... loading ...
لکھے پڑھے جاہل!کیا آپ نے کبھی ایسا چھوٹا جملہ سنا ہے ؟یقیناََ آپ نے نہیں سنا ہوگا اس لیے کہ ’’عام خیال‘‘یہی ہے کہ لکھا پڑھا جاہل نہیں ہو سکتا ہے ۔مگر لکھے پڑھوں کے کارنامے دیکھ کر یقین آتا ہے کہ بہت سارے لکھے پڑھے جاہل ہی نہیں ابوجہل یعنی بہت بڑے جاہل ہوتے ہیں ۔آپ سو چ رہے ہوں گے کہ آخر اس تمہید کا عنوان سے کیا تعلق ہے ،ہاں قارئین کرام ہے تعلق ہے اور بہت گہرا ربط ہے ۔بحیثیتِ انسان روئے زمین پر رہنے والے ہم سب برابر ہیں ۔اختلاف ِرنگ و نسل اور مذہب و جغرافیا کے باوجود ہم میں بعض باتیں مشترک ہیں اور ان سب مشترکات میں مقدم ترین ’’انسانیت‘‘ہے ۔مگر المیہ یہ ہے کہ بسااوقات ہم اس مقدس ترین رشتے کو پامال کرنے میں شرمندگی کے برعکس فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہ شرمناک فخر اگر کوئی ان پڑھ اور گنوار کرتا تو کوئی ہتک اور عار کی بات نہ ہوتی مگر افسوس کہ اب یہی ذلت کا کام وہ لوگ انجام دیتے ہیں جنہیں ہماری سوسائٹی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔کٹھوعہ (جموں)کے وکلاء اور ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ وہ گنوانا رویہ اپنایا جس کے تصور سے بھی گِھن آنے لگتی ہے ۔
آٹھ سالہ آصفہ مفلوک الحال غریب باپ کی بیٹی تھی ۔گاؤں کے ایک ہندؤ غنڈے نے اس کو گھر سے نکلنے کے بعد اغوا کر کے آٹھ دن تک اپنے گاؤ خانے میں قید رکھ کر پہلے اس کی عزت لوٹی اور پھر تشدد کرکے قتل کردیا ۔کٹھوعہ کے متعصب پولیس افسران آٹھ روز تک صرف اس لیے ٹال مٹول سے کام لیتے رہے کہ وہ غریب مسلمان کی بیٹی تھی ۔اس کے بعد ایف ،آئی ،آر درج کرنے میں لیت ولیل سے کام لیتی رہی ۔یہاں تک کہ سول سوسائٹی نے اس پر شور برپا کرتے ہو ئے میڈیا کے ذریعے دباؤ قائم کیا تو بہ مشکل ایف ،آئی ،آر درج کی گئی ۔اس کے بعد اصل مجرم کو بچانے کے لیے نابالغ لڑکے کو گرفتار کر کے نابالغ ہو نے کی بنیاد پر رہا کر دیا گیا ۔یہاں تک کہ شدید عوامی دباؤ کے سبب حکومت نے مجبورہو کر ایک تحقیقاتی ٹیم تشکیل دیکر مجرموں کو گرفتار کیا جبکہ اس تحقیقاتی ٹیم کو متاثر کرنے کے لیے بھی کٹھوعہ میں ’’زانی اور قاتل‘‘کو بچانے کے لیے ایکتا منچ نے ترنگے کے سایے میں بہت بڑی ریلی نکال کر کیس ختم کرنے کا مطالبہ کیا ۔9اپریل2018ء کے میڈیا رپورٹس کے مطابق آصفہ اغواکاری ،آبرو ریزی اورقتل کیس کی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے ریاستی کرائم برانچ نے ملزمان کیخلاف عدالت میں فردجرم عائدکرنے کافیصلہ لیاتھا۔رپورٹس کے مطابق دوایس، پی، اُوزاورسازش کے سرغنہ سنجی رام سمیت سبھی ملزمان کیخلاف تحقیقات مکمل کرنے کے بعد چارج شیٹ کوحتمی شکل دی گئی ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ17جنوری2018کوآٹھ سالہ آصفہ کی نعش رسانہ ہیرانگرضلع کٹھوعہ کے ایک مضافاتی جنگل سے برآمدکی گئی جبکہ یہ کمسن بچی10جنوری 2018ء سے پْراسرارطورپرلاپتہ تھی۔معصوم بچی کی اغواکاری اوراسکے سفاکانہ قتل کیخلاف کئی مقامات پراحتجاجی مظاہرے ہوئے جبکہ اسمبلی کے دونوں ایوانوں میں اپوزیشن اورحکمران اتحادکے کچھ ممبران نے سخت احتجاج کرتے ہوئے یہ معاملہ کرائم برانچ کے سپردکرنے کامطالبہ کیا۔زبردست احتجاج کے بعد23جنوری کوریاستی سرکارنے آصفہ کیس کرائم برانچ کے سپردکردیا،اوراس معاملے کی تحقیقات کے لیے کرائم برانچ نے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی۔کرائم برانچ کی ٹیم نے تحقیقات شروع کرنے کے بعدپہلے مرحلے میں دوایس پی اوئوزسمیت تین افرادکوگرفتارکیاجس کے بعدمزیدگرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں جن میں پولیس تھانہ ہیرانگرسے وابستہ ایک اے ایس آئی اورایک حوالداربھی شامل ہے جن کوآصفہ کی اغواکاری اوراسکے قتل سے جڑے کچھ اہم ثبوت وشواہدمٹانے کی پاداش میں معطل کرنے کے بعدحراست میں لیاگیا۔
