وجود

... loading ...

وجود

پتنگ اڑانے کا خونی کھیل کیسے جاری؟

جمعه 06 اپریل 2018 پتنگ اڑانے کا خونی کھیل کیسے جاری؟

ملک بھر کی تمام عدالتوں کے واضح احکامات کے باوجود پتنگ بازی کا غلیظ اور جان لیوا عمل جاری و ساری ہے کہ جنہوںنے اس کو روکنے کے لیے کاروائی کرنی ہے وہ خود ہی اس میں ملوث ہیں وگرنہ اس عمل کو روکناکوئی مشکل کام نہیں ہے، اصل صورتحال یوں ہے کہ خود پتنگ کا بنانا ڈور کو مانجھا لگانا یا کھردری دھات سے ڈور بنانا کوئی زیر زمین نہیں ہو رہا مختلف شہروں میں اس کے کئی اڈے /کارخانے قائم ہیں وہ پولیس اور متعلقہ انتظامی افسروں کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکتے بلکہ خفیہ طور پر “مناسب مال متال “سے ان کی جیبیں گرم کیے رکھتے ہیںحکمرانوں کو اپنی پڑی ہوئی ہے اس لیے ادھر کون توجہ کرے ہفتہ میں 2,3بچے یا توخونی کھردری دھاتی تار کے گردنوں پر پھر جانے سے ہلاک ہو رہے ہیں یا پھر درجن بھر شدید زخمی ۔ اس طرح بہیمانہ بچوں کا قتل جاری ہے مگر “تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو”کے مصداق حکمران “جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی” کی طرح مزید مال سمیٹنے میں شدید مصروف ہیں ۔

معصوم بچوں کے قتل سے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔یہ خطر ناک جان لیوا کاروبار روزانہ کی بنیاد پر مسلسل چلتا رہتا ہے پولیس محض فرضی کاروائیاں ڈالتی رہتی ہے غلط سلط ناموں یا پھر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات کا اندارج کرکے کاغذوں کا پیٹ بھر ڈالتی ہے تاکہ”سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے ” حکمرانوں کے پوچھنے پر یہ جعلی کاروائی دکھا سکیں اوپر تک سب اچھا کی رپورٹ ہر ایس ایچ او/اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے بھجوا دی جاتی ہے کہ پتنگ بازی قطعاً نہیں ہورہی نہ پتنگ بن رہے ہیں نہ بک رہے ہیں۔

مگر تنگ محلوں گلیوں بازاروں میں بن کر بک رہے ہیں کوئی عقل کے اندھوں سے پوچھنے والا نہیں ہے کسی ایک متعلقہ افسر کو چوک میں لٹکا ڈالا جاتا تو کم ازکم ایک سو کلو میٹر تک پتنگ بازی نہیں ہو سکتی کہ آہنی ہاتھوں سے نپٹے بغیر یہ کاروبار بند نہیں ہو سکتا روزانہ ناجائز دولت پتنگوں کے اڈوں اور فروخت کرنے والی دوکانوں سے اکٹھی کی جاتی اور اوپر تک حصہ بقدر جسہ باقاعدگی سے ہفتہ وار روانہ کی جاتی ہے کوئی آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے تو ہر طرف” پتنگوں کی بہار “نظر آئے گی ۔پھر رات گئے تک جدید ترین لائٹس لگا کر شراب و کباب اور ڈانس کی محافل چھتوں پر منعقد ہوتی ہیں ۔

امسال کی پہلی سہ ماہی میں ڈیڑھ درجن سے زائد بچے ہلاک ہو چکے کوئی قتل عمد کا نہ تو پرچہ درج ہوا اور نہ ہی گرفتاری عمل میں آئی” گونگے نوں نہ مارو اودی ماں نوں مارو جیڑھے گونگے جمدی اے” انتظامیہ یا کاروبار کرنے والوں کو چوکوں پر مثالی سزا دے ڈالو تو یہ عمل قطعاً بند ہو جائے گا الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا جب ننھی معصوم بچیوں اور بچوں کی ہلاکت کی خبریں نشر کرتا ہے توپاکستانی خون کے آنسوروتے اور ان کے لواحقین کے دلوں پر کیا بیتتی ہے” جس تن لاگے اس تن جانے” بڑے چوکوں پر متعلقین کو سزا دینے سے ہی دیکھنے والے عبرت پکڑیں گے کہ فلاں چوک پر پتنگ فروش مرغا بنے ہوئے تھے ایسا نہ کیا گیا تو یہ خونی عمل دیکھا دیکھی بڑھتا جائے گا ۔

عدالتوں کے فیصلوں کا کیا حشرہوا ؟کیا یہ صرف عدالتی کمروں میں فیصلے سنانے اور میڈیا پر صرف دکھانے کے لیے ہوتے ہیں ؟ان پر عمل در آمد کرنے کے لیے فرشتے آسمانوں سے قطعاً نہ اتریں گے کرپٹ لادین بیورو کریسی کیا صرف لوٹ مار کے کاروبار کے لیے ہی ہے؟ لاکھوں روپے ماہانہ عوامی خزانہ سے تنخواہ وصول کرتی ہے جا گنا ہو گا اور ذمہ داریاں ادا کرنا ہو ں گی بابا رحمتے اور خادم اعلیٰ کہاں ہیں؟دوبارہ از خود نوٹس لیکر تھانوں اور متعلقہ انتظامی افسران کو طلب کرکے قرار واقعی سزا دے ڈالیں تو یہ عمل بد رک سکتا ہے دوکانداروں اور پتنگوں کے بنانے والوں کے زیر زمین کارخانوں سے خونی دھاتی تار برآمد ہو قتل کے مقدمات بلا خوف تردید درج ہوں اور اس مکان کے لواحقین جہاں ساری رات چھتوں پر ڈھول ڈھمکا ہوتا ہے ایک بار تنبیہ کرکے دوبارہ گھر ہی زمین بوس کر ڈالنا چاہیے اسلامی قوانین کے سخت ہونے کا مغربی دنیا میں رونا تو رویا جا تا ہے مگر کسی ایک مجرم کو سزا ،کسی چور کا ہاتھ کٹنے اور زانی کو سنگسار کر ڈالنے کے بعد ایسے جرائم میں اٹھانوے فیصد تک کمی آجاتی ہے بڑے شہروں میں پتنگ بازی پر پابندی نہ لگائے جاسکنے کی وجہ سے چھوٹے شہروں میں بھی معصوم بچوں کا قتل خونی ڈورکے گردنوں پر پھرنے سے جاری و ساری ہے اگر حکمران اس قتل و غارت کو بند نہیں کر سکتے تو پھر خود کو نا اہل سمجھتے ہوئے استعفیٰ دیں یا پھر چلو بھر پانی میں ناک ڈوب کر اگلی دنیا کو سدھار جائیں سبھی کو کردار ادا کرنا ہو گا بالخصوص حکمرانوں کو تاکہ یہ خونی کھیل مکمل ختم ہو سکے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر