان کے اور داعش کے تانے بانے جڑ گئے ہیں ۔ داعش نے افغانستان میں بھی تباہ کن کاروا ئیاں جاری کررکھی ہیں۔ پچھلے دنوں کابل میں انتخابی اندراج کے مرکز کے باہر خودکش حملے میں57 افراد مارے گئے۔

تازہ مثال کابل میں تیس اپریل کے یکے بعد دیگرے خود کش حملے ہیں ، جس میں 29افراد جن میں دس صحافی ہیں جو پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے لقمہ اجل بن گئے۔اس حکمت عملی کے تحت کوئٹہ کے اندر متعدد خود کش حملے ہو چکے ہیں۔دھماکہ کیا جاتا ہے جب فورسز ،امدادی ٹیمیں اور شہری اکٹھے ہوتے تو دوسرا کر دیا جاتا۔ ان تنظیموں نے پاکستان کو برابر نشانے پر رکھا ہے۔ حالانکہ ان کے خلاف آپریشن ردُ الفساد متوازی طور پر جاری ہے۔ اگر ہم بات بلوچستان یا کوئٹہ کی کریں تو رواں سال اب تک انسان کشی کے درجنوں واقعات میں پچاس سے زائد افراد قتل کیے جاچکے ہیں جن میں، پولیس، ایف سی ، ہزارہ اور مسیحی برادری کے سمیت ہر طبقہ فکر کے افراد شامل ہیں۔ ذمہ داریاں افغانستان میں موجود دہشتگرد گروہ تسلیم کرچکے ہیں۔یعنی حالیہ دنوںدہشت گردی خاص کر ہدفی قتل کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔24اپریل کو ایئر پورٹ روڈ پر بلوچستان کانسٹیبلری کے ٹرک کو موٹرسائیکل سوار حملہ آور نے نشانہ بنایا ۔چھ پولیس اہلکار جان کی بازی ہارگئے ، آٹھ زخمی ہوگئے۔ ایئرپورٹ روڈ پر اس دن سیکورٹی کے انتظامات کیے گئے تھے کہ آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود احمد خان کی کوئٹہ آمد تھی۔ وہ پہنچ گئے اس کے بعد اہلکار جانے لگے کہ اس اثناء ان پر خودکش حملہ ہوا۔ ان ہدفی حملوں سے جان خلاصی مستقل قریب میں دکھائی نہیں دیتی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کی افغانستان میں موجودگی کسی شر سے خالی نہیں ہے ۔افغانستان کی آزادی سے امن مشروط ہے ۔چنانچہ ہونا یہ چاہیے کہ خطے میں امن کی خاطر افغانستان سے امریکی انخلاء یقینی بنانے کے لیے زبردست سیاسی تحریک شروع ہو۔ پاکستان اور افغانستان کے اندر بالخصوص اس کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کو امن کے مسائل کا سامنا ہے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اسی طرح وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کہہ چکے ہیں کہ 20خودکش حملہ آور اور ٹارگٹ کلرز کے دو گروہ پکڑے جاچکے ہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو کامیابیاں ملی ہیں ۔ کئی دہشتگرد مارے جاچکے ہیں۔ مگر چند دن سکون رہتا ہے کہ پھر سے امن کے دشمن منظم ہوجاتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ ان کے کیمپ افغانستان میں موجود ہیں۔ وہاں سے ان کی بھرتی ہوتی ہے تربیت دی جاتی ہے اور وہیں سے کاروائی کی ہدایت دی جاتی ہے مقامی نوجوان ان کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں۔ یہ مقامی افراد شہر سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں ا س بناء انہیں اپنے غیر اسلامی وغیر انسانی عزائم میں کامیابی مل جاتی ہے۔ ایئر پورٹ روڈ کے خونی سانحے کے بعد عبدالقدوس بزنجو افغان مہاجرین پر لال پیلے ہوگئے۔ کہا ’’افغان مہاجرین کی کھلے دل سے مہمان نوازی کی گئی اور اس بدلے ہمیں بدامنی ملی اب اور مہمان نوازی نہیں کرسکتے۔‘‘ اب اس میں افغان مہاجرین کا کیا قصور ہے ۔ وہ بیچارے تو افغانستان پر روسی قبضے کے بعد جان کی سلامتی کے لیے پاکستان آئے اور پاکستان کی اس وقت کی حکومت نے ان لٹے پٹے افغانوں کو خوش آمدید کہا ۔ افغانوں نے روسی افواج کے خلاف مزاحمت شروع کی افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان کی سلامتی یقینی بن گئی۔ افغان روسیوں کے آگے سیسہ پلائی دیوار نہ بنتے تو معلوم نہیں آج پاکستان کا نقشہ کیا سے کیا ہوتا۔ اورعبدالقدوس بزنجو اور اس قبیل کے دوسرے لوگ آج پتہ نہیں کس کی فرمانبرداری اور خدمت میں لگے ہو تے ۔ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کی باعزت واپسی ضرور ہونی چاہیے اور یہ عمل وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔

طالبان دورحکومت میں جب وہاں امن قائم ہوا تو افغان باشندے بڑی تعداد میں جانے لگے۔ امریکا کے ہاتھوں افغانستان تاراج ہوا تو نہ صرف واپسی کا عمل رکھا بلکہ الٹا پھر سے پاکستان کی طرف نقل مکانی شروع ہوگئی۔ افغانستان سے جن مسائل اور خطرات کا پاکستان کو سامنا ہے یہ سب پرویز مشرف کی کارستانیاں ہیں۔ اس آمرنے امریکی جنگ میں شریک ہوکر پاکستان کی سلامتی دائو پر لگادی، ملک کا امن غارت کردیا۔امریکی فوجیوں کی آمد کے ساتھ ہی بلوچ شدت پسند منظم ہوگئے۔ عبدالقدوس بزنجو اپنے علاقے آواران نہیں جاسکتے ۔ صوبائی دارالحکومت کے محفوظ ترین مقا م یعنی کو ئٹہ کی فوجی چھائونی میں رہائش پذیر ہیں۔ یقینا بلوچ شدت پسند ہی عبدالقدوس بزنجو اور ان کے خاندان کے درپے ہیں۔ گویا آمر پرویز مشرف نے پاکستان کی محسن افغان قوم کو امریکا کے ساتھ ملکر تباہی و بربادی سے دو چار کیا۔ دیکھا جائے تو افغانوں پر اس ظلم میں پاکستان برابر کا شریک رہا ہے ۔ یہ حزب اسلامی افغانستا ن اورامارات اسلامیہ ہی ہے کہ ’’را‘‘ اور افغانستان کے اندر پاکستان دشمن عناصر کو لگام لگی ہے ۔ افغانوں کی مزاحمت نے ان کے آگے بند باندھ رکھا ہے وگرنہ وہ کب کے پاکستان پر چڑھ دوڑ چکے ہوتے۔ گویا ہمیں آج بھی افغانوں کا احسان مند ہونا چاہیے ۔یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ ہم ماضی میںامارت اسلامیہ اور ناہی حزب اسلامی سے وفا کر سکے ہیں۔ پاکستان میں تعینات طالبان دور کے افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کی امریکیوں کو حوالگی، جس کو ہماری سرزمین پر امریکیوں نے ذدوکوب کرنا شروع کیا ۔اور گوانتا نوبے میں قیدی بنا کر طویل عرصہ اذیتوں سے دوچار کیے رکھا، سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی ،بلکہ ہماری وفا پر سوالات اُٹھے ہیں۔اور یہ ساری ذیادتیاں وہ فراموش نہیں کر سکے ہیں۔ افغانوں کے بغیر پاکستان یہ جنگ جیت نہیں سکتا۔ لہٰذا افغان مہاجرین کو نفرت کا نشانہ بنا نے سے بھی گریز ہو نا چاہئے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر