وجود

... loading ...

وجود

مخلوط نظام تعلیم

بدھ 04 اپریل 2018 مخلوط نظام تعلیم

کیاان ماں باپ کوذہنی کوفت اور سخت ترین اذیت وتکلیف نہیں پہنچتی جن کی جواں سال بیٹی کسی مخلوط نظام تعلیم کے تحت چلنے والے سکول کالج یا یونیورسٹی کو چلی جاتی ہے ؟ یہ مخلوط نظام تعلیم انگریزوں کے دور سے ہی یونیورسٹیوں کا لجوں اورا سکولوں میں چلا آرہا ہے اس کی ان گنت خرابیاں ہیں جو کہ دن دیہاڑے چمکتے سورج کی روشنی میں ہی نظر نہیں آتیں بلکہ رات کے اندھیروں میں بھی دکھلائی دیتی ہیں معاشرے میں سب فحاشی ،عریانی اسی کی بدولت پھیل رہی ہے امریکا و دیگر سامراجی ممالک میں سکرٹ پہنی ان کی نوجوان بچیاں حتیٰ کہ بیویاں تک مکمل ننگی نظر آتی ہیں اور کپڑے بھی ایسے کہ سارا بدن اس میں سے جھلکتا رہے ۔مخلوط نظام تعلیم کے بعد ننگے ڈانس کلب کھلے ہوئے ہیں جہاں دیر گئے تک لوگ اپنی بہنوں بیویوں کو ساتھ لے جا کر مشترکہ ((Coupleڈانس کرتے اور شرابوں کے جام لنڈھاتے ہیںوہاں رات کے پچھلے پہر توکسی بھی بیٹی بہن بیوی کی تمیز نہیں رہ جاتی جس مرد کو جو عورت بھی پسند آجاتی ہے اور وہ بھی آمادگی ظاہر کردے تو ان کا بھی مشترکہ جوڑا بن جاتا ہے پھر ـ”دل پشوریاں ” کرتے کرتے صبح کی پوَ پھٹنے لگتی ہے ۔تب کہیں جا کر یہ جوڑے علیحدہ ہوتے اور اپنے اپنے گھروں کو گرتے پڑتے نیم بیہوشی کے عالم میں واپس چل پڑتے ہیں اور کئی تو وہیں کلب میں اوندھے منہ پڑے رہتے ہیں ایسے مخلوط کلبوں کی ڈانسر ز بھی انتہائی جدید دور کی ڈھلی ہوئی ہوتی ہیں ان کے جسم پر بھی لباس لاکھ کہیں کہ ہے مگر نہ ہے کی طرح کا ہوتا ہے ویسے ان کلبوں میں کسی قسم کی کوئی شرم و حیاء تو کیا ہو گی؟ ہر جوڑا انتہا کی شہوتوں میں مبتلا ہو کر وہ وہ کام کر بیٹھتا ہے جس کا ہمارے مسلمان معاشرے میں بہت کم امکان ہو تا ہے مگر انگریز کے تیار کردہ مخلوط نظام تعلیم کا خنجر ہمارے ا سکول کالجوں میں ہمارے سینوں میں چبھا ہوا ہے ۔

مگر یہودیوں نصرانیوں اور سامراجیوں کے ممالک جو کہ ہمیں بھکاری سمجھ کر سود در سود قرضے فراہم کرتے ہیں ان کا ہمیشہ سے ہی یہ مزید مطالبہ رہا ہے کہ ہم بھی ان کی طرح بے غیرتیوں کے سمندر میںڈوب جائیں ان کے ہاں تو فیملی لائف کا اب تصور ہی نہیں رہاجوانی کو پہنچنے والے بچے بچیاں “پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں “گھومتی پھرتی ہیں مگرکوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں فلاں کا ہی بیٹا بیٹی ہوں کہ وہاں نوجوان بچی ہو حتیٰ کہ آپ کی بیوی تک کسی نہ کسی کی “گرل فرینڈ”لازماً ہو گی در اصل انگریز چاہتا تھا کہ مسلمانوںمیں سے غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہے تو پھر ہی یہ ہندوستان سے ہمیں نکالنے کے لیے جہاد وغیرہ سب بھول جائیں گے گرل فرینڈ رکھنے کا رجحان ہمارے ہاں بھی مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے ہی بڑھ رہا ہے لڑکیوں کے لیے علیحدہ سکولز کالجزاور یونیورسٹیاں با آسانی قائم کرسکتے ہیں مگر انگریزوں کے پالتو ہمارے لادین کرپٹ بیورو کریٹ ایسا نہیں ہونے دیتے کہ ان کی تربیت تو انگریزوں نے اسی نہج پر کی تھی تاکہ وہ خود یا پھر کوئی کلمہ گو اصل مسلمان نہ بن سکے اور نہ ہی رہ سکے تاکہ ان میں کفار کے خلاف جہادی خواہشات ہی نہ پنپ سکیں ۔