تحقیقاتی رپورٹ سے یہ خوفناک انکشاف بھی سامنے آیا کہ علاقہ ہیرانگرسے گوجروں اوربکروالوں کو باہر نکالنے کے لیے ایک گھناونی سازش اس طرح انجام دی گئی کہ اس سفاکانہ وارادت کے اصل سرغنہ محکمہ مال میں تعینات رہے ایک’’ پٹواری سنجی رام‘‘ ہے جس نے یہ سازش صرف اس لیے انجام دیدی کہ کسی طرح علاقے میں مقیم مسلمان خوف زدہ ہو کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔اس سازش کا پردہ فاش ہو نے کے بعد کرائم برانچ نے اس کے بیٹے کی تلاش شروع کردی اورجب سرغنہ کے بیٹے کویوپی کے میرٹھ شہرسے گرفتارکیاگیاتوخطرناک سازش کے محرک سنجی رام نے 20مارچ کوکرائم برانچ کے سامنے سرنڈرکیا۔گزشتہ دنوں اس کیس کی تحقیقات میں تب ایک بڑی پیش رفت ہوئی جب کرائم برانچ کونئی دہلی میں قائم ایک فارنسک لیبارٹری سے مقتول ومظلوم بچی آصفہ کی اغواکاری ،آبروریزی اورقتل سے جڑے پوسٹ مارٹم اورفارنسک رپورٹ موصول ہوئی جن میں یہ انکشاف ہواکہ نہ صرف اس معصوم بچی کی زبان بندرکھنے کے لیے اسکونشہ آورادویات پلائی گئی تھیں بلکہ اسی حالت میں آصفہ کواغواکاروں نے ہیرانگرمیں واقع اْس مندرمیں بندرکھاتھاجس کی نگرانی اصل سرغنہ سنجی رام کے ذمہ تھی۔
10اپریل 2018ء کو اس سانحہ کا سب سے شرمناک پہلو اس وقت سامنے آیا جب کٹھوعہ کے وکلاء نے اجتماعی احتجاج کرتے ہو ئے کرائم برانچ کو ملزمین کے خلاف چارج شیٹ پیش کرنے میں زبردست روکاوٹیں ڈالیں اور اس وقت ڈرامائی صورتحال پیدا ہو گئی جب وکلاء نے آصفہ قتل و آبر و ریزی معاملہ میں چالان پیش کرنے آئے کرائم برانچ اہلکاروںکے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا۔کرائم برانچ کی ایک ٹیم شام 4بج کر 20منٹ پر چالان پیش کرنے کے لیے عدالت آئی تاہم اسی اثناء میں وکلاء جو پہلے سے ہی ہڑتال پر تھے ، نے کرائم برانچ کے خلاف نعرے بازی شروع کردی اور چالان چوردروازے سے پیش کرنے کا الزام لگایا۔ انہوںنے سیشن جج سے اپیل کی کہ کرائم برانچ کے افسران کو واپس بھیج دیاجائے اور انہیں سرکاری اوقات کار کے وقت چالان پیش کرنے کی ہدایت دی جائے۔کرائم برانچ اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے وکلاء کورٹ روم میں داخل ہوگئے اور انہوںنے سی جی ایم سے اپیل کی کہ وہ چالان کو قبول نہ کریں کیونکہ کرائم برانچ کی ٹیم دفتری اوقات کے بعد آئی ہے۔شدید رکاوٹوں کے پیش نظر کرائم برانچ افسران نے پولیس سے مزید نفری بھیجنے کے لیے کہا تاکہ مظاہرین کو منتشر کیاجاسکے۔ اس دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ ہونے ہی لگی تھی کہ سی جے ایم نے چالان واپس کر دیا۔ ’سرکاری ذرائع نے بتایا کہ چند تکنیکی خامیوں کے باعث چالان واپس کر دیا گیا ہے اور تحقیقاتی ایجنسی کو چالان پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ‘‘۔یہ ڈرامہ قریب ایک گھنٹے تک چلتا رہا ، بار ایسو سی ایشن کٹھوعہ نے کرائم برانچ کے طریقہ کار پر اعتراض جتاتے ہوئے کہا کہ ’بار ایسو سی ایشن کا احتجاج کامیاب رہا اور چالان واپس کر دیا گیا۔(جاری ہے )