وجود

... loading ...

وجود

اس دہشت گردی کے پیچھے کون ہے ؟

جمعرات 19 اپریل 2018 اس دہشت گردی کے پیچھے کون ہے ؟

اکتوبر 1917ء کے اشتراکی انقلاب سے قبل زار شاہی نے اپنی سرحدوں کی توسیع کی سامراجی پالیسی اپنا رکھی تھی ۔ کمیونسٹ انقلاب کے بعد وہی استعماری و سامراجی نظام و چلن الگ جا مہ و صورت کے ساتھ رائج رہا۔ ان کی نظریاتی تبلیغ کا دائرہ مؤثر اور وسیع تھا۔ افغانستان کی افسر شاہی، فوج اور تعلیمی اداروں میں بھی ان کا لٹریچر پہنچ چکا تھا ۔ ظاہر شاہ کے دور ہی میں ایک حلقہ ہمنوا بن گیا ۔ظاہر شاہ کا وزیر اعظم سردار دائود کے ابتدائی ایام میں کمیونسٹ نظریات سے تعارف ہو اور حلقہ یاراں میں شامل ہوگئے تھے۔ظاہر شاہ کو بے دخل کرکے خود ملک کے صدر بن گئے۔ چناں چہ سردار دائود کے خلاف روس کی کمیونسٹ اشرافیہ 27 اپریل1978ء میں افغانستان پر گروہی آمریت قائم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ پرانا دوست سردار دائود آڑے آیا تو اسے خاندان سمیت فنا کے گھاٹ اتاردیا ۔ اس گروہی آمریت کی قیادت نور محمد ترہ کئی کررہے تھے۔ یہ دور روس میں ’’لیونڈ بر ژنیف‘‘ کی صدارت کا تھا۔ جس کی قیادت میں روس نے اتحادیوں کیساتھ ملکر کئی ممالک تک اپنا سایہ پھیلا رکھا تھا۔ افغانستان میں اس انقلاب کے خلاف افغانوں نے مزاحمت شروع کردی۔ اس کے علیٰ الرغم کمیونسٹ تخت کابل کے حصول کے لیے آپس ہی میں متصادم تھے۔اس انقلاب سے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان اور ایران تحفظ کے خوف کا شکار ہوگئے۔ ایران میں امام خمینی کی قیادت میں بادہشاہت کے خلاف انقلاب کامیاب ہوچکا تھا۔اس تازہ انقلاب کو اب کمیونسٹوں کا خوف دامنِ گیر تھا ۔جس کے پیش نظر ایران کی نئی حکومت نے بھی پیش بندی شروع کردی۔

پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی ڈیورنڈ لائن، پشتونستان تحریک جیسی پریشانیوں میں مبتلا تھا۔ پشتونستان تحریک ساٹھ کی دہائی میں افغانستان میں منظم کی گئی ۔خان عبدالغفار خان نے پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی سے اپنے خطاب میں پاکستان کو تسلیم کرلیا تھا۔ البتہ پشتون صوبے کا نام اور مکمل صوبائی خود مختاری کا مطالبہ بھی پیش کیا۔ بعد ازاں اس تلا مذہ کے چندپشتون علیحدگی کی راہ پر چل نکلے ۔ 60اور پھر70 کی دہائی میں پشتون رہنماء بھی کابل میں سکونت پذیر یا پناہ گزین بن گئے۔ ان کو کابل سرکار کی طرف سے زندگی کی تمام ضروریات و سہولیات مہیا کی گئی تھیں۔ پشتونستان دن سرکاری سطح پر منایا جاتا۔ یہ رہنما اور دانشور ریڈیو کابل کے ذریعے تبلیغات بھی کرتے۔ ویسے بھی کابل ریڈیو سے پشتونستان اور پشتون ملت کی وحدت کے لیے باقاعدہ اور منظم طریقے سے ابلاغ ہوتی تھی۔ علیحدگی کے تصور کو عام کرنے کی خاطر وسیع لٹریچر پر کام ہوا۔ یہ لٹریچرپاکستان کے اندر بھی سیاسی کارکنوں، ادیبوں ، دانشوروں اور طلباء کے ہاتھوں تک پہنچ گیا۔1950-51ء میں ایک وفد اس وقت کے پاکستان کے سربراہ کی قیادت میں امریکا کے دورے پر گیا تو واشنگٹن میں ’’پشتونستان‘‘ کے حق میں مظاہرہ ہوا۔ امریکا میں آزاد پشتونستان انجمن کے نام سے تنظیم کام کررہی تھی۔ افغانستان میں کشت و خون کی بنیاد پر قائم ہونیوالی اس گروہی آمریت کے بعد جیسے پنڈورا باکس کھلا ۔ افغانستان تو تہہ و بالا ہو ہی گیا، بدیہی طور، بد امنی، تخریب اور دہشتگردی نے پا کستان کے گوشہ گوشہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس زمانے میں سندھ کے اندر علیحدگی کی ایک کمزور آواز تھی۔

بلوچستان میں مسلح مزاحمت نے کئی جلوے دکھائے ۔پانچویں مزاحمت پرویز مشرف کی آمریت میں جلوہ گر ہوئی ۔جس پر قابو پاتے پاتے ایک عشرہ سے زیادہ عرصہ لگا۔ مزاحمتی گر وہوں کا قطعی قلع قمع نہ ہوسکا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔ یہ نئی سوغات افغا نستان پراکتوبر2001ء کے امریکی حملے اورقبضے کے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے فاٹا میں گویا غیر اعلانیہ ریاست قائم کرلی ۔جہاں سے ملک بھر میں موجود مذہبی شدت پسند گروہوں کو منظم اور توانا کیاگیا۔ آپریشن ضرب عضب سے قبل ہی ان مسلح جتھوں کو افغانستان کے اندر بھارتی خفیہ ادارے راء کی چھتری میسر آگئی۔ ان گروہوں نے بلاشبہ پاکستان کو تباہی سے دوچار کئے رکھا ۔ آپریشن کی کامیابی کے بعد بھی پاکستان کا کوئی حصہ ان کی دہشتگردی اور سفاکانہ حملوں سے محفوظ نہ رہ سکا ہے۔گویا پاکستان کی افواج اب بھی حالت جنگ میں ہے۔غر ضیکہ پشتونستان تحریک کچل دی گئی ۔ ظاہر ہے کوئی جماعت اپنی خفیہ تحریک اور سیاسی عملیات کاعلانیہ اظہار نہیں کرتی۔ چونکہ عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنماء کابل میں مقیم تھے اور ریڈیو کابل پر ان کے پروگرام مخفی نہ تھے ،جو اس امر کی غماز تھی کہ یہ جماعت افغانستان ، سویت یونین اور بھارت کی حمایت اور کمک سے پشتونستان کی تحریک چلارہی ہے۔ افغانستان میں جب تک ڈاکٹر نجیب کچھ نہ کچھ طاقت میں تھے تو ایک موہوم امید پھر بھی بندھی رہی ۔ وہ امیدیں بھی آخر کار دم توڑ گئیں۔ رہنمائوں نے بھی واپسی کی راہ لی، اورپاکستان کے اندر سیاسی عمل میں پھر سے حصہ لینا شروع کردیا۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد لاکھوں قبائلی عوام افغانستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہجرت پر مجبور ہوگئے ۔ ظاہر ہے کہ آپریشن کے دوران ان آبادیوں اور بازاروں کو شدید نقصان سے دو چار ہونا پڑا ، عمارتیں نا قابل استعمال ہوگئیں ۔ ان علاقوں میں ماورائے عدالت قتل، گرفتاریوں اور ناکوں پر چیکنگ جیسے مسائل ابھرے۔یقینا بڑا زمانہ سکوت رہا ۔

فاٹا میں میڈیا،انسانی حقوق کی تنظیموں اور دوسرے رفاعی اور فلاحی اداروں کے کارکنوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے ۔ بالآخر ان مسائل پر بولنا شروع ہوا۔یقینا وہاں کے باشندوں نے قانونی چارہ جوئی کی کوشش بھی کی ہوگی تاہم پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے نوجوانوں نے الگ جہت سے بولنا شروع کردیا ۔جن کی سربراہی جنوبی وزیر ستان سے تعلق رکھنے والا محسود کا نوجوان منظور پشتین کررہا ہے۔ کراچی میں رائو انوار کے ہاتھوں نقیب محسود کے قتل کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ کو عالمگیر شہرت مل گئی ۔کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور سمیت ملک کے بڑے شہروں میں عوامی اجتماعات کرچکی ہے ۔شمالی بلوچستان کے دیگر علاقوں اور کوئٹہ میں بھی عوامی جلسے ہوئے جس سے پشتونخواملی عوامی پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ ان تقاریر کے نتیجے میں ان پر مختلف تھانوں میں مقدمات درج کئے گئے۔ پشتونخوامیپ کے رہنمائوں نے بلوچستان ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔عدالت نے تمام مقدمات کالعدم کر دیئے۔اور متعلقہ اتھارٹیز سے جواب طلب کیا۔ ہم ان سطور میں لکھ چکے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ماورائے عدالت قتل، گرفتاریوں، آئی ڈی پیز کی اپنے علاقوں میں آباد کاری اور چیک پوسٹوں پر عزت نفس کی پامالی او بارودی سرنگوں کی صفائی جیسے مطالبات درست اور جائز ہیں، جس سے کوئی شائد انکار بھی نہ کرے یقینا بشری حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر ملک کے ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں بلکہ ضرور کریں گی۔

مگر ملک مخالف رجحان اگر پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس راہ و سفر میں منظور پشتین اور اس کے ساتھی تنہا ہوں گے۔ یقینی طور پر فاٹا کے عوام کے مسائل رفع ہونے کی بجائے کچھ اور ہی بھیانک صورتحال جنم لینے کا خدشہ اور امکان پیدا ہوسکتا ہے۔بلکہ مجھے تو اس کے ٓاثار بڑے روشن دکھائی دیتے ہیں۔ اپنی ذات کی حد تک میں یہ کہنا قبل از وقت سمجھتا ہوں کہ پشتون تحفظ موومنٹ کو بھارتی خفیہ ایجنسی را ، افغانستان کے خفیہ ادارے این ڈی ایس یا کسی کی تخریبی نیت اور سوچ کی حمایت حاصل ہے۔ مگر یہ سوال بھی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان کے اندر کسی تنظیم کے مطالبات اور احتجاج پر بھارت اور افغانستان کی میڈیا کو ہمدردی اور پریشانی کا غم کیوں کھارہا ہے؟ منظور پشتین سر پر سرخ رنگ کی کشیدہ کاری کی ہوئی ایک خاص قسم کی ٹوپی پہنتا ہے ۔ یہ ٹوپی پشتونوں کی پوشاک کا حصہ نہیں۔ البتہ افغانستان کے شمال کی اقوام ہزارہ، ازبک ، تاجک اور ترکمن ضرور استعمال کرتے ہیں۔ سرخ رنگ کی ٹوپی منظور کی تحریک میں شامل نوجوان بھی سروں پر رکھنا شروع ہوگئے۔ افغانستان کے ٹی وی چینلز پر ان ٹوپیوں کی خریدو فروخت پر متعدد رپورٹس نشر ہوئیں۔۔ٹوپیاں فروخت کرنے والا کہتا ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام کے ساتھ وہاں کی حکومت ظلم کررہی ہے اس وجہ سے افغانستان کے لوگوں نے بھی ان سے اظہار یکجہتی کے لیے یہ ٹوپیاں خریدنا شروع کردی ہیں۔ یہی کچھ خریداروں سے بھی بلوایا جاتا ہے۔ ان کے جملوں میں ’’لر‘‘ا و’’ بر‘‘ ’’ یو افغان‘‘ یعنی پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے ایک ہی قوم اور ملت کا حصہ ہیں ۔ یہ وہی پچاس، ساٹھ اور ستر حتیٰ کہ اسی کی دہائی کے نعرے ہیں۔ جس کی پذیرائی افغان حکومتیں کرتی رہی ہیں ۔(جاری ہے )


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر