وجود

... loading ...

وجود

زُلف بادہ و جام کی باتیں چھڑ ہی جاتی ہیں

جمعه 06 اپریل 2018 زُلف بادہ و جام کی باتیں چھڑ ہی جاتی ہیں

فاروق ستار آج کیا ہیں یہ جاننے سے پہلے یہ علم ہونا ضروری ہے کہ اپنی جماعت میں وہ بانی ایم کیو ایم کے بعد سب سے موئثر اور طاقت ور شخصیت تھے ۔ جب چھاؤں کی تلاش میں سرگرداں اہل کراچی کے سروں پر دھوپ کی چادر تنی ہوئی تھی اُس وقت بھی وہ لمبی لمبی تقریں اور طویل پریس کانفرنسیں کیا کرتے تھے ۔یوں کہہ لیں کہ پتھر کے صنم تھے تو بھی بولتے ضرور تھے یہ الگ بات ہے کہ آج ہی کی طرح آدھے ذہن کے فلسفے کا پرچار کیا کرتے اور ادھ کھلی آنکھ سے مستقبل کا منظر پیش کرتے تھے۔لیکن ان دنوں ان کی گفتگو کو سنجیدہ لیاجاتا تھا ۔ میڈیا اُن کی باتوں کو اپنے کسی ندیم کی ہمکلامی گردانتا تھا۔ ان کی سیاسی دھمکیوں سے خوف پھیلتا تھا اور ان کی پیش گوئیوں پر یقین کیا جاتا تھا ۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے تھا کہ اُن کے پیچھے طاقت تھی ۔ تنظیم اور ساتھیوں کی ۔ ایسے ساتھیوں کی جو بوجوہ ہر حُکم بجا لانے پر ہمہ وقت تیار رہتے تھے ۔

آج مجھے اپنے مرحوم دوست موسیٰ کلیم اعوان یاد آ رہے ہیں ۔ میانوالی میں فاروق ستار اور وسیم اختر کی آمد کے موقع پر انہوں نے نظامت کے فرائض انجام دیئے تھے، ان کے فن خطابت ، قیام پاکستان کے وقت کی مہاجرت اور سندھ میں مہاجروں کی تاریخ پر عبورسے کراچی سے آئے ہوئے مہمان جب متائثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تو فاروق ستارنے انہیں ایم کیو ایم میں شمولیت کی دعوت دے ڈالی ۔ اثبات کے اشارے کے منتظر کے طور پر مہمانوں کی نظریں ابھی میزبان کے چہرے پر مرکوزتھیں کہ جواب کی بجائے انہیں اس سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ’’ شمولیت کے بعد ایم کیو ایم سے علیحدگی یا واپسی کے راستے تو کھُلے رہیں گے ‘‘۔۔؟

سوال کے جواب میں کیا جانے والا سوال بڑا معنی خیز اور مہمانوں کے لیے غیر متوقع تھا ۔
فارق ستار اس موقع پر بڑے دوٹوک اور تحکمانہ انداز میں گویا ہوئے ۔۔ ’’ نہیں ایم کیو ایم میں سے علیحدگی یا واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ‘‘۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایم کیو ایم کو آزاد کشمیر اسمبلی میں دو نشستیں حاصل ہوئیں تو وہ اپنے فلسفے کا پرچار کرنے کے لیے پنجاب کے مختلف علاقوں میں راہ ہموار کرنے میں مصروف تھے ۔ اُس وقت فاروق ستار کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ وہ اپنے اور اپنی جماعت کے لیے کراچی کو ہمیشہ کے لیے محفوظ سمجھتے تھے ۔ یہ اُن کے گُمان تک میں بھی نہیں تھا کہ سورج کو بھی غروب ہونا ہوتا ہے۔

کالم لکھتے ہوئے احمد خان نیازی کی طرف سے بیان کیے گئے عمران خان کے پہلے دورہ عزیز آباد کے واقعات بھی شعور کے پردوں پر مچل رہے ہیں ۔ احمد خان نیازی ایک عظیم انسان کا پوتا اور کپتان کے پھوپھی زاد کا بیٹا ہے۔ کپتان پر جان چھڑکتا ہے اور اُس کے محافظ دستے کا سالار ہے ۔ انہوں نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ جب عمران خان نے کراچی میں ایم کیو ایم کے مرکز عزیز آباد کا دورہ کیا تو کراچی کی قیادت اس دورے کا رسک لینے پر مجبور ہو ئی ۔ ہمارا قافلہ عزیز آباد میں داخل ہوا تو ہر سو سناٹا چھایا گیا تھا ۔ تمام آبادی کی روشنیاں گُل کروادی گئی تھیں ۔ کسی کو اپنے گھر کے دروازے یا مکان و دکان کی چھت پر کھڑے ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں نے راستے کے دونوں طرف ایک قطار بنائی ہوئی تھی ۔ یہ کارکن عمران خان کے قافلے میں شریک افراد کو تنگ کر رہے تھے ۔ اس طویل قطار کا ہر تیسرا شخص ہمارے کسی ساتھی کو تھپڑ یا گھونسا مارنا اور دھکے دینا اپنا فرض سمجھ رہا تھا ۔ احمد خان نیازی کہتے ہیں کہ میں گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوئے عمران خان کے دروازے پر لٹکا ہوا تھا مجھے کئی گھونسے پڑے ۔ یہاں تک کہ وہاں سیکیورٹی ڈیوٹی پر موجود ایک پولیس اہلکار نے بندوق کا بٹ بھی مجھے دے مارا ۔‘‘

