... loading ...
لوگ سگریٹ پیتے ہیں، وہ کھاتے ہیں، اصل نام تو معلوم نہیں مگر سب انہیں بابو بھائی کہہ کر ہی پکارتے ہیں، معمولی قد کاٹھ، مُخنی سی شخصیت اور سانولے رنگ والے بابو بھائی کی شیو ہمیشہ بڑھی رہتی ہے، میں نے انہیں جب بھی دیکھا ٹھیلے پر آلتی پالتی مارے بیٹھے، دھونکینوں کی طرح دھواں پھونکتے ہی دیکھا، سگریٹ دانتوں میں دبی رہتی ہے اور وہ دال کے کباب کی ٹکیہ انڈے میں ڈبو ڈبو کر توے پر ڈالتے جاتے ہیں، دوسری جانب کھڑا ملازم انہیں اُلٹتا پلٹتا رہتا ہے، بابو بھائی کا بن کباب میری ’’فینسٹی‘‘ ہے ہو ہی نہیں سکتا کہ اُدھر سے گزر ہو اور اس ’’فریضے‘‘ کی ادائیگی میں چُوک ہوجائے، ویسے گزرنا بھی کبھی چھ، آٹھ ماہ میں ایک بار ہی ہوا کرتا ہے، آج بھی ہوا، سلام دعا کے بعد دو بن کباب لگانے کی فرمائش کی اور ساتھ رکھی ٹوٹی ہوئی آہنی ٹیبل نما چیز پر براجمان ہوگیا، بیٹھتے ہی محسوس ہوا کہ حالات حاضرہ پر گرما گرم گفتگو جاری ہے، دو تین ’’شوقین‘‘ بن کباب کھاتے جارہے ہیں اور اظہار خیال کا ’’چھڑکائو‘‘ بھی ساتھ ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں بابو بھائی پھٹاک پھٹاک لقمے دیتے جاتے ہیں اور محفل میں جان پڑتی رہتی ہے، موضوع ملالہ تھی… جی ہاں وہی اپنی نوبیل انعام یافتہ ملالہ۔
’’امریکا کی ایجنٹ ہے سالی‘‘ بابو بھائی نے گولی کی طرح جملہ مارا، سامعین نے سر دُھنا، ایک اور صاحب بولے ’’نواب کی بچی کا پروٹوکول تو دیکھو’’ دوسرے صاحب فوراً چمک کر بولے ’’ابے اُس کے ابا کی تو لاٹری لگی ہوئی ہے، وہی ہے اصل گیمبلر‘‘ آج پہلی بار مجھے بابو بھائی کے کباب کا ذائقہ اجنبی اجنبی سا لگا، شاید دل خود جل کر کباب ہوچکا تھا اور کڑواہٹ زبان تک آپہنچی تھی، آگے کیا باتیں ہوئیں یاد نہیں شاید وہ اُٹھ گئے، یا پھر میں اپنی سوچوں میں ایسا گم ہوا کہ کچھ دھیان ہی نہ رہا۔
بیس سالہ ملالہ اس وقت دنیا میں اپنی عمر کی مشہور ترین لڑکی ہے، اُسے امن کے نوبیل انعام کے علاوہ کئی عالمی ایوارڈز دیئے جاچکے ہیں، وہ جہاں بھی جاتی ہے اُسے کم و بیش ریاست کے اعلیٰ ترین عہدیدار والا استقبال ملتا ہے، 29 مارچ کو ملالہ پاکستان آئی اور چار روز قیام کرکے 2 اپریل کو واپس برطانیہ روانہ ہوگئی جہاں وہ مستقل قیام پذیر ہے، کچھ لوگ ملالہ کے خلاف سرگرم رہتے ہیں لیکن گزشتہ ہفتے تو یوں لگا جیسے ملالہ نے قدم پاکستان کی سرزمین پر نہیں ’’غفلت میں ڈوبے‘‘ پاکستانیوں کے سنہرے مستقبل کی گردن پر رکھ دیئے ہوں، سازشی تھیوریاں پھر سے نئی شدت کے ساتھ زیر گردش آگئیں، پنجاب کے اسکولز میں تو ’’آئی ایم ناٹ ملالہ‘‘ کے عنوان ے ایک روزہ مہم بھی چلائی گئی، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے کانٹنٹیس یوزر جنرٹیڈ‘‘ ہوتے ہیں سو جس کا جو جی چاہا بول سکتا ہے اور پاکستانیوں کو جس موضوع پر بھی بات کرنی ہے خوب بولتے ہیں، صرف شوشہ چھوڑنے کی دیر ہے بڑی دُور دُور کی کوڑیاں لائی جاتی ہیں اکثر ایسی کہ سنیئے اور سر دُھنیئے۔
