... loading ...
(قسط نمبر:2)
آخری حد یہ کہ بارایسوسیشن کٹھوعہ نے اس پر جموں بند کی کال دیکر اپنی بے رحمی اور سنگدلی کا ناقابل انکار ثبوت پیش کردیا ۔جس پر جموں کی تاجرانجمنوں کے فورم نے خود کو جموں بارایسوسی ایشن کی ہڑتال کال سے الگ کرلیا۔جموں چیمبرآف کامرس اینڈاندسٹریز کے صدرپرکاش گپتانے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہاکہ وہ مختلف معاملات پرجموں بارایسوسی ایشن کی جانب سے دی گئی یک روزہ ہڑتال کال کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ کوئی احتجاجی پروگرام یاہڑتال کال دینے سے پہلے مختلف معاملات پرجموں بارایسوسی ایشن نے جموں چیمبرآف کامرس اینڈاندسٹریزکیساتھ نہ توکوئی مشاورت کی اورنہ مطالبات کاایجنڈامرتب کرتے وقت ہمیں اعتمادمیں ہی لیاگیا۔پرکاش گپتانے کہاکہ جموں کے تاجر،کاروباری افراداورصنعت کارکسی بھی طورآصفہ کیس کے سلسلے میں جموں بارایسوسی ایشن کے اختیارکردہ موقف کوصحیح نہیں مانتے اورنہ ہمیں بارایسوسی ایشن کی جانب سے اْٹھائے گئے دیگرمعاملات پرکوئی اتفاق ہے۔انہوں نے کہاکہ جب ہائی کورٹ کٹھوعہ کیس کی تحقیقات پرروزانہ بنیادوں پرنظررکھے ہوئے ہے تواس تحقیقاتی عمل اورقانونی کارروائی کی مخالفت کرناہی بلاجوازہے۔پرکاش گپتاکاکہناتھاکہ ہم کرائم برانچ کی جانب سے کی جارہی تحقیقات کی حمایت کرتے ہیں اورہم اسبات کے طرفدارہیں کہ جن لوگوں نے آٹھ سالہ معصوم بچی کااغواکرنے کے بعداس کی آبروریزی کی اورپھراس کمسن بچی کوموت کی نیندسلادیا،اْن سبھی ملزمان کوسلاخوں کے پیچھے ڈالکرسخت سزادی جائے۔جموں چیمبرکے صدرنے کہاکہ یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک انسانی اورقانونی معاملہ ہے ،اوریہ کہ ہم آصفہ کیس کومذہبی عینک لگاکرنہیں دیکھتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ سنگین نوعیت کاجرم انجام دیا،اْن کوقانون کے کٹہرے میں لاکھڑاکیاجائے۔
پولیس نے آصفہ کیس کا چالان پیش کرنے کے دوران ہنگامہ کرنے اور کرائم برانچ ٹیم کو زبردستی روکنے پر وکلاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا ہے۔اس دوران کرائم برانچ نے نابالغ ملزم کیخلاف بھی ضمنی چارج شیٹ عدالت میں پیش کردی ۔جموں و کشمیر کی آزادی پسندقیادت نے اپنے مشترکہ بیان میں کٹھوعہ کی 8سالہ معصوم آصفہ عصمت ریزی اور بہیمانہ قتل کے معاملے میں کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن اور جموںکے کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے مداخلت اور رکاوٹیں ڈالنے اور اس حوالے سے جموں بندھ کی کال کو اخلاقی دیوالیہ پن کی انتہا سے تعبیر کرتے ہوئے کہاہے کہ دنیا کے کسی بھی مہذب معاشرے میں اس قسم کی مثال نہیں ملتی جب ایک کمسن اور معصوم بچی کی پہلے عصمت ریزی اور پھر بعد میں بہیمانہ قتل میںملوث قاتلوں کو بچانے کے لیے اس طرح کا عمل دہرایا گیا ہو۔قائدین نے کہا کہ کٹھوعہ بار ایسو سی ایشن سے وابستہ وکلاء کا یہ عمل شرمناک ، تعصب اور تنگ نظری سے عبارت ایسا رویہ ہے جو حد درجہ قابل مذمت ہے۔قائدین نے کہا کہ وکلاء جو کسی بھی سماج اور سوسائٹی کے اہم ارکان اور عدل و انصاف کے علمبردار ہوتے ہیں کاآصفہ قتل کیس میں ان کا کردار انتہا پسندانہ سیاست کاری سے عبارت ہے۔انہوں نے کہا کہ دلی میںنربھیا واقعہ میںبلا امتیاز بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں ، سول سوسائٹی اور دانشوروں نے تاریخ ساز احتجاج کرکے پورے بھارت اور وہاں کی سیاسی قیادت کو مجبور کردیا تھا یہاں تک کہ اس واقعہ میں متاثرہ لواحقین کو انصاف فراہم کیا گیا تاہم آصفہ کیس میں ان کی پْر اسرار اور مجرمانہ خاموشی ان کے دوہرے معیار کا عکاس اور حد درجہ افسوسناک ہے۔قائدین نے آصفہ معاملے میں اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ شاید اس معصوم بچی کا تعلق چونکہ ایک خاص طبقے کے ساتھ ہے اسی لیے اس کے تئیں امتیاز برتا جارہا ہے جبکہ اس وحشیانہ ہلاکت کو انسانیت اور عدل و انصاف کے نقطہ نظر سے دیکھا جانا چاہئے جیسا کہ نربھیا معاملے میں پورا بھارت ایک آواز ہوکر اٹھا کھڑا ہوا تھا۔
کٹھوعہ کے وکلاء کے اس رویے سے یہ بات صاف ہوگئی کہ مروجہ تعلیم اتنے اعلیٰ ڈگری یافتہ لوگوں کو بھی ’’ انسانیت کا ہمدرد‘‘بنانے میں نا کام رہی ہے ۔یہ خود نہ صرف تعلیمی ماہرین کے لیے مقام عبرت ہے بلکہ ہندوستان کی وکلاء برادری کے لیے بھی ایک امتحان ہے کہ آیا وہ اجتماعی طور پر اس ظالمانہ رویہ کو مسترد کرتے ہیں یا یہ کہ وہ بھی مظلوم کے بجائے ظالم کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔عدل و انصاف کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا شرمناک ترین واقعہ ہے بلکہ یہ وکلاء کی تاریخ پر ایک ایسا دھبہ ہے جس کو وہ لاکھ بیانات۔
ہزارہا سیمناروں سے دھو نہیں سکتے ہیں ۔اس لیے کہ وکلاء کو تمام شعبہائے حیات کے مقابلے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ جس فرد اور انسان کی شنوائی کہیں نہیں ہو سکتی ہے اس کی شنوائی عدالت میں ہوتی ہے اور جس کو کہیں بھی انصاف نہیں مل سکتا ہے اس کو وکلاء عدالتوں سے انصاف دلاتے ہیں ۔اب جب عدالتوں میں ہی وکلاء برادری اجتماعی طور پر عدل و انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالدیں تو آپ کیسے کسی سے انصاف کی توقع کر سکتے ہیں۔کٹھوعہ کے وکلاء نے ایسا صرف مسلمانوں سے نفرت و عداوت میں کیا ہے اور سارا بھارت تماشا دیکھ کر خاموش ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس سماج میں اخلاقیات کے ترجمان اس سطح تک پہنچ چکے ہوں گے اس سماج کے ’’رہزن اور ڈاکو‘‘کیسے ہوں گے ؟جہاں انصاف کے علمبرداروں کی حالت ایسی پست ہو گی کہ ان کے ہاں انسانیت کی کون سی قیمت ہوگی ور اس سماج کے پولیس والے کی حالت کیا ہو گی ؟جس سند یافتہ وکیل اور ان کی بڑی جماعت کی ذہنی حالت یہ ہو اس سماج کے چوراور ڈاکو کتنے بے رحم ہو ں گے ؟کٹھوعہ کے وکلاء کا ’’قاتل اور زانی ‘‘کے حق میں ریلی اور احتجاج نے یہ ثابت کردیا کہ ان کے سینوں میں دل نہیں پتھر ہیں ۔انہیں ایک معصوم سی کلی کو جانور کی طرح گاؤخانے میں آٹھ روز تک قید رکھنے جیسے ظلمِ عظیم پرجب رحم نہیں آیا تو ان کے نزدیک پھر قابل رحم کون ہوگا؟جنہیں معلوم ہے کہ آصفہ کو جس درندے نے آٹھ روز تک نشے کی حالت میں رکھ کر’’حیوانیت‘‘کا نشانہ بنا کر اپنے چہرے پر غلاظت مل لی اس کے باوجود ان کا اس کے حق میں تڑپ اٹھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کٹھوعہ کے یہ لوگ انسانیت کے ماتھے پر ایک کلنک ہیں جن کے لیے کم سے کم انسانی سماج میں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ انہیں مسلمانوں سے کس قدر نفرت اور عداوت ہے ؟ نہیں تو انہیں اتنا پست کام کرنا زیب نہیں دیتا تھا ۔یہ بات بھی میڈیا کی وساطت سے ثابت ہو چکی ہے کہ یہ سازش حکمران جماعت کے چندافراد نے بالعموم اور آر ایس ایس کے پرچارکوں نے بالخصوص صرف اس لیے رچائی تھی کہ وہ کٹھوعہ سے مسلمانوں کا جبری انخلا چاہتے ہیں ۔ان باتوں سے اہل اسلام کو باخبر ہو جانا چاہیے کہ ہمارا دشمن کتنا بے رحم،سفاک اور خوفناک عزائم رکھتا ہے ۔یہ مین اسٹریم جماعتوں کے لیے بھی ایک اور سبق ہے جو اپنی ہی قوم کے ساتھ سن سنتالیس سے برسرِ پیکار ہیں تاکہ نئی دہلی کی آشیرواد اور داد انہیں ملتی رہے ۔ ان لکھے پڑھے وکلا (جنہیں جہلا کہنا زیادہ مناسب ہے)کاآصفہ کی روح سے انتقام کی اس جنگ میں پہلے ہی دن ذلت و خواری کا شکار ہونا پڑا اور یقیناََ وہ ناکام ہوں گے اس لیے کہ صوبہ جموں کے اکثر ہندؤں نے ان کو شدت کے ساتھ رد کردیاہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ بھارت بھر کے ہندؤں کو چاہیے کہ وہ بغیر کسی تعصب کے اس اقدام کی بھرپور مذمت کریں نہیں تو اسے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندؤ اب مذہبی اختلافات کی آڑ میں مسلمانوں کی بہو بیٹیوں کی عزتوں کو لوٹ کر قتل کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہونے کو تیارہیں۔ہندو برادری کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت سے پوری قوت اور شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کر ے کہ مجرموں کو سزا دیکر تختہ دار پر لٹکا کر ایک مثال قائم کی جائے تاکہ آئندہ کوئی مجرم ایسی گھناونی حرکت انجام دینے سے پہلے ہزار مرتبہ غور کرنے پر مجبور ہو جائے ۔ (ختم شد)