... loading ...
ریاض احمد چودہری
کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو چھوت کی طرح پھیلتا ہے اور معاشرے کو کھا جاتا ہے- ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے-کرپشن آکاس بیل کی طرح سے ہے یعنی وہ زرد بیل جو درختوں کو جکڑ کر ان کی زندگی چوس لیتی ہے- یہ ایک ایسی لعنت ہے کہ اگر ایک بار یہ کسی معاشرہ پر آگرے تو ایک شاخ سے اگلی اور اگلی شاخ کو جکڑتی چلی جاتی ہے حتیٰ کہ زرد ویرانی کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا- یہاں تک کہ معاشرہ کی اخلاقی صحت کے محافظ مذہبی اور تعلیمی ادارے بھی اس کا شکار ہو جاتے ہے-
2003ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد 58/4پر 140ممالک نے دستخط کیے ہیں جس کے مطابق اختیارات کا ناجائز استعمال کرپشن ہے، ہمارے ملک میں اداروں کے سربراہان، بڑے افسران، حکمران و دیگر طاقتور لوگ اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، کرپشن بھی کرتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاتی جبکہ قانون صرف کمزور کے لیے ہے۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل، اقوام متحدہ و دیگر عالمی سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان کا شمار کرپشن کے حوالے سے بدترین ممالک میں ہوتا ہے، اس رینکنگ میں ہمارے ہمسایہ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ترقی یافتہ ممالک ہمارے قریب نہیں ہیں۔
ڈی جی اینٹی کرپشن بریگیڈیئر (ر) مظفر علی رانجھا کا کہنا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے سیاسی طور پر اور ادارے کی سطح پر ہماری سمت درست ہے۔ سیاسی سطح پر ایسی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں جن سے کرپشن کی روک تھام ہوسکے۔ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کو ایجنسی بنانے کی پالیسی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے تاکہ یہ ادارہ آزاد اور خودمختار ہو اور لوگوںکو اس سے ریلیف مل سکے۔ ہم عوامی توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ عوام ہم سے ایکشن چاہتے ہیں اور اسی لیے ہم ہر سطح پر کارروائی کررہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کرپشن کے نا سور پر قابو پانے کے لیے جہاں دیگر اداروں کے ساتھ صوبائی احتساب ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جسکا نام محکمہ اینٹی کرپشن رکھا گیا جسکا کام صوبائی اداروں میں ہونے والی کرپشن کو پکڑنا،صوبائی اداروں کے افسران کے خلاف آنے والی شکایات پر فوری کاروائی کرنا،مقدمات درج کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے علاوہ ،رشوت مانگنے والے سرکاری ملازمین کو ریڈ ہینڈڈ گرفتار کرنا ہے َ۔
بقول ڈی جی اینٹی کرپشن محکمہ مکمل آزاد ہے اور آج تک مجھے کسی نے کوئی سفارش نہیں کی اور نہ ہی کسی کیس کی تفتیش سے روکا گیا۔خیبر پختونخوا، سندھ اور آزاد جموں و کشمیرکے اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹس نے ہمارے ساتھ رابطہ کیا ہے اور اب ہم ان کی کپیسٹی بہتر بنا رہے ہیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ محکمہ کام نہیں کررہا ہے بلکہ ہم اپنے مینڈیٹ کے مطابق کام کررہے ہیں۔ ہم ادارے کو موبیلٹی کی طرف لے جارہے ہیں۔ ادارے کے لیے 40 گاڑیاں، انفراسٹرکچر میں بہتری کے ساتھ ساتھ ورکرز کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔
ادارے میں نچلی سطح سے لیکر اعلیٰ افسران تک تمام بھرتیاں میرٹ پر ہورہی ہیں اور اس کے لیے پبلک سروس کمیشن کا طریقہ کار ہے۔ کسی بھی بھرتی میں میرا یا کسی دوسرے افسر کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔محکمہ کی بہتری کے لیے مانیٹرنگ سسٹم بھی بنایا جارہا ہے تاکہ معاملات بہتر بنائے جاسکیں اور اگر ہمارے لوگ بھی کرپشن یا کسی غلط کام میں ملوث ہوں تو ان کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ اس کے لیے انٹیلی جنس، سرویلنس اور ڈیٹیکشن ڈیپارٹمنٹ لارہے ہیں جس کی منظوری ہوچکی ہے۔ اس میں سپیشل برانچ، انٹیلی جنس افسر و دیگر لوگ لائے جائیں گے جو اپنے لوگوں پر نظر رکھیں گے اور ان کے خلاف شواہد بھی اکٹھے کریں گے۔
مظفر رانجھانے کہا کہ عدلیہ کے ساتھ بھی معاملات بہتر بنائے جارہے ہیں تاکہ سزا کا عمل یقینی بنایا جاسکے اور لوگوں کو بروقت انصاف مل سکے۔محکمہ کے مینڈیٹ کے مطابق تمام اداروں کے بڑے ،چھوٹے کرپٹ افسران کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جارہی ہے۔ اس وقت 22گریڈ تک کے افسران کے خلاف تفتیش جاری ہے اور ان میں سے کچھ کو گرفتار بھی کیا جاچکا ہے، ان کی جائیداد و دیگر چیزیں قبضے میں لی جاچکی ہیں جبکہ گزشتہ دنوں عدالت نے بعض مجرموں کو 5سے 20سال تک کی سزا بھی سنائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کیسز کی بہتر انداز میں انوسٹی گیشن ہورہی ہے۔
یورپی یونین کے سٹینڈرڈز کے مطابق محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب سب سے بہتر ہیں۔ ان سٹینڈرڈز میں ڈیٹا منیجمنٹ ٹرانسپرنسی، ٹریننگ اور کپیسٹی بلڈنگ شامل ہیں۔ ہم اپنے آزاد ’’سیٹ اپ‘‘ بنا رہے ہیں جن کے اندر رہائش، دفتر ، تھانے قائم ہوں گے، ان کے اندر ہی تفتیش ہوگی اور ممکن ہے کہ اینٹی کرپشن کی عدالتیں بھی اس کے ساتھ ہی قائم ہوں۔ میں پاکستان خاص کر پنجاب کے لوگوں کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا پہلا ’’سیٹ اپ‘ سرگودھا میں قائم ہوچکا ہے۔ دوسرے سینٹر ساہیوال اور تیسرے کے لیے ڈی جی خان میں زمین ہمیں مل چکی ہے اور چوتھا سینٹر لاہور میں قائم کیا جا رہاہے۔
اگر ہم اس ادارئے کی کار کار دگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جولائی 2016ء سے جنوری 2018ء تک ہونیوالی محکمانہ کارروائیوں میں۔دو ارب روپے کا کیش قومی خزانے میں جمع اوراراضی واگزار کرائی گئی مزید تین ارب کا حصول قریب ہے ،اس عرصے کے دوران 33821شکایات موصول ہوئیں، 33198نمٹائی گئیں۔ 16840انکوائریوں کا آغاز کیاگیا جبکہ 16499نمٹادی گئیں۔ 4175کیس درج ہوئے 3527پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے۔ 1919چالان جمع کرائے گئے ، 2869گرفتاریاں ہوئیں۔509سے زائد ریڈ کیے گئے اور مجموعی طور پر126.24ملین ڈائریکٹ ریکوری کی گئی۔ اجلاس میں مال مقدمہ میں ریکوری، کیسوں کی ڈیڈ لائن اور ریجنل ڈائریکٹرز کے سرکل اور تحصیل دفاتر کے دورہ سمیت اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔
اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں عالمی رینکنگ کو بہتر کرنا ہوگا اور اس کے لیے سسٹم کو بہتر کرکے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان میں عام شہری سے لے کر بزنس مین کو کرپشن کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔کرپشن کے خاتمے کے لیے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا!!