کچھ سوشل میڈیا مجاہدین کا دعویٰ ہے کہ ملالہ پر کوئی حملہ ہوا ہی نہیں، یہ سب ڈرامہ تھا، استدلال ہے کہ اگر حملہ ہوا تو ملالہ کاشنکوف کے پورے برسٹ سے زندہ کیسے بچ گئی، اگر گولی لگی تو سر کے آپریشن کے لیے بال کیوں نہیں کاٹے گئے، اتنی جلدی ہوش میں کیسے آگئی، وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سوالات دیکھ کر میرا ہمیشہ جی چاہتا ہے کہ یہ سوال مارکیٹ میں چھوڑنے والا کہیں ایک بار مل جائے تو میں بھی اُس سے کچھ سوالات پوچھ لوں۔کم از کم اتنا ہی بتادے دے کہ اُسے کیسے پتہ چلا ملالہ پر حملہ کرنے والا کلاشنکوف لیکر آیا تھا کیا وہ خود اس بس میں موجود تھا؟ ٹارگٹ کلنگ کی تمام وارداتوں میں ہم نے تو آج تک یہی دیکھا ہے کہ حملہ آور چھوٹا ہتھیار استعمال کرتا ہے، اسے واردات کے بعد فرار ہونے کی جلدی ہوتی ہے، جہاں تک بال نہ کاٹے جانے کا تعلق ہے تو وہ کاٹے ہی کیوں جاتے بھائی؟ گولی اس کے ماتھے کو رگڑتی ہوئی نکل گئی تھی، اس کے ’’برین ڈرم‘‘ کی جھلی کو معمولی نقصان پہنچا تھا مگر وہاں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں تھی البتہ گولی کا ایک ٹکڑا ضرور اندر تھا جو خون کے ساتھ گردش کرتا کندھے کے قریب آپہنچا تھا، آپریشن اُسے نکالنے کے لیے کیا گیا جس کے لیے اس کی گردن کے نیچے چیرا لگایا گیا تھا، جسے یہ نشان دیکھنا ہو وہ ملالہ پر بننے والی فلم ’’اس نے میرا نام ملالہ رکھا‘‘ (He Named Me Malala) یوٹیوب پر جاکر مفت میں ڈائون لوڈ کرکے دیکھ سکتا ہے، اُسے وہاں برطانوی ہسپتال میں ملالہ کے علاج معالجے کے ابتدائی ایام کے حقیقی مناظر بھی دیکھنے کو مل جائیں گے، بستر پر لیٹی حیرت زدہ چہرے کے ساتھ پھٹی پھٹی آنکھوں سے چھت کو تکتی ملالہ کو دیکھنا شاید کچھ لوگوں کے لیے تشفّی بخش بھی ہو۔
پچھلے دو تین سالوں کے دوران ویب ٹی وی خود رو کھمبیوں کی طرح انٹرنیٹ کی سرزمین پر ’’اُگے‘‘ ہیں ان کی ’’تحقیقاتی‘‘ رپورٹنگ کا تو جواب ہی نہیں، گزشتہ ہفتے ملالہ پر ایک رپورٹ دیکھی، گمان ہوا کہ اس کا اسکرپٹ رائٹر دنیا کا سب سے ’’انَتر یامی‘‘ انسان ہوگا جسے امریکن سی آئی اے، بھارتی را اور اسرائیلی موساد کے سارے منصوبوں کا گھر بیٹھے علم ہوجاتا ہے، اتنے ’’گُنی‘‘ انسان کی خدمات فوراً آئی ایس آئی کو حاصل کرلینی چاہئے تھیں مگر شاید ایسا اس لیے نہ ہوا ہو کہ اُس رپورٹ میں جنرل کیانی سمیت پوری فوج کو بھی ’’ملالہ ڈرامے‘‘ میں شریک قرار دیا گیا تھا۔
اکثر پوچھا جاتا ہے ملالہ نے آخر ایسا کیا ہی کیا ہے؟ میں کہتا ہوں اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہیں اور یہ بڑے بڑے پہلوانوں کے بس کی بات نہیں، جب ملالہ پر حملہ ہوا اس وقت وہ محض پندرہ سال کی تھی، اس کا آبائی علاقہ سوات مذہب کے نام پر دہشت گردی کرنے والے جنونیوں کی آماجگاہ تھا، سوات پاکستان کا وہ واحد علاقہ ہے جہاں پاک فوج نے مختصر مختصر وقفوں سے چار فل فورس فوجی آپریشن کیے، 2007 میں آپریشن راہ حق اوّل، 2008 میں آپریشن راہ حق دوئم، 2009 میں آپریشن راہ حق سوئم کیا گیا، اس کے بعد بھی ’’آپریشن راہ راست‘‘ کے عنوان سے کارروائی کی گئی۔ ان آپریشنز کے بعد مُلّا فضل اﷲ کی دھمکیوں سے اہل علاقہ خوفزدہ تھے جو فرار ہوکر افغانستان پہنچ چکا تھا، مُلّا فضل اﷲ بچیوں کی تعلیم کے خلاف تھا فورسز کی یقین دہانیوں کے باوجود لوگ اپنی بچیوں کو اسکول بھیجنے پر راضی نہ تھے جبکہ متعدد اسکولز پہلے ہی منہدم کیے جاچکے تھے، اسی مُلّا فضل اﷲ کی ایک ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے جس میں اسے ایک فوجی ہیلی کاپٹر کو نشانہ بناتے دیکھا جاسکتا ہے، اس حملے میں پاک فوج کے ایک میجر جنرل نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ ملالہ کا باپ ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جس نے اس صورتحال میں غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا اس نے ایک خالی عمارت کرائے پر لیکر اس میں گرلز اسکول کھول دیا، اس اسکول کا ماسٹر اور ہیڈ ماسٹر تو وہ تھا ہی چپڑاسی اور جمعدار بھی وہ خود ہی تھا، سب سے پہلے اس نے اپنی بیٹی کو اس اسکول میں داخل کیا پھر دیکھا دیکھی قرب وجوار کی بچیاں بھی آنے لگیں، غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے اس پر توجہ دی اور مختلف اخبارات میں مضامین لکھے گئے جن میں اسکول کی اس ہونہار 12 سالہ طالبہ کا بالخصوص تذکرہ تھاجو اسکول کے منتظم اعلیٰ کی بیٹی تھی، کچھ لوگ کہتے ہیں ملالہ کو حملے سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا حالانکہ جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے علمبردار سماجی رہنما دسیمند ٹوٹو نے اسے 2012 میں حملے سے قبل ہی انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا تھا، یہ اس کی شہرت ہی تو تھی جو مُلّا فضل اﷲ کی آنکھ میں شہتیر بن گئی تھی، ایک کمسن بچی کی ہمت اسے اسلام کے لیے خطرہ لگنے لگی تھی، علاقے میں اس کی دہشت قائم رہنے کے لئے بھی ضروری تھا کہ اس بچی کا خاتمہ کیا جائے چنانچہ اُسے نشانہ بنایا گیا مگر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہے۔ ملالہ اور اس کا باپ شجیع ہیں انہوں نے یقینی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور اپنے نظریات پر بھروسہ کیا، اتنی جرأت ہم میں سے اکثر میں نہیں ہے ہم تو معمولی مقدمات میں اپنے عزیزوں کی شخصی ضمانت دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے کہ کیوں پرائی ’’پھٹیک‘‘ میں پڑیں چہ جائیکہ جان کا جوکھم۔
ملالہ کے ناقدین بھی خوب ہیں جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہو ان کی اُنگلیاں ملالہ پر اُٹھتی ہیں کہ ُاس نے اس کی مذمت کیوں نہیں کی، قندوز میں معصوم حفاظِ قرآن کی بہیمانہ شہادت کے بعد بھی یہ گردان جاری ہے سوال یہ ہے کہ کیا ملالہ نے دنیا کی ہر دہشت گردی کی مذمت کا ٹھیکہ لے رکھا ہے، کل کو آپ اُس سے کہیں گے کہ وہ کالے ہرن کے شکار کے مقدمے میں سلمان خان کی سزا کی بھی مذمت کرے کیونکہ وہ مسلمان ہے، عجیب منطق ہے، یہ صاحبان بصیرت اس طرح کا مطالبہ مولانا فضل الرحمن سے کریں تو بنتا بھی ہے یا پھر اسفند یار ولی یا محمود خان اچکزئی سے جو افغانستان سے وفاداری کا دم بھرتے ہیں، یہ واقعہ تو کھلی ریاستی دہشت گردی ہے وہ کیوں منہ میں گھونگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں، ملالہ کا میدان عمل لڑکیوں کی تعلیم ہے اسے فلسطین اور کشمیر کی ریاستی دہشت گردی کے معاملات میں گھسیٹنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