ویسے تو ہماری پاک فوج کا بھی نعرہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جس کی پورے عالم کفر ،ہندو بنیوں اور سامراجیوں کو تکلیف ہے وہ بیچارے کیا سمجھیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کے ماٹو میں کیا حکمتیں پنہاں ہیں ؟جب انگریزوں کا متحدہ ہندوستان سے چل چلائو کا دور تھا اور” جنگ آزادی”بھی ناکام ہو چکی تھی تو انہوں نے جہاد کو حرام قرار دلوانے کے لیے اپنے ایک کلرک مرزا غلام احمد کے ذریعے قادیانیت کا پود ااگایااس کی پرورش کی اس کی سینکڑوں تحریروں کو وسیع پیمانے پرچھپواتے رہے اس نے خود لکھا کہ میں نے انگریزی اقتدار کے تحفظ کے لیے اتنی کتابیں رسالے لکھے ہیں جن سے درجنوں الماریاں بھر سکتی ہیں کبھی تو پاکستان میں دینیات ایک لازمی مضمون کے طور پرپڑھایا جاتا تھا بعد ازاں قرآن مجید با ترجمہ سکولوں کالجوں میں پڑھایا جا نے لگا ۔مگرسامراجی ممالک جن کو ہمارا ایٹمی پروگرام ایک آنکھ نہیں بھاتا اور جو سود در سود قرضوں کے ذریعے ہمارے “خوراک و طعام “کا نام نہاد ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں اب تو ہمارا ہر پیدا ہونے والا بچہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہوتا ہے کہ ہمارے نا اہل حکمرانوں نے اللوں تللوں میں بھاری رقوم اجاڑ ڈالی ہیںقرضے کیسے اتریں گے کسی کو نہ پتہ ہے اور نہ ہی اس کی فکرانگریزوں کے پیروکار حکمرانوں نے قوم کو بانجھ بنا ڈالا ہے چند سال قبل ہی امریکی یہودی حکمرانوں کے حکم کے مطابق ہمارے ہاں لڑکے لڑکیوں کی اکٹھی دوڑیں شروع کروائی گئی تھیں اور یہ بھی ” مخصوص کٹ ” کے ساتھ جو لڑکی سکول کالج میںپڑھتی اس میں شامل نہ ہونا چاہے اس کا ادارہ سے اخراج کرنے کی بھی دھمکی موجود تھی۔مخلوط تعلیمی اوقات میں جب لڑکے لڑکیاں اکٹھے رہتے ہیں تو لازمی امر ہے کہ مخالف صنف ایکدوسرے کو اپنے فون نمبر دے بیٹھتے ہیں اور پھر رات گئے تک (غیر ملکی موبائل کمپنیوں نے رات گئے کا مفت پیکج دے رکھا ہے )آپس میں اپنے اپنے علیحدہ کمروں میں ” بات چیت /گپ شپ “کا سلسلہ جاری رہتا ہے بیچارے ماں باپ تو آرام فرما رہے ہوتے ہیں مگر مخلوط نظام تعلیم کے ڈسے ہوئے یہ جوڑے رت جگے کاٹتے اور محبت کی پینگیں بڑھاتے رہتے ہیں۔

ویسے بھی کالجوں یونیورسٹیوں میں کون چیک کرتا ہے کہ طالبعلم کس وقت کالج آیا اور کس وقت چھٹی کرکے چلا گیا یہیں سے جوڑے نکلتے اور عیاشیاں کرکے اور بروقت گھر پہنچ کر ماں باپ کو “مطمئن “رکھتے ہیں کئی تو ماں باپ سے پو چھے بغیر ہی کسی کافرانہ مخلوط نظام تعلیم کی “برکات “سے باہر ہی باہر ” عارضی شادیاں” رچا لیتے ہیں معاشرے میں بگاڑ اس طرح بڑھتا ہے پانچ تا چھ سال کی بچیوں کو تو مدرسہ یا سکول آتے جاتے نوجوان مرد دبوچ کر اپنی ناپاک ہوس پوری کرتے ہیں تو نوجوان بچیو ں کا کیا حشر ہوتا ہو گا؟ حکمرانوں کی ہی غیرت جاگ اٹھے تو اس مخلوط نظام تعلیم کوجڑ سے اکھاڑ کر اعلیٰ ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر