... loading ...
جب حکمران اشرافیہ خود کرپٹ ترین ہو جب انصاف غریب کی پہنچ سے دور ہو۔ ایسے میں روزگار، صحت، تعلیم کی سہولتیں خواب خیال ہوں گی۔ جہاں انصاف بکتا ہو۔ جہاں حق لینے والوں کو جاں سے گزر جانا پڑے۔جس معاشرے کے مذہبی پیشوا حکمرانوں کے حاشیہ بردار ہوں۔ جہاں مذہب کا نام گندی سیاست کے ٹھیکے داروں کے حق میں استعمال ہوتا ہو۔حکمران اشرافیہ مافیاز کا روپ دھار چکے ہوں۔منافقت، ہوس حکمران اشرافیہ کا امتیازی نشان بن چکا ہو۔اِن حالات میں قوم ہر لمحے کسی مسیحا کی تلاش میں رہتی ہے۔حکمران اشرافیہ کی حیثیت ایک ایسے قبضہ گروپ کی بن چکی ہوتی ہے کہ ہر ہر وہ شخص جو ملک کی حالت سنوارنے کی صلاحیت رکھتا ہے ایسا شخص جو قوم کے دل کی آواز بننے کی کی تگ وتاز میں ہو حکمران مافیاء ایسے شخص کے خلاف اِس بہیودگی کے ساتھ پراپیگنڈا کرتا ہے کہ اُسے غدار تک کہہ دیا جاتا ہے۔ یوں ہر ہر اُس شخص کے خلاف حکمران مافیاء مہم جوئی کرتا ہے۔ جو کسی بھی وقت اُن کے اقتدار کے لیے خطرہ بنا سکتا ہو۔پاکستانی قوم مذہب کے حوالے سے بہت حساس ہے اِس لیے جینوین مذہبی رہنمائوں کو پروان چڑھنے سے پہلے ہی یہ حکمران اُنھیں اپنی جلو میں لے لیتے ہیں اور اُن کو مالی طور پر کرپٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنہیں زمین دیتے ہیں کہ وہ مدرسہ بنائیں اُن کے لیکچرز کا اہتما م کرتے ہیں تاکہ اُن کو مذہبی معاملات میں لگائے رکھیں اور اُن کی حکمرانی بلکہ سکھا شاہی سے وہ مذہبی رہنماء صرف نظر رکھیں۔ پاکستان میں یہی کچھ پچھلی سات دہائیوں سے ہوتا آرہا ہے۔
قائد اعظمؒ کی وفات اورلیاقت علی خانؒ کی شہادت کے بعد ملک کو غلام محمد، سکندر مرزا جیسے حکمرانوں نے اپنی انانیت کی بھینت چڑھادیا۔یوں مارشل کی راہ ہموار ہوئی ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو جمہور نے یہ سمجھا کہ جس مسیحا ء کا انتظار تھا اُس کا ظہور ہوگیا ہے۔ اِسی ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے خلاف خوب مہم چلائی ۔ اِس دوران بھٹو کی دبنگ انٹری کے باوجود ملک کے خلاف بھارتی سازشوں کا مقابلہ نہ کیا جا سکا۔ یوں ایوب خان کے بعد بھٹو نے عوام کے دل کی بات کرکے عوام کے جذبات کو خوب اُبھارہا۔ لیکن بھارت نے مکتی با ہنی کے بھیس کی آڑ میںمشرقی پاکستان کو علیحدہ کردیا۔یہ وہ زخم ہے جس کا درد قوم کو گھائل کر گیا۔ لیکن پاکستان میں حکمرانی کے انداز نہ بدلے ۔ بھٹو کی انقلابی سوچ کا گلا گھونٹنے کے لیے پھر ایک مارشل لاء لگادیا گیا۔ یوں جنرل ضیاء نے ا قتدار سنبھال لیا۔ قوم نے جنرل ضیاء کو بھی کوئی مسیحا قسم کی شخصیت سمجھ لیا۔ اِس دور میں روس افغانستان میں چڑھائی کیے ہوئے تھا۔ پاکستان اُس وقت اپنی بقا کی جنگ بھی لڑ رہا تھا اُس کے ساتھ ساتھ امریکہ کا حاشیہ بردار بن کر دوسری سپر طاقت کو شکست دینے پر بھی مامور تھا۔روس کی شکست وریخت کے بعد عالمی طالع آزمائوں نے ضیاء کو بھی راستے سے ہٹا دیا۔ ضیاء نے جونیجو اور نواز شریف کو اپنے ساتھ حکمرانی کا مزا چھکایا۔ جونیجو کو تو کھڈئے لائن لگا دیا گیا لیکن نواز شریف نے ضیاء کی مہربانیوں کا حقِ نمک ادا کیا۔ یوں ضیا دور میں 1985 میں نواز شریف کی آمد سے لے کر اب تک گذشتہ تیتیس سالوں سے ملک نواز شریف کی حکمرانی میں ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی دو مرتبہ وزیر اعظم رہیں۔
درمیان میں مشرف کا دس سال دور بھی مسیحائی کا نعرہ بلند کرکے وارد ہوا لیکن نواز شریف کو جلاوطن کرکے مشرف نے غیر مقبول سیاسی قوتوںکو ساتھ ملا کر اپنا اقتدار کا وقت پورا کیا۔نواز شریف بے نظیر بھٹو ملک کی خوشحالی کے لیے جمہور کی قسمت نہ بدل سکے۔نواز شریف اور بے نظیر کے سیاسی وارث زرداری کے ہوتے ہوئے عمران خان ملکی سیاست میں فعال ہوئے ہیں پوری قوم خصوصاً نوجوانوں نے عمران خان سے بہت سی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔پاکستانی سیاست میں شاہ احمد نورانیؒ مفتی محمود اور جماعت اسلامی کی سیاست بھی ہوئی۔ طاہر القادری بھی میدان سیاست میں ہیں۔ لیکن اُن کے دو درجن سے زائد کارکنان کو لہو میں نہادیا گیا بینظیر کو شہید کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمان ہماری سیاست کا ایک انتہائی عجیب کردار ہیں وہ ہر حکمران کے ساتھ آرام محسوس کرتے ہیں وہ بیک وقت زرداری، مشرف، نواز شریف اور مرحومہ ق لیگ کے ساتھ ایسے دھاگے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں کہ پاکستانی عوام میں اُن کا ایک خاص مقام بن چکا ہے مشرف دور میں چیف جسٹس افتخار چوہدری سے محاذآرائی سے عدلیہ ایکٹیو ہوئی اب جبکہ کے نواز شریف کو نا اہل کردیا گیا ہے موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار مسیحا کا روپ دھارے ہوئے ہیں پوری قوم جناب چیف جسٹس کی جانب دیکھ رہی ہے۔
غربت کے چنگل میں پھنسی لاچار قوم کو ہر آنے والا رہنماء مسیحا ء دیکھائی دیتا ہے لیکن بعد ازاں وہ مسیحاء راہزن کا روپ دھار لیتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں مذہب کو بطور آلہ ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ موجودہ حکمرانوں نے ختم نبوتﷺ کے قانون پر ڈاکہ زنی کی۔ ملک میں افرا تفری پھیل گئی۔ یوں تحریک لبیک جو کہ خادم حسین رضوی کی جماعت ہے نے ختم نبوتﷺ کے حوالے بھرپور تحریک چلائی اور دو ہزار سترہ میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک لبیک نے اچھا خاصا ووٹ لیا۔ جماعت اسلامی کا گراف بُری طرح نیچے آگیا ہے۔نواز شریف نے ہمیشہ رائٹ کی سیاست کی لیکن اِس دور حکومت میں جس بُری طرح مذہبی طبقے کو مایوس کیا اِس کا اُس کو آئندہ عام الیکشن بھی اچھا خاصا نقصان ہو سکتا ہے۔ نواز شریف ، عمران خان، احسن اقبال جلسوں میں جوتے کھا رہے ہیں ۔ خواجہ آصف کے منہ پر تو سیاہی پھینکی گئی۔ یوں موجودہ حالات میں قوم پھر سے کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔ ہماری قوم بے چاری کب تک مسیحاوں کا منتظر رہی گی۔ بدنصیب قوم کبھی جرنیل کو کبھی چیف جسٹس کو اور کبھی سیاستدانوں کا اپنا مسیحا سمجھتی ہے لیکن حضرت قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ہنوز قوم کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔ امید قائم رکھنی چاہیے ۔ مایوسی گناہ ہے۔ پاکستان زندہ آباد۔