آج کے کراچی پر نظر دوڑائیں تو گذشتہ تین عشروں کی تاریخ یاد آنے لگتی ہے۔ شہریوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کی بیچارگی کا نوحہ کیا لکھا جائے ۔ ایم کیوایم کے اپنے کارکن اور مہاجر وں کی زندگی قدغنوں کے حصار میں تھی ۔ سیکٹر انچارجوں کے راج میں لوگوں کی راتوں میں کسی چاند کو بھٹکنے کی اجازت تھی اور نہ یہاں کی صُبحیں کسی سورج کا منہ چوم سکتی تھیں ۔ افراد کی سوچوں کے سارے رابطے ان کے ذہنوں تک محدود تھے۔ کراچی والے سب بہت کمزور تھے ۔ جُرمِ ضعیفی کے مارے ان لوگوں کی ’’ غذا ‘‘ تھی کہ طاقتور لوگوں کو مزید قوی کیا جائے ۔

آج کے کراچی اور فارق ستار کے حالات تاریخ کے سبق کو دوہرانے لگے ہیں۔ آج ثابت ہوگیا ہے کہ زبانوں پر تالے ہمیشہ نہیں رہتے ۔ زُلف ، بادہ اور جام کی باتیں چھڑ ہی جاتی ہیں ۔ وہ فارق ستار جو کہا کرتے تھے کہ ایم کیو ایم سے واپسی یا علیحدکی کا کوئی در نہیں کھلتا آج اپنی جماعت میں ہونے والے سو چھیدوں سے گرنے والوں کو سنبھالنے میں بُری طرح ناکام ہو چُکے ہیں ۔ جن کے بارے میںاُنہیں گُمان تھا کہ وہ ان کے دلوں میں رہتے ہیں وہ آج انہیں ایم کیو ایم کی زمین پر رہنے کی اجازت عنایت فرمانے کے لیے بھی تیار نظر نہیں آتے ۔ جو ان کے آنکھوں کے اشاروں سے پیا کرتے تھے ان کی حالت ایسی سنبھلی کہ فاروق بھائی کی بے خودی بڑھنے لگی ہے ۔ سیکٹر انچارجوں کے جبر کی دیوار گر چُکی ہے ۔۔

پی آئی بی ۔عزیز آباد اور بہادر آباد کے گھروں کے آنگنوں میں نئے صبح وشام کی روشنی اس قدر پھیل چُکی ہے کہ فاروق ستار کی جانب سے یہ دُہائی سامنے آ رہی ہے کہ 2018 ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کو کچھ نہیں ملے گا ۔ وہ اپنی مخالف رابطہ کمیٹی کے مرکز بہادر آباد جا کر بھی لوٹ آئے ہیں ۔ پھر بھی اُنہیں اپنا مدعا حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے ۔ انہوں نے رابطہ کمیٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خالد مقبول صدیقی کو میرے ساتھ اکیلے بیٹھنے کی اجازت دیں ۔ وہ آہستہ آہستہ بہادر آباد کی ساری باتین ماننے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بہادر آباد کی رابطہ کمیٹی آنکھیں بند کیے بغیر ان کا حال جان لیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے حُسن کا سورج اب ڈھل گیا ہے۔ تاریخ کا یہی سبق کہ عروج کو کہاں تک سنبھالا جا سکتا ہے ۔ دوسرے حسینوں کی طرح انہیں بھی جان لینا چاہیئے کہ آپ کے حُسن کا نعم البدل بھی ہو جائے گا ۔کالم کو تمام کرنے سے قبل محمد محمود احمد کی ایک نظم فاروق ستار کی نذر کرنا انتہائی موزوں نظر آتی ہے ۔
سچائی
محبت کھیت ہے جس پر
غموں کا مینہ برستا ہے
محبت شہر ہے جس میں
دُکھوں کی نہر بہتی ہے
وہ لڑکی ٹھیک کہتی ہے
فقط اِک دل پریمی کا
سسکتا اور بلکتا ہے
فقط اِکھ آنکھ عاشق کی
ہزاروں کرب سہتی ہے
وہ لڑکی ٹھیک کہتی ہے
محبت کرنے والوں پر
فلک بھی ظلم ڈھاتا ہے
محبت کے مسافر پر
زمین بھی تنگ رہتی ہے
وہ لڑکی ٹھیک کہتی ہے


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر