... loading ...
سبھی مقتدر بڑی سیاسی پارٹیوں کے جلسے جلوسوں دھرنوں کا سلسلہ آمدہ انتخابات 2018سے قبل ہی شروع ہو چکا ہے ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کے لیڈرز صرف جلسوں میں مصنوعی رش دکھا کر ہی ان ووٹروں کو متاثر کرنا چاتے ہیں جو ان کی مخصوص حرکات گالم گلوچ کی وجہ سے ان کے خلاف شدید نفرتوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ بھلا کرپشن میں لتھڑے ہو ئے زرداری صاحب اور شریفین کو کیسے پاکستانی عوام اپنا دوبارہ راہنما تسلیم کرلیں ؟جو کہ لوٹ کھسوٹ کے مال سے ہی بالترتیب ملک کے دوسرے اور چوتھے بڑے سرمایہ دار بن چکے ہیں کیا یہ سرمایہ ان کی خاندانی وراثت ہے؟ قطعاً نہیںیہ غریب عوام کے ٹیکسوں اور بیرونی ممالک سے بھاری سود در سود سے حاصل کردہ رقوم کی کتر بیونت و لوٹ کھسوٹ کے علاوہ اور کسی محنت و مشقت سے کمائی گئی دولت نہ ہے انہی کی وجہ سے ملک کا ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا مگرخزانوں پر سانپ بنے بیٹھے یہ نام نہاد بور ثوائی طبقے کے نمائندے کسی صورت ہمیں معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
جلسوں جلوسوں دھرنوں میں عوام کا رش دکھا کر متاثر کرنا چاہتے ہیں حالانکہ پوری دنیا جانتی ہے کہ آجکل کوئی غریب شخص (ووٹر) اگر دیہاڑی نہ کرے تو دن رات کا خرچہ پورا ہو ہی نہیں سکتا ،سارا دن کولہو کے بیل کی طرح سخت جاں ماری کی جائے تو بھی دو وقت پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں ہو سکتا، فروٹ و دیگر لوازمات کا تو تصور کرنا ہی محال ہے۔لیڈران عظام جہاں بھی جلسہ “فرماتے ” ہیں وہاں کے ٹکٹوں کے خواہشمند افراد منتخب ایم پی اے ایم این اے اور پھر پارٹی کے دھاندلیوں سے جمع کردہ بھاری فنڈز سے جمع کروڑوں روپیہ خرچ کرکے اس مخصوص جگہ پر عوام کو اکٹھا کیا جاتا ہے، ہر جلسہ سننے والے کو کم ازکم 1000روپیہ روزانہ لازمی دنیا پڑتا ہے اور لانے واپس لیجانے کے دوران ناشتہ طعام کا بھی پارٹی انتظام کرتی ہے تبھی یہ رش وش دکھایا جا سکتا ہے۔
ایک ایک جلسہ جلوس دھرنا پر کروڑہا سرمایہ خرچ ہو تا ہے ! کیا ان نام نہاد مقتدر سیاسی جماعتوں نے اس کا حساب الیکشن کمیشن میں ہر سال جون کے اواخرمیں جمع کروایا ہے؟ قطعاً نہیں وہاں صرف جعلی حساب کتاب شو کیا جا تا ہے ، بیرونی ممالک سے بھاری فنڈز وصول کرنے پر سخت پابندی ہے ہر سال تمام رجسٹرڈ جماعتوں کو سالانہ حساب آمدن و خرچ باقاعدہ چارٹرڈ اکائونٹینٹس سے تصدیق کروا کر جمع کروانا ہو تا ہے جس میں یہ بھی حلف نامہ شامل ہو تا ہے کہ پارٹی کسی بیرونی ملک سے کوئی فنڈز وصول نہیں کرتی اگر اس کا ثبوت مل جائے تو سیاسی پارٹی فوراً کالعدم قرار پا سکتی ہے مگر ان اصول و ضوابط پرمقتدر بڑی سیاسی پارٹیاں تو بالکل عمل نہیں کرتیں۔انتخابات میں بھی ہر قومی اسمبلی کے امیدوار کو 30لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی اجازت ہے مگر یہاں تو لاہور و لو دھراں کے دو ضمنی انتخابات میں اربوں روپے خرچہ کیا گیا۔
عوام پوچھتی ہے کہ پھر الیکشن کمیشن نے کیوں ایکشن نہیں لیا ؟اس ملٹی ملین سوال کا جواب بحر حال الیکشن کمیشن کو لازماً دینا ہو گا!ایسے امیدوار نا اہل کیوں قرار نہیں دیے جاتے ؟ صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے دن ہی ہر پولنگ اسٹیشن پر درجن بھر گاڑیوں کی کم ازکم ضرورت ہوتی ہے اور1000افراد تک کا کھانا ہر پولنگ اسٹیشن پر مہیا ہونا ضروری ہے اور سارا دن چائے بسکٹ مٹھائی علیحدہ ٹھہری ۔اب تو پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد بھی بڑھائی جا چکی ہے اس دن کے کم و بیش چار سو پولنگ اسٹیشنوں کا خرچہ ہی کروڑوں روپے ہوتا ہے نہ نا اہل قرار دیے جانے کا یہ آنکھ مچولی کا کھیل کب تک جاری رہے گا ،ہر جلسہ کے لیے کروڑوں کے خرچہ سے اردگرد کے پانچ چھ اضلاع سے بھی عوام کو ڈھو ڈھو کر اکٹھا کرنا پڑتا ہے ۔پھر ایسے جھوٹ کی بنیاد پر چلنے والے سیاسی گروہوں کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے ؟عوام کھلی آنکھوں اور حاضر دماغوں سے سب کچھ دیکھ سمجھ رہے ہیں خدائے عز و جل کی مشیعت ایزدی نے ہی بالآخر فیصلہ فرمانا ہے۔
کروڑوں کے خرچہ سے جلسے جلوسوں کے جعلی رش دکھا کر اب کی بار عوام کو ورغلاکر دھوکا نہیں دیا جاسکتا کہ وہ 70سالوں سے برسر اقتدار ظالم جاگیرداروں کرپٹ وڈیروں اور دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام ِسود کے علمبردار نو دولتیے سرمایہ داروں اور ڈھیروں زبردستی منافع خور صنعتکاروں کو اب پہچان چکے ہیں وہ تو بھوکوں مرتے ڈوب کر خود کشیاں کرتے پھریں یا پھر مٹی کا تیل چھڑک کراپنے آپ کو کوئلہ بناتے رہیںمگر یہ مخصوص کرپٹ جغادری سیاستدان انہیں رش دکھا کر متاثر کرلیویں ایسا اب ممکن ہی نہ ہے ! پھر عمران سمیت سبھی اپنے آپ کو بڑی پارٹیاں کہنے والوں نے پہلے سے منتخب شدہ ممبران اسمبلی کو گھیرنے اور لالچ دیکر اپنی اپنی پارٹیوں میں گھسیٹ کر لانے کا کارنامہ شروع کر رکھا ہے یہ سبھی تحت الشعور میں یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ یہی وہ “متبرک بھاری پتھر “ہیں جو کہ ان کی جیت کا سامان بن سکتے ہیں مگر یہی تو ہیں وہ لو گ جومزدوروں کا خون شرابوں میں ملا کر پی جا تے رہے ہیں اور ہر اقتداری کشتی میں سوار رہتے ہو ئے ہمیشہ اسے ڈبو دیا کرتے ہیں اور خود ڈوبتے جہاز میں سے چوہوں کی طرح نکل جانے والے محاورے کے مصداق فوراً کسی دوسری کشتی میں سواری فرما لیتے ہیں انہی کی نفرتوں کی وجہ سے تو ہر نئے مداری نما لیڈر کو لوگ پسند کرتے ہیں مگر نئے لالچی سیاستدان انہی کو دوبارہ عوام کی گردنوں پر سوار کرنے کے لیے اپنے ہاں شامل کرکے ان کی ساری سابقہ کرپشنوں کے محافظ بن بیٹھتے ہیں تو ان کا احتساب اسی لیے نہیں ہو سکتا کہ یہ پھر اقتدار کی چھائوں میں بیٹھ جاتے اور تحفظ پاجاتے ہیں ۔خدائے عز و جل کی کبریائی اور ہر مسلک فرقہ و علاقائی گروہ کی مکمل نمائندہ اللہ اکبر تحریک انہیں اس دفعہ انتخابات میں ضرور گہری کھائیوں میں ڈبو ڈالے گی ملک لازماً فلاحی مملکت بن کر رہے گا انشاء اللہ۔