... loading ...
آصف ثاقب
بات یہ بھی ہے ایک باتوں میں
لوگ اعلیٰ ہیں نیچ ذاتوں میں
کوئی مجھ سا غریب کیا ہو گا
میں اکیلا ہوں کائناتوں میں
میں اکیلا بہت اکیلا ہوں
اب تو دینا ہے ہاتھ ہاتھوں میں
روشنائی بنائی لکھنے کو
چاند گھولا ہے کالی راتوں میں
جانے کس کس کی ڈولیاں آئیں
سب ستارے گئے براتوں میں
کیسے لکھوں میں سرخ تحریریں
خون کالا پڑا دواتوں میں
جھوٹ اس میں نہیں کوئی ثاقب
پیار سچا ملا دیہاتوں میں
آصف رضارضوی
اظہار میں پہلی سی وہ نفرت تو نہیں ہے
یہ اور کوئی شے ہے، محبت تو نہیں ہے
بدلی ہوئی نظریں ہیں یہ کیوںا ہل وطن کی
قسمت میں کہیں دوسری ہجرت تو نہیں ہے
دم توڑتے لوگ اب بھی یہی سوچ رہے ہیں
اے ارضِ وطن خوں کی ضرورت تو نہیں ہے
دیتا ہے یہی درس ہمیں قِصّۂ ماضی
حق مانگنا غاصب سے بغاوت تو نہیں ہے
آنکھوں میں سلگتی نظر آتی ہے کدورت
لوگوں میں وہ پہلی سی رفاقت تو نہیں ہے
دامن پہ جو اشکوں سے نمایاں ہوئی تحریر
یہ غم کا صحیفہ ہے، حکایت تو نہیں ہے
میں سوچتا ہوں رات کی تنہائی میں اکثر
مجھ سے کسی انساں کو شکایت تو نہیں ہے
آصف شفیع
لوگ وابستہ ہیں اس یارِ طرح دار کے ساتھ
اب بھی بیٹھے ہیں کئی سایۂ دیوار کے ساتھ
قیمتِ شوق بڑھی ایک ہی انکار کے ساتھ
واقعہ کچھ تو ہوا چشمِ خریدار کے ساتھ
ایسا لگتا ہے کسی دشت میں آنکلے ہیں
کتنی اُلفت تھی ہمیں صحن کے اشجار کے ساتھ
ہر کوئی جان بچانے کے لیے دوڑ پڑا
کون تھا آخرِ دم قافلہ سالار کے ساتھ
ظُلم سے ہاتھ اُٹھانا نہیں آتا ہے تو پھر
کچھ رعایت ہی کرو اپنے گرفتار کے ساتھ
حد سے بڑھ کر بھی تغافل نہیں اچھا ہوتا
کچھ تعلق بھی تو رکھتے ہیں پرستار کے ساتھ
میں ترے خواب سے آگے بھی نکل سکتا ہوں
دیکھ مجھ کو نہ ـــپرکھ وقت کی رفتار کے ساتھ
آزادحسین آزاد
پاؤں دیکھے گی نہ تاخیر کا دکھ سمجھے گی
کیسے منزل کسی رہ گیر کا دکھ سمجھے گی
کب سماعت پہ کوئی حرفِ صدا اُترے گا
کب وہ دستک مری زنجیر کا دکھ سمجھے گی
عکس کر دوں گا میں دیوار پر اپنا چہرہ
اور دنیا اسے تصویر کا دکھ سمجھے گی
ہنستے ہنستے ہی سنے گی وہ مری غزلوں کو
پھر مرے درد کو بھی میر کا دکھ سمجھے گی
کیسے اوراق بتائیں گے کہانی میری
ڈائری کیوں مری تحریر کا دکھ سمجھے گی
جو نئے خواب کی بانہوں میں ہے بے سدھ سوئی
جاگ جائے گی تو تعبیر کا دکھ سمجھے گی
میں وراثت میں ملا تاج محل ہوں اس کو
مجھ کو ہارے گی تو تسخیر کا دکھ سمجھے گی
مجھ کو بھولی ہے جو شہرت کو اثاثہ جانے
خود سے بچھڑے گی تو تشہیر کا دکھ سمجھے گی
سید علی رضوی
رات دن نام اُن کا رَٹنے دو
بن کے جوگی کہیں پہ کھپنے دو
منظر عام سے ذرا پہلے
منظرِ خاص تک پہنچنے دو
ٹھیک ہے چھوڑ کر چلے جانا
پر مرا عشق تو پنپنے دو
ہو رفاقت بنا محبت ہو
چار آنکھیں ہوئیں ہیں سپنے دو
دل مرے سیر کیوں نہیں ہوتا
اوہ ہو! آنکھ تو جھپکنے دو
خود ہی اک دن بنوں گا میں گلزار
عشق کی آگ ہے بھڑکنے دو