ملالہ کا مقابلہ کبھی آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں سے کیا جاتا ہے اور کبھی ایسی دوسری لڑکیوں سے جو غریب آبادیوں میں نادار بچوں کو پڑھاتی ہیں، یہ تقابل بھی ناقابل فہم ہے، اے پی ایس کے بچے ہوں یا لیاری کی ماہین بلوچ، میڈم طاہرہ قاضی ہوں یا سمیعہ نورین، نصر اﷲ شجیع ہو یا شہید اعتزاز یہ سب ہی ہماری محبتوں اور عقیدتوں کے محور ہیں کسی کا رتبہ کسی سے کم نہیں اور کسی ایک سے محبت کے اظہار کے لیے کیا دوسرے سے تہی دامن ہونا ضروری ہے؟اشفاق احمد نے خوب کہا تھا ’’محبت کو تقسیم نہیں کرتے ضرب دیتے ہیں۔‘‘
یہ اچھنبے کی بات نہیں کہ مغرب ملالہ کی اتنی سرپرستی کرتا ہے، دنیا میں ہر دہشت گردی کے تانے بانے کسی نہ کسی طرح چند مغربی ممالک سے جاملتے ہیں اور ملالہ جیسے چیدہ چیدہ کرداروں کی سرپرستی سے ان ممالک کو وہ مٹھی بھر دھول دستیاب ہوجاتی ہے جسے وہ اپنے ضمیر اور باقی ماندہ دنیا کی آنکھ میں جھونک سکیں، مگر ہم نجانے اس پر نالاں کیوں ہیں، میں نے پاکستانی شلوار قمیض میں ملبوس سر پر دوپٹہ اوڑھے اس چھوٹی سی بچی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے دیکھا، ہیلری کلنٹن بتیسی نکالے خوشگوار حیرت کے ساتھ تالیاں پیٹ رہی تھی، فخر کے جذبات اُمڈ آئے، نجانے کیوں دل میں اُمید پیدا ہوئی کہ یہی بچی ایک دن عالمی ضمیر کو جھنجھوڑے گی اور سامراجی طاقتوں کے چہروں سے نقاب نوچے گی۔اُمید پر دنیا قائم ہے۔
ملالہ پاکستان آئی کیوں، اس کا جواب اسی کے پاس ہے مجھے اتنا معلوم ہے کہ اقوام متحدہ کے ’’یونیسکو ملالہ فنڈ‘‘ سے ایک معاہدے کے تحت حکومت پاکستان کو 7 ملین ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی ہے، یہ رقم دیہی علاقوں کے غریب بچوں کو تعلیم کی فراہمی پر خرچ کی جائے گی، یہ وہ پیسہ ہے جو ملالہ کے نام پر دنیا بھر سے اکٹھا ہوا ہے اور اس میں ’’ایّپل‘‘ جیسے ادارے نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے۔ تھینک یو ملالہ۔
اپنے محسنوں کی بے قدری ہمارا وطیرہ ہے، ہم اعتماد کے بحران کا شکار ہیں، ایسی بداعتمادی قوموں کی ترقی میں رخنہ ہوا کرتی ہے، امریکا کے صف اوّل کے فکری رہنما فرانک (Franik) کا ایک جملہ دھرائوں تو بے محل نہ ہوگا۔
Trust Is like blood, pressure, Its Silent, vital to your heallt and If abused Can be deadly
بھروسہ فشارِ خون کی مانند ہے، خاموش رہتا ہے یہ آپ کی صحت کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور اگر اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو جان جاسکتی ہے۔
اس کے ساتھ بدسلوکی کی جائے تو جان جاسکتی ہے۔