وجود

... loading ...

وجود

خونِ مسلم کے پیاسے رہزن

هفته 14 اپریل 2018 خونِ مسلم کے پیاسے رہزن

(آخری قسط)
اسی دن شوپیاں سے چند کلو میٹر دور کچھ ڈورہ گائوں میں ایک اور معرکہ آرائی ہوئی جو پورا دن جاری رہی۔فوج اور ٹاسک فورس نے مصدقہ اطلاع ملنے پر علاقے کا محاصرہ کیا،جس کے دوران جنگجوئوں اور فوج کے درمیان جھڑپ شروع ہوئی۔معلوم ہوا ہے کہ طرفین کے درمیان دن بھر گولیوں کا تبادلہ جاری رہا،جس کے دوران خود کار ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا،جس کی وجہ سے پورا علاقہ گولیوں کی گن گرج سے گونج اٹھا۔دن بھر جاری رہنے والی جھڑپ میں4جنگجوجاں بحق ہوئے،جبکہ جھڑپ میں3فوجی اہلکار ہلاک اور کئی ایک زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہوئے جنگجوئوں کی شناخت اعتماد احمد ساکنہ امشی پورہ،سمیر احمدساکنہ ہیلو اور اشفاق احمد پڈر ساکنہ پڈرپورہ شوپیاں کے بطور ہوئی۔اس جھڑپ میں2مکانات بھی زمین بوس ہوگئے۔اس جھڑپ کے دوران عوام سڑکوں پر نکل کر فوج کے خلاف احتجاج کرنے لگے ۔پولیس اور فوج مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے دوران ایک سو سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ بیٹھے جبکہ ایک زخمی زبیر احمد پال ساکنہ گوپال پورہ امام صاحب کولگام اسپتال میں دم توڑ بیٹھا جبکہ محمد اقبال بٹ صورہ اسپتال میں چل بسا اور معراج الدین میر سرینگر لیجانے کے دوران پلوامہ میں دم توڑ بیٹھا۔جھڑپ کے دوران لوگوں نے جائے وقوع پر حملہ کیا جس کے دوران ملبے کے نیچے چھپے بیٹھے دو عسکریت پسند زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ایک کی لاش کو لوگوں نے زندہ سمجھ کر شوپیان اسپتال لایا جس کے فوراً بعد اسپتال پر فورسز نے دھاوا بول دیا اور اندھا دھند فائرنگ کے علاوہ شدید شلنگ کی۔اس سے قبل جب شوپیان کے جنگجو کمانڈر زبیر احمد ترے کی نماز جنازہ عید گاہ شوپیاں میں پڑھائی جارہی تھی تو ہزاروں لوگوں کو منتشر کرنے کیلیے شلنگ کی گئی جس میں قریب20 افراد زخمی ہو گئے۔(روز نامہ بلند کشمیر)

اسی روز جنوبی کشمیر کے معروف اور قدیم ترین ضلع اسلام آباد(اننت ناگ) کے دیا لگام میں دوران شب معرکہ آرائی کے دوران ایک مقامی جنگجو جاں بحق ہوا۔پولیس کے مطابق دیالگام میں جنگجوئوں کی موجودگی سے متعلق خفیہ اطلاع ملنے پر فوج نے ہفتہ و اتوار کی درمیانی شب اسد اللہ خان نامی شخص کے مکان کو گھیرے میں لیا۔ اس بیچ مکان کے اندر چھپے مجاہد کو ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی گئی مگراس نے پیش کش کو ٹھکرا یا اگر چہ مذکورہ نوجوان کوآمادہ کر نے کے لیے اس کے ماں باپ کو بھی جھڑپ کے مقام پر لاکر سرنڈر کرنے کی پیش کش کی گئی لایا گیا مگر اس نے پیش کش ٹھکرا کر مر جانے کو ترجیح دیدی ۔جس کے بعد طرفین کے درمیان مسلح تصادم ہوا جو دیر رات گئے تک جاری رہا۔ا س بیچ فورسزنے مکان کو دھماکوں سے زمین بوس کر دیا۔ جس کے سبب مکان پوری طرح تباہ ہوگیا جبکہ مکان کے صحن میں کھڑی ماروتی کارجل کر راکھ ہو گئی۔معرکہ آرائی کے دوران رؤف احمد کھانڈے ولد بشیر احمد کھانڈے ساکن دھرنہ ڈوروجاں بحق ہو گیا۔اس دوران جنگجوں کی ہلاکت کی خبر پھیلتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد جائے موقع پر پہنچی اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرے بلند کئے۔شہیدکی نماز جنازہ تین مرتبہ ادا کی گئی ۔(روزنامہ رائزنگ کشمیر)

فوج اور مقامی مجاہدین کے درمیان جھڑپ کی خبریں گشت کرنے کے ساتھ ہی کچھ ڈورہ میں مرد و زن گھروں سے باہر آئے اور احتجاج کرنے لگے۔عینی شاہدین کے مطابق اسلام اور آزادی کے حق میں نعرے بلند کرتے ہوئے مظاہرین نے جب جھڑپ کے مقام کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی توپولیس اور فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلیے ٹیر گیس گولے داغے۔طرفین میں جھڑپ کے دوران مظاہرین نے سنگبازی کی،جبکہ فورسز نے پیلٹ اور گولیوں کا استعمال کیا جس میں 80 نوجوان زخمی ہوئے۔عینی شاہدین کے مطابق کچھ ڈورہ شوپیان میں جاں بحق ہوئے نوجوان جن میں رئیس احمد اور یاور احمد شامل ہیں کوجونہی اپنے آبائی علاقوں میں پہنچایا گیا تو وہاں کہرام مچ گیا۔۔ اس دوران جھڑپ کے مقام پر نوجوانوں کے علاوہ خواتین نے بھی احتجاج کیا جن کو منتشر کرنے کے لیے فورسز نے طاقت کا استعمال کیا۔ فورسز نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ، آنسو گیس اور پیلٹ کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو جھڑپ کے مقام سے پیچھے دھکیلنے کی کوششیں کیں۔ دن بھر درگڈ اور کچھ ڈورہ میں جاری رہنے والے احتجاجی مظاہروں میں قریب130شہری زخمی ہوئے۔

فلسطین سے لیکر قندوز اور کشمیر تک سینکڑوں مسلمان نوجوانوں ،بچوں اور بوڈھوں کی شہادتوں کے پیش نظر پورا کشمیر مسلسل چھ روز تک بند رہا ۔ مگر افسوس یہ کہ پوری عالم انسانیت یہ سب جاننے کے باوجود خاموش ہے گویا کہ کہیں بھی انسان نہیں بلکہ جانور مر رہے ہیں ۔خدا جانے عالم اسلام میں رہنے والے مسلمانوں کے پیمانے کیا ہیں وہ عسکری حمایت نا صحیح سیاسی یاسفارتی حمایت کیوں نہیں کرتے ہیں ؟وہ فلسطین ،کشمیر یا افغانستان پر برپا قیامت کو روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے ہیں ؟حکمرانوں کا اس کیخلاف کچھ بھی کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے کہ عالم اسلام پر مسلط حکمرانوں میں اکثریت بے غیرت مغربی ایجنٹوں کی ہے لہذا وہ نمک حرامی نہیں کر سکتے ہیں ۔رہی عوام وہ یا تو بے خبر ہے یا دبی ہوئی ۔قلمکار صحافی اور دانشور اپنے اپنے مقامی مسائل میں گرفتار ہیں حالانکہ انسانی جان کے تحفظ کو اولیت ہونی چاہیے مگر اس قاتلوں اور رہزوں کی دنیا کا کلیہ ہی الٹا ہے یہاں مظلوم کے برعکس لوگ قاتل اور ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔یہاں عوام سے لیکر خواص تک سبھی اپنے مفادات کے اسیر ہیں ایسے میں مظلومین کو مدتِ مدید تک کٹنا اور مرنا ہے اس لیے کہ اب روئے زمین پر رہزنوں ،ڈاکوں اور چوروں کی حکمرانی قائم ہے اور اس پر مظلومین کے خون کو پینا اب معمول بنتا جا رہا ہے اور اس ظلم و جبر میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے بلکہ اب اس بنیاد پر تقسیم کرنا عملی طور پر ناممکن ہو چکا ہے ۔جن سے عدل وانصاف کی امید کی جاسکتی تھی وہی اب اس ظلم میں ووحشت میں برابر کے شریک ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر