... loading ...
اے مکتب کے فرزندوں،قندوز کے بچوں! اعلیٰ علیین کے مکینوں!اے زمانوں کی صبح رکھنے والے نور صفت چہروں!
کیا موت کی رات پر تم نے زندگی کی دائم صبح طاری کردی۔ تمہارے بدن تمہاری روح سے کنارہ کرگئے!کیا تم مرگئے؟
مگر تم کیسے مرسکتے ہو!ابھی تو چمن میں نُزہت ونکہت موجود ہے۔ابھی تک کرنیں لپکتی ،کلیاں چٹکتی، غنچے مہکتے اور لالے دمکتے ہیں!ابھی شرق سے سورج نکلتا ہے۔ابھی تک سمتوں کا فسوں ٹوٹا نہیں۔ابھی پہاڑ میخوں کی مانند گڑے ہیں۔بادل یہاں سے وہاں دوڑے پھرتے ہیں۔ موسم آمادۂ بغاوت نہیں۔ سمندر اپنے کناروں سے چھلکا نہیں۔ ابھی !ابھی تم کیسے مرسکتے ہوں!
مگر ہاں تم مر بھی سکتے ہو! فطرت کا مہر انسانوں کے قہر کے مقابلے میں شاید کم پڑ گیا ہو۔ وحشت نے انسانی مودٔت کو دائم نگل لیا ہو۔ دہشت نے انسان کو اپنا ساتھی بنا لیا ہو۔ زہر امرت سے میٹھا ہوگیا ہو۔ اژدہے کبوتروں سے اچھے لگنے لگے ہوں۔ کوے کوئل سے زیادہ خوش نوا ہوگئے ہوں۔ شاید شاید سؤر ، مور سے زیادہ خوبصورت دِ کھنے لگے ہو!اے قندوز کے بچوں!ہو سکتا ہے تم مرہی گئے ہو!
اے قندوز کے بچوں!
جب تمہاری لاشیں ہماری بداعمالیوں کی بندوقوں سے پامال ہورہی تھیں ، جب تمہارے چیتھڑے ہوا میں اڑ رہے تھے، جب تمہارے جبڑے تمہاری لاشوں سے الگ پڑے تھے۔ تو ہم اپنی سِفلہ خواہشات کی پیروی میں مگن تھے۔اپنے حیوانی جذبوں کی قید میں تھے۔ تمہاری کراہیں ہم تک پہنچی نہیں۔ ہم اپنے بُتانِ شوق کے وفور میں کہیں بے خود پڑے تھے۔ مال وزَر کی ریل پیل میں ہمیں تمہاری لاشوں کی شناخت کی دھکم پیل کا پتہ ہی نہ چلا۔ہم وادیٔ گناہ میں اپنی اپنی شبِ سیاہ کو دوبالاکررہے تھے۔ تمہیں معلوم نہیں،ہمارے وجود آرزؤ ں کے صحرا میں بھٹکتے ہیں۔ حرص کی رالیں ہماری زبانوں سے ٹپکتی ہیں۔ ہوس کی چنگاریاں ہماری آنکھوں سے اُٹھتی ہیں۔ ہم اپنی بے وقار ، شرمسار زندگی کی مدہوشی سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ ہمیں عمیق تیرگیوں میں چُھپی بلاؤں کی خوفناک آوازوں سے پیار ہو گیا ہے۔ ہم اس جلوہ زارِ حیات میں اپنی زندگی کو دینارودرہم کے تابع رکھتے ہیں۔ اسی سے ہمارا صحیح اور اسی سے ہمار اغلط طے ہوتا ہے۔ ہمیں تمہارے حسن وقبح اور شرعی شب وروز کی کوئی پروا نہیں۔ ہماری نظریں شکاریوں کی جھولیوں پر رہتی ہیں ۔ ہمیں دام لگاتی بولیوں سے سروکار ہیں۔ہماری ہوس آلودہ زندگی کو تمدنِ جدید کے نئے ہیر پھیر سازگار ہیں۔ ہمیں گھٹیا زندگی کو باجواز بناتی خرد کی بت گری خوش آتی ہے۔ ہماری بے ہودگیوں کو قابلِ عزت بناتے یہ فلسفوں اور نظریوں کے جدید اور غلیظ ڈھیر ہمیں بہت پسند ہیں۔اس خود فریب، خود فروش ، خود شکار حیات کے بے خود بہاؤ میں تمہارے قتلِ عام کے ماتم کی’’ عیاشی‘‘ کے لیے ہم وقت کہاں سے لائیں؟ہم اپنے ضمیر کو کچھ وقت کے لیے بیداری کا اُدھا رکیوں دیں؟ اگر تم مرگئے ہو تو مرجاؤ ہمارے منہ کا ذائقہ کیوں خراب کرتے ہو؟
اے قندوز کے بچوں!
ہمارے پرتعیش شب وروز کو جھنجھوڑتے کیوں ہوں؟تم جانتے نہیں،تمہیں مارنے والے ہمارے ذہنوں پر حکومت کرتے ہیں۔ وہ ستاروں سے گفتگو کرتے ہیں ، چاند پر قدم رنجہ رہتے ہیں۔ آسمان پر تھگلی لگاتے ہیں۔ خدا سے خداکے لہجے میں کلام کرتے ہیں۔ وہ ابلیس کے فرزند ہیں اور اُن کے کچھ یہاں فرزند ہیں۔ جو ہمیں اُن سے ڈراتے ہیں۔ اور ہم اُن سے ڈرتے ہیں۔ ہم حملے کی مذمت حملہ آوروں کو دیکھ کرکرتے ہیں۔ حملہ آور اباریش اور عمامے والے ہوتے اور ہدف تم ہی ہوتے تو تمہارا خون رائیگاں نہ جاتا ، تمہارے زخمیوں میں سے ہم کسی ’’ملالہ‘‘ کو ایجاد کرتے، کسی شہید کے سر پر اعزاز کی کلغی سجاتے۔ اُن کا دن مناتے،موم بتیاں جلاتے۔مگر تمہارے حملہ آور دوسرے ہیں۔تم بعد میں قتل ہوئے ہمارے ذہن پہلے سے ہی اُن کے قتیل ہیں۔ وہ ہماری آسائشوں کے کفیل ہیں۔ ہماری عشرتوں کے امین ہیں۔ ہم اپنی زندگی تمہاری موت پر کیوں کھوٹی کریں۔ سو تم اپنے خون میں خود نہاؤ۔ اپنی موت کا ماتم خود کرو۔اور اپنی قبروں میں رہو۔ اس سے باہر نہ جھانکو!
اے میرے بچوں ہم تمہیں کیا بتائیں !
ہمارا دل اُن نغموں سے تڑپتا ہے جو ہم گا بھی نہیں سکتے کہ یہ نوائے غم کہیں ہمارے آقاؤں کو ناراض نہ کر دے۔ہم تمہیں روتے ہیں مگر اس کے لیے آنسو نہیں بہاسکتے۔کیونکہ ہمیں یہ آنکھیں کسی اور سے چار کرنی ہیں۔تمہاری موت سے زیادہ ہماری مجبوریوں کا ماتم رقت انگیز ہے۔
مگر پھر بھی یہ نیلا آسمان اور خاکی زمین ہمیں ہماری کیوں نہیں لگتی۔ یہ سبز کھیتی سر سبز کیوں نہیں لگتی۔کیوں رہ رہ کر تمہاری کراہیں ہمارے سکون کو غارت کرتی ہیں؟
حیاتِ ارضی سے روٹھنے والے میرے بچوں ! ملائکہ مقربین کے ہم نشینوں!
ہم تمہیں کتنا ہی رائیگاں کریں،تمہارے خون کو کتنا ہی بے حرمت کریں ، تمہارے ہوا میں اڑتے چیٹھروں کو کتنا ہی بے شرف کریں۔ مگر تم اس زمین کی حیاتھے۔ الہامی کتاب کے محافظ تھے۔ تمہارا سینہ میرے رب کے سب سے قیمتی خزانے کا دفینہ تھا۔تمہارا جسم دشمن نے جتنا بھی بھیانک بنا دیا ہو مگر تمہاری روح کے حسن کو کبھی کوئی زوال نہیں۔ تم ابھی زمین پر ٹکڑوں میں پڑے تھے کہ فرشتے تمہارے استقبال کے لیے اپنی بانہیں پھیلا چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنے محیط پروں میں تمہیں سمیٹ لیا تھا۔ چاند کو شرماتی تمہاری پیشانیوں کو بوسہ دیا تھا۔ تمہارا خون جہاں جہاں بہا ہے ، آسمان وہاں وہاں رشک کی نگاہوں کو ڈالتا رہے گا۔ تمہارے خون کے دھبے شاید انقلابِ زمانہ سے دُھل جائیں مگر اس کی آبرو تاقیام قیامت خود فرشتوں کی حفاظت میں رہے گی۔
اے ملائے اعلیٰ کے ساکنوں!
تو کیا ہوا،تم خاموش ہوگئے، مگر تمہاری خاموشی میں بھی گفتگو کاایک انداز ہے۔ میرے پیارے بچوں تمہاری روحوں کو جب فرشتوں نے تھاما ہوگا تو دائمی مسرت کے ابدی احساس نے تمہارے زخموں کو دھو دیا ہوگا۔ تمہیں فرشتوں نے غسل دیتے ہوئے تسلی دی ہوگی کہ اللہ تم سے کتنا خوش ہے۔تمہارے لیے یہ خوشخبری ہر خوشی سے بڑی ہوگی کہ ساقی ٔ کوثرﷺ نے حوضِ کوثر سے تمہارے لیے جامِ کوثر مخصوص کرلیے۔ سو تم نے ناقص کو چھوڑ کر کامل کو پالیا۔ فنا کو گنوا کر بقا کو گلے لگالیا۔تمہارے وجود اللہ کی حفاظت میں تعظیم وتقدیس کی روشنی پاگئے۔
اے قندوز کے بچوں!
مگر ہم کیا کریں؟ ہم اس انسانی غفلت کے لعنت کدے میں اپنی حیات کی صلیب اُٹھائے کہاں کہاں پھریں؟تم مرتے مرتے یہ کیا کرگئے!ہمارے افکار کے ناموس کا پردہ چاک کرگئے،ہمارے وجود پر زندگی کا جامہ تنگ کرگئے۔اے میرے بچوں! ہم تمہارے کتنے ہی گناہ گار ہوں، تم سے کتنی ہی بے وفائی کے مرتکب رہیں۔مگر ایک آخری التجا کرتے ہیں کہ اپنے رب سے ملتے ہوئے ہماری شکایت نہ کرنا۔ اورآخری تختِ عدالت کے بچھنے پر ہمیں ’’بأی ذنب قتلت‘‘کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرنا۔تو کیا ہوا ہم تمہارے خون میں حصہ دار ہیں۔ مگر ہم تمہارے وجود کے بھی حصہ دار ہیں۔ ہم تمہارے قاتل ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ ہم تمہارے ساتھ مقتول بھی ہیں!!!